اس میں کوئی انسانی عمل دخل نہیں ہے اور اس میں موسم کا لحاظ نہیں کیاگیا ہے۔ قمری سال کبھی سردیوں میں شروع ہوتا ہے اور کبھی گرمیوں میں، کبھی بہار میں اور کبھی خزاں میں، زمین کے گرد چاند کے بارہ چکروں کی مجموعی مدت ۳۵۴؍ دن ۲۸؍ منٹ ۳۴؍ سیکنڈہوتی ہے۔
EPAPER
Updated: June 27, 2025, 5:15 PM IST | Ghulam Nabi Kashaf | Mumbai
اس میں کوئی انسانی عمل دخل نہیں ہے اور اس میں موسم کا لحاظ نہیں کیاگیا ہے۔ قمری سال کبھی سردیوں میں شروع ہوتا ہے اور کبھی گرمیوں میں، کبھی بہار میں اور کبھی خزاں میں، زمین کے گرد چاند کے بارہ چکروں کی مجموعی مدت ۳۵۴؍ دن ۲۸؍ منٹ ۳۴؍ سیکنڈہوتی ہے۔
آج کی دنیا میں ماہ وسال اور حساب کتاب رکھنے کے لیے دو معروف کیلنڈر موجود ہیں ۔ ایک شمسی اور دوسرا قمری، شمسی کیلنڈر پوری دنیا میں رائج ہے خاص کر کاروباری معاملات اس کے مطابق چلتے ہیں جبکہ قمری کیلنڈر صرف مسلمانوں تک نیز ان کے مذہبی معاملات تک محدود ہوگیا ہے۔ شمسی کیلنڈر کو عام زبان میں عیسوی سنہ کہا جاتا ہے۔ اس کے لئے مشہور ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب ہے۔ اصل میں اس عیسوی سنہ پر کوئی ثقہ اور مضبوط دلیل موجود نہیں ہے بلکہ قرینِ قیاس یہی ہے کہ اس سنہ کی نسبت حضرت عیسیٰؑ کی طرف تخمینی نوعیت کی ہے۔
مگر اس شمسی وعیسوی کیلنڈر کے برعکس قمری کیلنڈر ہی حقیقی، قدرتی اور نظامِ کائنات کے عین مطابق ہے، اس میں کوئی انسانی عمل دخل نہیں ہے اور اس میں موسم کا لحاظ نہیں کیاگیا ہے۔ قمری سال کبھی سردیوں میں شروع ہوتا ہے اور کبھی گرمیوں میں ، کبھی بہار میں اور کبھی خزاں میں ، زمین کے گرد چاند کے بارہ چکروں کی مجموعی مدت ۳۵۴؍ دن ۲۸؍ منٹ ۳۴ٖ سیکنڈہوتی ہے۔ ہرقمری سال ہمیشہ اتنی ہی مدت کا ہوتا ہے۔ یہی قمری سال مسلمانوں کے ہجری کیلنڈر میں شمار ہوتا ہے۔ مسلمانوں نے قمری سال کیوں اختیار کیا؟ اس سلسلے میں بطور دلیل قرآن کی چند آیات کو پیش کیاجاتا ہے:
’’اللہ وہی ہے جس نے سورج کو چمکتا بنایا اور چاند کو روشنی دی اوراسی (چاند) کی منزلیں مقرر کر دیں ، تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب معلوم کرسکو۔ اللہ نے یہ سب بامقصد بنایا ہے۔ وہ اپنی نشانیوں کو کھول کر بیان کرتا ہے ان لوگوں کے لئے جو جانتے ہیں ۔‘‘ (یونس:۵)
قرآن کی اس آیت نے سورج اور چاند کی اصل حیثیت متعین کی ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ محض انسانوں کی خدمت کے لئے ہیں اور ان کے حساب کتاب کو درست رکھنے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ چاند کو ماہ وسال کا تعین کرنے کے لئے انسان کی خدمت کرنے پر مامور کیا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن ہی میں ایک اور جگہ ارشاد بھی آیا ہے:
’’لوگ آپ سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں ، کہو، یہ لوگوں کے لئے اورخاص طور پر حج کی تاریخوں کی تعیین کا ذریعہ ہے۔‘‘(البقرہ: ۱۸۹)
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے آخر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تحریر فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ گھٹتا بڑھتا چاند تمہارے لئے اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک قدرتی جنتری ہے، جو آسمان پر نمودار ہوکر دنیا بھر کے لوگوں کو بیک وقت ان کی تاریخوں کا حساب بتاتی رہتی ہے۔ حج کاذکر خاص طور پر اس لئے فرمایا کہ عرب کی مذہبی، تمدنی اور معاشی زندگی میں اس کی اہمیت سب سے بڑھ کر تھی، سال کے چار مہینے حج اور عمرہ سے وابستہ تھے، ان مہینوں میں لڑائیاں بند رہتیں ، راستے محفوظ ہوتے اور امن کی وجہ سے کاروبار فروغ پاتے تھے۔‘‘ (تفہیم القرآن، جلد۱، صفحہ ۱۴۹)
قرآن نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی تعداد زیادہ ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے:
’’بے شک مہینوں کی (صحیح) تعداد اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں ۔ جو اللہ کی کتاب میں ہے۔ جس دن سے اس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا، ان میں سے چار (مہینے) حرمت والے ہیں یہی سیدھادین ہے۔‘‘
(التوبہ:۳۶)
اس آیت کی تفسیر میں مولانا شمس پیرزادہ لکھتے ہیں :
’’اللہ نے جس وقت آسمان و زمین تخلیق فرمائے اسی وقت زمین والوں کے لئے چاند کو قدرتی تقویم (Natural Calender) کی حیثیت دے دی۔ چنانچہ اس کاگھٹنا اور بڑھنا عام مشاہدے کی چیز ہے۔ اور ان علامتوں کو دیکھ کر تاریخوں کا تعین بہ آسانی ہوجاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ مہینے کا آغاز کب ہوا اور اختتام کب؟ پھر اس کائنات کے خالق نے انسان کے لئے سال کے شمار کا جو ضابطہ اول روز سے مقرر فرمایا ہے وہ بارہ قمری ماہ کا ہے اور یہ رہنمائی وحی الٰہی کے ذریعے انسان کو ملتی رہی ہے اور جہاں تک عربوں کاتعلق ہے ابراہیم ؑکے زمانے سے قمری سال (Lunar year) ہی رائج چلا آرہا تھا اور مہینوں کے عربی نام یہ تھے:
(۱) محرم (۲) صفر (۳) ربیع الاول (۴) ربیع الآخر (۵) جمادی الاولیٰ (۶) جمادی الآخرۃ (۷) رجب (۸)شعبان (۹) رمضان (۱۰) شوال (۱۱) ذوالقعدۃ اور (۱۲) ذوالحجہ۔ آج بھی اسلامی دنیا میں قمری سال ہی رائج ہے اور مہینوں کے یہی نام چلے آرہے ہیں ۔‘‘
(دعوۃ القرآن، جلد۱، ص:۲۴۷)
اگرچہ نزول قرآن کے وقت عرب میں یہی قمری کیلنڈر رائج تھا لیکن اہل عرب قمری مہینوں کی ترتیب میں الٹ پھیر کیا کرتے تھے جس کو وہ نسئی کہتے تھے۔ قرآن نے اس کا ذکر یوں کیا ہے:
’’نسئی( مہینوں میں الٹ پھیر کرنا) کفر میں سراسر زیادتی ہے جس سے کفر کرنے والے گمراہی میں پڑتے ہیں ۔ وہ کسی سال حرام مہینے کو حلال کردیتے ہیں اور کسی سال اس کو حرام کردیتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے حرام کئے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری کرلیں اور اس کے حرام کئے ہوئے کو حلال کرلیں ۔ ان کے برے اعمال ان کے لئے خوشنما بنا دیئے گئے ہیں اور اللہ انکار کرنے والوں کو راستہ نہیں دکھاتا۔‘‘ (التوبہ:۳۷)
قرآن مجید کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے نسئی کو حرام قرار دیا ہے اور اسے کفر میں زیادتی بھی کہا ہے۔ نسئی کے معنی عربی زبان میں تاخیر یعنی مؤخر کرنا یاہٹانا کے ہیں ۔
اس طرح اسلام نے مشرکین عرب کے اس ’نسئی‘ کے قاعدے کو باطل اور اسے کفر میں زیادتی کے مترادف قرار دیا ہے اور قدرتی و فطری تقویم کو اپنی اصل شکل میں قائم کیا، چنانچہ حجۃ الوداع ۱۰ھ کے موقع پر اسلامی تقویم (Islamic calender) کے حوالے سے جو خطاب پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا تھا وہ بخاری کی روایت کے مطابق اس طرح آیا ہے:
’’حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، بے شک زمانہ گردش کرکے اپنی اس دن کی ہیئت پر آگیا جس دن کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہے، جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں ، تین متواتر ہیں ، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب مضر (مضر قبیلہ کی طرف منسوب جو رجب کی تعظیم کرتا تھا اور اپنے مقام سے اسے ہٹاتا نہیں تھا) جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘ (فتح الباری، کتاب التفسیر، باب قولہ ان عدۃ الشہور عند اللہ اثنا عشر شہرا، حدیث نمبر ۴۶۶۲، ج۸، ص: ۴۱۳)
یہ کہنا مشکل ہے کہ ہفتہ کے سات دن، مہینے کے تیس یا انتیس دن اور سال کے بارہ مہینوں کا حساب کب سے مقرر کیاگیا۔ اس سلسلے میں کوئی ثقہ دلیل یا ثبوت تو نہیں ملتا ہے کہ کب سے اس کی شروعات ہوئی لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ ابتدائی دنیا اسی قاعدے پر عمل کرتی رہی ہوگی۔ چاند کاگھٹنا بڑھنا، انسانوں کا روزکا مشاہدہ ہے اور اس سے وہ دنیاوی معاملات کو متعین کرتے آئے ہیں ، جب اسلام آیا تو اس نے اپنے الہامی وآفاقی احکام و تعلیمات کے ساتھ ساتھ قمری کیلنڈرکو بھی اپنی اصل اورقدرتی ہیئت میں پیش کیا اور پھر اس کو اسلامی کیلنڈر کے طور پر رائج کیا۔ مثال کے طور پر رمضان کے ایام (انتیس یا تیس کا تعین) بیوہ یا مطلقہ کی عدت، مدت حمل، رضاعت، عیدین، حج اور زکوٰۃ کے حسابات قمری کیلنڈر کے مطابق انجام پاتے ہیں ۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمان اپنا ہر کام اور ہر پروگرام تشکیل دیتے وقت قمری کیلنڈر کے مقابلے میں شمسی کیلنڈر کو اہمیت دیتے ہیں ۔ ہمارے بیشتر اخبارات و رسائل میں شمسی کیلنڈر کو فوقیت دی جاتی ہے اور قمری کیلنڈر کو حاشیے میں رکھ دیاجاتا ہے بلکہ ہمارے جو ماہنامہ دینی رسائل ہیں وہ بھی شمسی کیلنڈر کے مطابق شائع ہوتے ہیں بلکہ مضامین اور خطوط لکھتے وقت بھی قمری کیلنڈر سے بے اعتنائی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ ہم شمسی کیلنڈر کی تاریخ تو لکھ دیتے ہیں مگر قمری کیلنڈر کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں ۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنے اخبارات، رسائل، خطوط ومضامین میں اوراپنے ہر کام اور ہرپروگرام کو تشکیل دیتے وقت اسلامی کیلنڈر کے مطابق تاریخ لکھنے کی عادت ڈالیں ۔ پیغمبر اسلام ﷺ یہودو نصاریٰ کے عادات واطوار کے مقابلے میں اسلام کی امتیازی چیزوں کو اہمیت دیتے تھے اور کسی بھی ایسے فعل سے منع کرتے تھے جس سے یہودونصاریٰ اورد وسرے غیر اسلامی اقوام سے کسی طرح کی مشابہت و مماثلت ہوتی ہے۔ اسی طرح ہمیں چاہئے کہ ہم اسلامی کیلنڈر کو اپنے ماہ وسال کی پہچان بنائیں اور اسلام کو ہر حیثیت سے آفاقی و الہامی دین کے طور پر پیش کریں :
’’بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل دین صرف اسلام ہے۔‘‘(آل عمران: ۱۹)
’’اور جوشخص اسلام کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نامراد ہوگا۔‘‘(آل عمران: ۸۵)
’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجائو اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو، وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ (البقرہ: ۲۰۸)
ہجری سال کی ابتداء
قمری سال کےبارے میں تفصیلات کے باوجود یہ سوال باقی رہتا ہے کہ مسلمانوں میں جو سنہ ہجری رائج ہے، اس کی مستقل ابتداء کب سے ہوئی ہے؟ اس سلسلے میں علامہ شبلی نعمانی تحریر فرماتے ہیں :
’’اس کی ابتدایوں ہوئی کہ ۱۶ھ میں حضرت عمر ؓ کے سامنے ایک چک (اقرار نامہ کی شکل میں ) پیش ہوئی۔ صرف شعبان کا لفظ لکھا تھا، حضرت عمرؓ نے کہا یہ کیونکر معلوم ہو کہ گزشتہ شعبان کامہینہ مراد ہے یا موجودہ، اسی وقت مجلس شوریٰ منعقد کی۔ تمام بڑے بڑے صحابہ جمع ہوئے اور یہ مسئلہ پیش کیاگیا، اکثر نے رائے دی کہ فارسیوں کی تقلید کی جائے، چنانچہ ہرمز ان کو جو خوزستان کا بادشاہ تھا اور اسلام لاکر مدینہ منورہ میں مقیم تھا، طلب کیاگیا، اس نے کہا ہمارے ہاں جو حساب ہے اس کو ماہ اوز کہتے ہیں اور اس میں مہینہ اور تاریخ دونوں کا ذکر ہوتا ہے، اس کے بعد یہ بحث پیدا ہوئی کہ سنہ کی ابتدا کب سے قرار دی جائے ؟ حضرت علیؓ نے ہجرتِ نبویؐ کی رائے دی اور اس پر سب کا اتفاق ہوگیا، آنحضرت ﷺ نے ربیع الاول میں ہجرت فرمائی تھی یعنی سال میں دو مہینے ۸؍دن گزرچکے تھے، اس لحاظ سے ربیع الاول سے آغاز ہوناچاہئے تھا لیکن چونکہ عرب میں سال محرم سے شروع ہوتا ہے اسلئے دو مہینے آٹھ دن پیچھے ہٹ کر شروع سال سے سنہ قائم کیا۔‘‘ (الفاروق حصہ دوم، ص: ۱۳۰)
مشہورمؤرخ اور سیرت نگار ڈاکٹر علی محمد الصلابی لکھتے ہیں :
’’علامہ ابن حجر نے (فتح الباری میں ) فرمایا کہ تاریخ کی ابتداء محرم سے ہوئی ربیع الاول سے نہیں ہوئی جس میں نبی ﷺ کی ہجرت ہوئی تھی۔ اس کاسبب یوں بیان فرمایا کہ صحابہ کرامؓ اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ امور جن سے تقویم کی ابتداء کی جاسکتی ہے وہ چار ہوسکتے ہیں ۔ آپؐ کی ولادت باسعادت، بعثت، ہجرت اوروفات، پھر انہوں نے دیکھا کہ ولادت اور بعثت کی تاریخوں میں اختلاف پایاجاتاہے۔ تاریخ وفات کو اس لئے درست نہ سمجھا کہ یہ تاریخ مسلمانوں کے غم ورنج کو تازہ کرتی رہے گی، لہٰذا سب ہجرت پر متفق ہوگئے۔ انہوں نے ربیع الاول کے بجائے محرم سے تقویم کی ابتدا کی، کیونکہ ہجرت کا ارادہ محرم میں ہوا تھا، بیعت عقبہ ثانیہ ذوالحجہ کے مہینے میں ہوئی تھی جو ہجرت کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ پس سب سے پہلا چاندجو اس بیعت کے بعد طلوع ہوا وہ محرم کا تھا، چنانچہ مناسب یہی خیال کیاگیا کہ محرم سے اسلامی تقویم کی ابتدا کی جائے۔ ابن حجر فرماتے ہیں یہی وہ سب سے زیادہ مناسب سبب باور کیا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے اسلامی تاریخ کا آغاز محرم سے ہوا۔‘‘ (سیرت عمر فاروقؓ، ج۱، ص:۲۸۰)