• Thu, 11 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

معاشیانہ: ببل ٹی؛ ایک ’’ٹیسٹی ٹرینڈ‘‘ یا مخفی کیلوریز کا خطرناک کھیل؟

Updated: December 11, 2025, 4:48 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

چند سال قبل تک ہندوستان کے کیفے اور سڑکوں پر یہ مشروب بالکل نظر نہیں آتا تھا مگر اب ببل ٹی ایک فیشن، ایک طرزِ زندگی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی ایک صنعت بن چکی ہے۔

Picture: INN
تصویر:آئی این این
ممبئی کی ایک مصروف شام ہے۔ ایک نوجوان ایک کیفے میں بیٹھا رنگ برنگے مشروب کا ویڈیو بناتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ ’’یہ ہے میرا نیا فیورٹ مشروب ’’چیوی ٹپیؤکا (Chewy Tapioca)!‘‘ بتادیں کہ اسے عام زبان میں ’’ببل ٹی‘‘ (Bubble tea) یا ’’بوبا ٹی‘‘ (Boba Tea) کہتے ہیں۔ چند برسوں قبل تک ہندوستان کے کیفے اور سڑکوں پر یہ مشروب بالکل نظر نہیں آتا تھا مگر اب ببل ٹی ایک فیشن، ایک طرزِ زندگی اور ایک تیزی سے بڑھتی ہوئی صنعت بن چکی ہے۔
ببل ٹی کی ابتدا ۱۹۸۰ء کی دہائی میں تائیوان سے ہوئی مگر گزشتہ دس برسوں میں یہ مشروب عالمی سطح پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی صنعت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ امریکہ سے لے کر کوریا، جاپان سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک، ہر جگہ اس کے شوقین موجود ہیں۔ بڑے سرمایہ کار اب اسے youth-driven beverage economy کہتے ہیں کیونکہ اس کے بیشتر صارف، نوجوان طبقہ ہے۔ یعنی وہی طبقہ جو سوشل میڈیا پر ٹرینڈز بناتا اور بدلتا ہے۔ خیال رہے کہ انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کے ویڈیوز ہی کی بدولت ببل ٹی ایک عالمی ثقافتی رجحان میں بدلی ہے۔ ہمارے ملک میں ببل ٹی کی آمد نسبتاً دیر سے ہوئی، لیکن اس کی ترقی اور اسے اپنانے کی رفتار حیران کن طور پر تیز رہی۔ شہروں کی نوجوان نسل کافی اور آئس ٹی سے آگے کچھ نیا چاہتی تھی، اور ببل ٹی اس چاہت کا جواب بن کر سامنے آئی۔ گزشتہ چند برسوں میں دہلی، ممبئی، پونے، بنگلورو اور حیدرآباد جیسے شہروں میں ببل ٹی کیفے تیزی سے کھلے ہیں۔ فنانشیل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی آئس کریم اور مشروبات کی صنعت تقریباً ۲۰؍ ارب ڈالر کی ہے، جس میں ببل ٹی کی موجودگی نئی جغرافیائی اور معاشی وسعت پیدا کر رہی ہے۔
مقامی تاجروں کیلئے بھی یہ ایک سنہری موقع بن گئی ہے۔ ایک چھوٹا ببل ٹی اسٹارٹ اپ کھولنے میں لاگت نسبتاً کم آتی ہے جبکہ منافع کا مارجن زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی نوجوان انٹرپرینیور اس جانب متوجہ ہو رہے ہیں۔ کچھ نے مقامی ذائقوں، مثلاً گلاب، الائچی، کیری، مسالہ چائے، کے ساتھ تجربات کر کے اسے ’’انڈینائزڈ ببل ٹی‘‘ بنا دیا ہے، جس سے اس کی فروخت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ملک کی نوجوان آبادی، بڑھتا ہوا متوسط طبقہ، اور تجرباتی خوراک (کھانے پینے کی نئی اشیاء) میں دلچسپی اس مارکیٹ کو ۲۰۳۰ء تک کئی گنا بڑھا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ڈیلیوری ایپس، جیسے زومیٹو اور سویگی وغیرہ نے ببل ٹی کو گھر گھر پہنچا کر مارکیٹ کو مزید وسیع کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر مشہور کمپنیاں ہندوستان کی طرف متوجہ ہورہی ہیں۔ ان میں بعض نے مشترکہ سرمایہ کاری کے ذریعے مقامی پارٹنرشپ قائم کرنے کا اشارہ بھی دیا ہے۔
لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا ببل ٹی صحت بخش ہے؟جان لیں کہ ببل ٹی جتنی دیدہ زیب ہے، اتنی ہی پیچیدہ بھی۔ٹپیؤکا پرلز (Tapioca Pearls) جو اس مشروب کی جان سمجھے جاتےہیں، عام طور پر نشاستے سے بنتے ہیں جن میں غذائیت نہ کے برابر ہے۔ ایک عام ببل ٹی میں موجود ٹپیؤکا پرلز کی کیلوریز ۱۵۰؍ سے ۲۰۰؍ کیلوریز تک ہوسکتی ہے جبکہ اس کے ایک کپ میں جب مختلف چیزیں ملائی جاتی ہیں تو اس کی کیلوریز ۳۰۰؍ سے ۴۵۰؍ کیلوریز تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس میں شکر کی مقدار بہت زیادہ ہے، جو ذیابیطس، وزن میں اضافے، اور میٹابولک مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ کچھ تحقیق یہ بھی بتاتی ہیں کہ اگر ببل ٹی میں استعمال ہونے والا مِلک پاؤڈر مصنوعی ہو تو اس میں غیرصحتمند چربی اور اضافی کیمیکلز بھی ہو سکتے ہیں۔ گویا یہ ایسا ہی ہے کہ صرف ذائقہ کیلئے اپنی صحت کو نقصان پہنچانا۔ 
کیا صحت مند ببل ٹی ممکن ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ جیسے جیسے صارف کا شعور بڑھ رہا ہے، ببل ٹی انڈسٹری میں ببل ٹی کے صحت مند متبادل بھی آرہے ہیں۔ کچھ کیفے کم شکر، اسٹیویا، گڑیا شہد استعمال کر رہے ہیں۔ کچھ نے پھلوں والی (مٹھاس کیلئے) ببل ٹی متعارف کروائی ہے۔ اسی طرح ٹپیؤکا پرلز کی جگہ جیل، کچیاز سیڈز یا اوٹس پرلز بھی استعمال ہونے لگے ہیں، جنہیں نسبتاً صحت بخش سمجھا جاتا ہے۔ ہندوستان میں فٹنس کلچر تیزی سے بڑھ رہا ہے اسلئے مستقبل میں ’’ہیلدی ببل ٹی‘‘ ایک منفرد مارکیٹ بنا سکتا ہے جس سے نہ صرف صارفین بلکہ کاروباری طبقہ بھی فائدہ اٹھائے گا۔ معاشی ماہرین کے مطابق اگر ببل ٹی کا رجحان اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو یہ ہندوستان میں ۵؍ تا ۷؍ سال میں مشروبات کا ایک منفرد اور بڑا مارکیٹ بن جائے گا۔ لیکن صحت سے متعلق خدشات اس کیلئے ایک چیلنج ضرور ہیں۔ حکومت کی جانب سے شوگر لیول ریگولیشن اور فوڈ لیبلنگ قوانین سخت ہونے پر اس صنعت کو مزید ذمہ دارانہ سمت اختیار کرنا ہوگی۔
پکچر ابھی باقی ہے، میرے دوست! 
ممبئی کے اسی کیفے میں لوٹ آئیں۔ نوجوانوں کا ایک گروپ ببل ٹی کا کپ تھامے خوشی سے مسکرا رہا ہے۔ شاید وہ اسے صرف ایک مشروب نہیں بلکہ ایک تجربہ سمجھتے ہیں۔ ببل ٹی کی یہی خصوصیت ہے؛ ذائقہ، جاذبیت اور تجربہ۔ اور یہی چیزیں اسے مستقبل کی ہندوستانی معیشت میں اہم مقام دے سکتی ہیں۔ مگر ساتھ ہی یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ معیشت کی دوڑ میں صحت کہیں پیچھے نہ رہ جائے۔اب فیصلہ صارف کے ہاتھ میں ہے: ذائقہ یا صحت، یا دونوں کا متوازن امتزاج۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK