Inquilab Logo

معاشیانہ: غیر قانونی تارکین وطن کا ملک کی معیشت میں اشتراک

Updated: December 04, 2023, 5:29 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کافی سہولیات ہیں، اسلئے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن عوامی وسائل کا استعمال تو کرتے ہیں لیکن ملک کو کچھ دیتے نہیں ہیں، اس سے مقامی باشندوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔

In countries with large immigrant populations, the labor market is most affected. Photo: INN
جن ممالک میں تارکین وطن زیادہ ہیں، وہاں کا لیبر مارکیٹ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ تصویر : آئی این این

غیر قانونی تارکین وطن، اپنے آبائی ملک (اگر وہاں ان کا خاندان ہے) اور جہاں آباد ہیں، وہاں کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ غیر قانونی امیگریشن، امریکہ، جرمنی اور برطانیہ جیسے تارکین وطن دوست ممالک میں ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ یہ ان کے معاشی اور فلاحی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ قانونی امیگریشن کسی بھی ملک کو متنوع افرادی قوت اور ہنر مند افراد جیسے کئی فوائد دے سکتا ہے۔ امریکی بیورو آف لیبر شماریات کے مطابق ۲۰۲۰ء میں تقریباً ۱۷؍ فیصد امریکی لیبر فورس تارکین وطن پر مشتمل تھی۔ اسی طرح ۲۰۱۸ء میں امریکہ میں ۳۲؍ فیصد تارکین وطن گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ تھے۔ 
 قابل غور نکتہ ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کھپت کے ذریعے اور مختلف قسم کے ٹیکس ادا کرکے ملک کی معیشت میں اشتراک کرتے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک میں چونکہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کافی سہولیات ہیں ، اس لئے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن عوامی وسائل کا استعمال تو کرتے ہیں لیکن ملک کو کچھ دیتے نہیں۔ یہ عدم توازن عوام کیلئے مختص کئے جانے والے فنڈ کیلئے خطرناک اور قانونی طور پر رہنے والے باشندوں کیلئے مضر ثابت ہوسکتا ہے۔ جن ممالک میں تارکین وطن زیادہ ہیں ، وہاں کا لیبر مارکیٹ بری طرح متاثر ہوتا ہے کیونکہ غیر قانونی تارکین وطن اکثر کم ہنر مند ہوتے ہیں اور وہ ان شعبوں میں ملازمت کرتے ہیں جہاں زیادہ صلاحیتوں یا ہنر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بعض اوقات ان شعبوں میں وہ کم از کم اجرت کو مزید کم کردیتے ہیں۔ 
 کیلیفورنیا کے پبلک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، غیر ملکی کارکنوں کی اجرت امریکی نژاد کارکنوں کے مقابلے میں ۱۲؍ فیصد کم ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ تارکین وطن اجرت کی تقسیم کو کیسے تبدیل کرسکتے ہیں۔ یہی نہیں اگر غیر قانونی تارکین وطن وہی کام کرنے لگیں تو اس اجرت میں مزید تخفیف ہوسکتی ہے۔ اب آپ سوچئے کہ اگر ایک امریکی کنسٹرکشن ملازم دن کے ۱۰۰؍ ڈالر کمارہا ہے تو، تارک وطن اسی کام کے ۱۲؍ فیصد کم یعنی ۸۸؍ ڈالر ہی وصول کرے گا۔ اگر یہی کام غیر قانونی تارک وطن کرے تو وہ اس کے ۵۰؍ ڈالر سے بھی کم لے سکتا ہے۔ کمپنیوں کو گائیڈ لائنس دی جاتی ہیں کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کو ملازمت کے مواقع نہ دیں ، اس کے باوجود کمپنیاں ان سے غیر قانونی طریقے سے کام کرواتی ہیں۔ اس طرح کمپنیوں کا خرچ کم ہوجاتا ہے جبکہ منافع بڑھ جاتا ہے۔ غیر ہنر مند غیر قانونی تارکین وطن بعض اوقات زراعت اور ٹورزم جیسی صنعتوں میں مزدوروں کی کمی کو پورا کرتے ہیں ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان پر لگا ’’غیر قانونی‘‘ لیبل ان کے استحصال کی وجہ بنتا ہے۔ کم اجرت، کام کے طویل اوقات اور خراب حالات ؛ ایک سنگین انسانی اور معاشی مسئلہ ہے۔ بعض صورتوں میں غیر قانونی تارکین وطن اپنے امریکی نژاد بچوں کے ذریعے بالواسطہ فلاحی فوائد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
 غیر قانونی طور پر کسی ملک میں داخل ہونے کی مختلف وجوہات ہیں ، مثلاً غربت، بڑھتی آبادی، خاندان کے ساتھ رہائش، پناہ گاہ کی تلاش، تعلیم اور شہریت ترک کردینا، وغیرہ۔ اہم بات یہ ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے یہ کہ انہیں ملک کی مختلف فلاحی خدمات اور سہولیات سے استفادے کا موقع نہیں ملتا، انہیں غلامی جیسے کاموں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، ان کا اغواء کیا جاتا ہے، ان سے غیر قانونی کام کروائے جاتے ہیں ، ان کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے، اور لیبر مارکیٹ میں مالی طور پر اُن کا استحصال ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ غیر قانونی سفر کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وہ اکثر بری طرح بیمار یا ززخمی بھی ہوجاتےہیں ، اور ان میں سے بعض امریکہ یا کنیڈا کی سرحد پر پہنچتے ہی دَم توڑ دیتے ہیں ۔ ایسے افراد کی لاش کو نہ وہ ممالک قبول کرتے ہیں جہاں وہ غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے، اور نہ ہی وہ ملک جہاں سے وہ سفر کیلئے نکلے تھے۔ 
اس مضمون میں صرف امریکہ کے پس منظر میں غیر قانونی تارکین وطن کے معاشی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تاہم، دنیا کے ہر ملک میں ان کے حالات تقریباً اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں حالات اور زیادہ خراب ہوتے ہیں ۔ ہر ملک غیر قانونی تارکین وطن کے مسئلہ سے دوچار ہے۔ تاہم، پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ میں واضح ہوا ہے کہ ۲۰۲۳ء میں دنیا میں مجموعی طور پر تارکین وطن کی تعداد میں کمی آئی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK