وہ عمررجب روڈ پر واقع مستری چال میں رہائش پزیر تھے۔ ان کے بیٹے انصاری سہیل احمد نے بتایاکہ مولانا آزادروڈ پر واقع انقلاب منزل (سابق دفتر انقلاب) میں تحریک آزادی سے متعلق میٹنگیں منعقد ہوتی تھیں۔ان کا بیشتر وقت وہیں گزرتاتھا۔ ان کی ہینڈرائٹنگ بہت خوبصورت تھی اس لئے ان کے استاد نے انہیں ’پینٹر ‘ کا لقب دیاتھا
زیرنظرتصویر میںبشیراحمد پینٹر(دائرہ میں) جواہرلال نہرو اوردیگر مجاہدین آزادی کے ہمراہ۔ تصویر: آئی این این
یہاں کے محمد عمررجب روڈ پر واقع مستری چال میں رہنے والے مجاہد آزادی انصاری محمد بشیر احمد پینٹر کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ انہوں نےاپنی زندگی ملک و قوم کی خدمت کیلئے وقف کی ، آزادی کی لڑائی میں جوش وخروش سے حصہ لیااور ملک کو آزاد کرانےمیں اپنی خدمات پیش کی تھیں۔ ۹۵؍ سالہ انصاری محمد بشیر احمد پینٹر کا انتقال ۲۰؍ اکتوبر ۲۰۰۲ءکومدنپورہ میں ہوا۔ وہ انتہائی سادگی پسند اور خلوص کا پیکر تھے۔ ملک کی آزادی کیلئے ان کی بے لوث خدمات فراموش نہیں کی جاسکتی ۔ شہر و مضافات میں اب بھی لوگ انہیں یوم ِ جمہوریہ اور یومِ آزادی پر پرچم کشائی سےمتعلق ہونےوالی گفتگو کے دوران یاد کرتےہیں۔بالخصوص جنوبی ممبئی اور دیگر علاقوں کے مسلم سیاستداں ان کے ہاتھوں پرچم کشائی کروانے پر فخر محسوس کرتے تھے۔

انصاری محمد بشیر احمد پینٹر
انصاری محمد بشیر احمد پینٹر کے فرزند انصاری سہیل احمد (۷۰) نے انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ ’’میرے والد بے لوث خدمت پر یقین رکھتے تھے۔ انہوںنے ملک کی آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا مگر اس بارے میں زیادہ کسی کو بتایا نہیں۔ وہ بڑی خاموشی سےملک کی آزادی کیلئے سرگرم رہے، تحریک آزادی میں جوش وخروش سے حصہ لیا۔ اس کےعوض کسی طرح کےمفاد کی اُمید نہیں رکھی۔ یہی وجہ ہےکہ پہلے اورنہ اب ان کے نام سے کسی طرح کی سہولیات مہیا ہیں۔ حتیٰ کہ حکومت کی جانب سے مجاہد آزادی کی انہیں جو سند اور فریڈم فائٹر کا شناختی کارڈ دیاگیاتھا ،وہ بھی مفاد پرستوں کے بھینٹ چڑھ گیا، نہ معلوم کس نے ان دستاویزات سے چھیڑ چھاڑکی لیکن ہم لوگوں کے پاس والد کے مجاہد آزادی ہونےکا دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے ۔ان کے نام اور دستاویزات سے دیگر مفاد پرست استفادہ کر رہے ہیں چونکہ ہمارے والدکو کوئی لالچ نہیں تھی ۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انصاری سہیل نے بتایاکہ ’’ والد نے تحریک آز ادی سےمتعلق ہمیں جو بتایاتھا،اس کےمطابق انہوںنے جواہر لال نہرو اور اس دور کے دیگر اعلیٰ سیاسی لیڈران کے ہمراہ رات ودن جدوجہد کی تھی۔ یہ لوگ ایک لکڑی کی باڈی والی کار میں بیٹھ کر شہر ومضافات کے مختلف علاقوںمیں جاکر آزادی سے متعلق عوام کو بیدار اور انگریزوں کی حکومت کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرتےتھے۔ مولانا آزادروڈ پر واقع انقلاب منزل میں تحریک آزادی سے متعلق میٹنگیں منعقدہوتی تھیں۔میرے والد کا بیشتر وقت یہیں گزرتاتھا ،یہیں سے وہ اپنے سینئر لیڈران کی قیادت میں لکڑی کی باڈی والی موٹر کار میں سوار ہوکر ممبئی کے مختلف گلی کوچوں کاد ورہ کرتے تھے۔‘‘انہوںنےیہ بھی بتایا کہ ’’میرے والد آگری پاڑہ پر واقع ململ مل میں ملازمت کرتےتھے۔ وہ انتہائی محنت کش، ایماندار اور مخلص انسان تھے۔ان کی سادگی کا لوگوںنے فائدہ بھی اُٹھایالیکن انہوںنے کبھی اس جانب توجہ نہیں دی۔ انہیں سیاسی لیڈران ہمیشہ یوم جمہوریہ اور یوم آزادی پر پرچم کشائی کیلئے اپنے ساتھ لے جاتےتھے اور ان کے ہاتھوں سے پرچم کشائی کرکے انہیں خوشی ملتی تھی۔ ‘‘
ایک سوال کے جواب میں انصاری سہیل احمد نے کہاکہ ’’ میرے والد کی ہینڈرائٹنگ بہت خوبصورت اور دیدہ زیب تھی، اس لئے انہیں جو جناب پڑھاتےتھے ،انہوںنے ہی انہیں ’پینٹر ‘ کا لقب دیاتھا،چنانچہ وہ بشیر پینٹر کے نام سے زیادہ معروف تھے۔ مجھے نہیں معلوم والد کے تعلق سے اخبار میں مضمون شائع ہونے پر کیا فائدہ ہوگا لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ لوگوں نے میرے والد کی سادگی کا فائدہ اُٹھایا اور وطن کی آزادی کیلئے ان کی جدوجہد کےعوض انہیں انصاف نہیں ملا۔‘‘