Inquilab Logo Happiest Places to Work

ننھے فن کار، کم سن ہتھیلیاں، گیلی مٹی اور گھروندا

Updated: February 13, 2023, 6:29 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

باغ کے ایک کنارے ببول کا تناور درخت ہے۔ ایک بند گھر سے امرود کی شاخیں جھانکتی ہیں۔پیچھے ایک طرف منڈئی ہے،اس کے آس پاس نیم کے دو درخت ہیں۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

؍۱۳ دسمبرکو صبح  ساڑھے دس بجے دھوپ کھلی ہوئی تھی ۔آسمان صاف تھا ۔دھند اور کہرے کا دور  دور تک نام ونشان نہیں تھا، سردی بھی زیادہ نہیں تھی ۔ کچھ   بچیاں والی بال کی فیلڈ میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ گرم کپڑوں میں تھیں۔ مٹی کھیل  رہی تھیں ، گھروندے بنا رہی تھیں۔کم سن تھیں، نوآموز بھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں یہ کھیل پہلی مرتبہ کھیل رہی ہیں۔ والی بال کی فیلڈ کے سامنےجامع مسجد کی وسیع وعریض عمارت ہے۔ گاؤں کا یہ حصہ ہرے بھرے درختوں سے گھرا ہوا ہے۔ ایک  طرف  امرود کا باغ ہے، دوسرے آم کے درخت ہیں۔ باغ کے ایک کنارے  ببول کا تناور درخت ہے۔  ایک بند گھر سے امرود کی شاخیں جھانکتی ہیں۔پیچھے ایک طرف منڈئی ہے،اس کے آس پاس نیم کے دو درخت ہیں۔
    قریب میں نوجواں کی محفل سجی تھی۔ چارپائیاں بچھی  ہوئی تھیں۔ ان پر کچھ سوئے تھے،کچھ بیٹھے تھے ،دھوپ سینک رہے تھے۔  ان  سے چند قدم کے فاصلے پربچیاں اپنے اطراف سے بے خبر تھیں،اپنی ننھی ہتھیلیوں سے گیلی  مٹی سان رہی تھیں۔ اپنے فن کا مظاہرہ کررہی تھیں۔کوئی ان کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا ، داد دینا تودور کی بات ہے ، حالانکہ وہ مسلسل  اپنے بڑوں کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ جیسا تیسا گھروندا تیار کرتیں ، ادھر ادھر دیکھتیں،کوئی ان کی طرف نہیں دیکھتا تو وہ پھر ان کا نقشہ بگاڑ دیتیں اور مٹی کو پھر سے مٹی میں ملا دیتیں۔ اس طرح وہ بہت دیر تک کھیلتی رہیں۔  ان بچیوں کو دیکھ کر لگ رہا تھاکہ گاؤں ابھی باقی ہے، اس کی روایت زندہ  ہے۔ مٹی میں سنی ہوئی ننھی ہتھیلیاں ایک پیغام دے رہی تھیں،گاؤں کو بچانے کی التجا کررہی تھیں۔ عہدگزشتہ کو آواز دے رہی تھیں۔ ایک زمانہ تھاجب ہر موسم  میں ہر گھر کے باہر اس طرح سے گھروندے بنائے جاتے تھے۔ یہ  عام بات تھی۔ کیا بچہ اور کیا  بچی ؟ ہر کوئی اپنے گاؤں کی مٹی کے ساتھ گھنٹوں وقت گزارتا تھا۔ اسے اپنے ہاتھوں میں لگاتا تھا، اسے اپنے پیروں  سے چھوتا تھا۔ بچاتے بچاتےاجلےکپڑوں میں بھی مٹی لگ جاتی تھی ۔اس پرگھر کے بڑی بوڑھیاں گھورتی تھیں۔ روزانہ کپڑا گندہ نہ کرنے کی نصیحت کرتی تھیں مگر بچوں پر اس کا اثر ہی نہیں ہو تا تھا۔ مٹی  سے جو  ایک بار یاری  ہوگئی، پھر اسے کئی برس تک نبھانا پڑتا تھا۔مٹی سے کھیلنا ایک نشہ جیسا تھا۔ کھیل کھیل میں بات بھی بگڑ جاتی تھی۔ اس وقت ایک دوسرے کے گال پر مٹی لگائی جاتی تھی۔ مٹی کے گولے بنا کر کپڑوں پر پھینکنے کا بھی چلن تھا۔ یہ ایک طریقے سے غصے کا اظہار ہوتاتھا۔ مگر دوسرے ہی دن غصہ ہرن ہوجاتاتھا، دشمنی دوستی میں بدل جاتی تھی،انگلیاں ملا کردوستی بحال کی جاتی تھی۔اسی مٹی کے بہانے  بچے پھر ملتے  اور اپنی ننھی ہتھیلیوں سے مٹی  کے ایک سے بڑھ ایک فن پارے تیارکرتے۔  اپنی تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے۔ پورا پورا گھر بنا دیتے۔ اس میں سب کچھ ہوتا تھا۔ بھینسیں،بکریاں اور مرغیاں بھی ہوتی تھیں۔  یہ ننھے فن کار  ہاتھ روک روک کر اس گھر میں مٹی  ہی کی سائیکل اور اسکوٹر بھی کھڑی کردیتے ۔دادی اماں کا بھی ایک مجسمہ بنادیتے، قریب میں ان کا پاندان بھی رکھ دیتے،اس گھروندے میں دادا کا حقہ بھی نظر آتا۔
  اس میں وہ گھنٹوں کھوئے رہتے تھے۔ صبح سے شام ہو جاتی تھی۔ بنانے بگاڑنے میں انہیں اتنا مزہ آتاتھا کہ وہ بھوک پیاس تک بھول جاتے تھے۔بڑے بوڑھے انہیں پکڑ کر زبر دستی گھر لے جاتے تھے۔کبھی اس شوق کی قیمت بھی چکانی پڑتی تھی۔ڈانٹ سننی پڑتی تھی،بہت دیر تک بھوکے پیاسے رہنے کی سزا بھی ملتی تھی، آئندہ گھر سے نکلنے پر پابندی کی دھمکی بھی دی جاتی تھی۔ کچھ  بڑے بوڑھے فن پارے دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے تھے اور اس فن پار ے کو خود قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ دوسروں کو بھی دکھاتے تھے ۔ فخر سے کہتے تھے ،’’ دیکھا مورا ببوا یا بنی کتنی محنت  سے مٹیا سے ای کھلونا بنائے سے ہے، بہت دماگ ہے ای کے، کل تو کل ہمرا ہکوو بنائس ہے.....ہمرے بابو یا بنی کا نجر نہ لاگے۔‘‘ (  دیکھئے مرے  بچے یا بچی نے کتنی محنت سے  یہ گھروندہ بنایا ہے، بہت دماغ ہےاس کے پاس ،کل تو کل ہمارا حقہ بھی بنایا ہے،ہمارے بابو یا بنی کو نظر نہ لگ جائے۔ )  
       سچ پوچھئے تو اس زمانے میں مٹی  سےکھیلنا اور گھروندا  بنانا گاؤں کی روایت کا حصہ تھا۔  جس نے مٹی کو ہاتھ نہیں لگایا اور گھروندا بنا کر اسے توڑا نہیں، اپنے ہاتھوں سے مسلا نہیں ، اس کا بچپن  ادھورا تصور کیا جاتا تھا۔سچ پوچھئے تو اس زمانے میں جابجا مٹی نظر آتی تھی، اکثر گھر کچے تھے،مٹی کے تھے، راستے بھی کچے تھے،نوجوان اور بڑے بوڑھے کھیتوں میں کام کرتے تھے، ان کے ہاتھ پیر میں مٹی لگی رہتی تھی، گویا وہ مٹی کا دور تھا، ایسے میں مٹی کھیلنے کیلئے سازگار ماحول تھا، اسی لئے بچوں کو بھی اس کھیل میں مزہ آتا تھا، یہی کھیل انہیں بھاتا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK