Inquilab Logo Happiest Places to Work

’ستیہ کتھا‘ نامی رسالہ مراٹھی کا ’شب خون‘ مانا جاتا تھا

Updated: June 02, 2025, 2:07 PM IST | Dr. Ram Pandit | Mumbai

آج مراٹھی ادب میں کئی نام ایک ساتھ ابھرتے ہیں اور کچھ ہی دنوں میں ماند پڑ جاتے ہیں، اب کسی تخلیق کو شاہکار کہنا مشکل ہے۔

The discussion of rural literature in Marathi took place many times, but the movement lacked any principles or broad ideology. Photo: INN
مراٹھی میں دیہی ادب کی بحث کئی مرتبہ چلی مگر اس تحریک کا کوئی اصول اور وسیع نظریہ نہیں تھا۔ تصویر: آئی این این

 مراٹھی میں دیہی ادب کی بحث کئی مرتبہ چلی مگر اس تحریک کا کوئی اصول اور وسیع نظریہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تحریک کسی سیاسی یا سماجی تحریک کا حصہ نہ بن پائی۔ گرامین کتھا (دیہی افسانہ) کے کچھ قابل ذکر نام ہیں وینکٹیش ماڈگلکر، آنند یادو، رارابوراڈے، سکھا کلال، دماسیراسدار، شنکر پاٹل، بابھ پاٹل، چاروتاساگر اور مہادیو مورے وغیرہ۔ ان لوگوں نے گاؤں کے لوگوں کے رہن سہن، پسند ناپسند، لب و لہجہ، برتاؤ، قدروں اور جذبات کا مطالعہ ضرور کیا ہے۔ یہ سبھی اچھے قصہ گو بھی ہیں۔ گاؤں میں پیش آنے والی کسی واردات یا حادثے کو خوبصورت انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت ان سبھی میں موجود رہی ہے۔ مگر گاؤں کی بے بس زندگی، جھگڑا فساد جیسے موضوعات کہیں نہ کہیں اَن چھوئے رہ گئے ایسا محسوس ہوتا ہے۔ پھر بھی پنچایت، عقیدے، کوآپریٹیو سوسائٹی، پانی کا مسئلہ اور قحط جیسے موضوعات راجن گوس، کیسکر، سدانند دیشمکھ نے پیش کئے ہیں۔ 
  مراٹھی میں جدید ادب کی جو تحریک چلی اس میں ’لکھ پتریکا‘ لٹل میگزین جیسے رسائل کا بڑا ہاتھ ہے۔ ۱۹۵۵ء میں رمیش سمرتھ نے ’شبد‘ نام کا چھوٹا رسالہ نکالنا شروع کیا۔ یہ صرف نظموں کے لئے محدود تھا۔ بعد میں اشوک سنہا نے ’اتھرو‘ ۱۹۶۰ء، اسو ۱۹۶۲ء سے ان رسالوں کا مقصد واضح ہونے لگا۔ مراٹھی ادب کے جدید رجحانات جاننے کے لئے ان لٹل میگزین کے شائع ہونے سے پہلے کا سماجی، سیاسی، تہدیبی پس منظر جان لینا ضروری ہے۔ ۱۹۶۰ء۔ ۱۹۵۰ء کے درمیان آزادی سے پہلے کی اصول پسند نسل (آدرش وادی) پچھڑ رہی تھی اور اس کی جگہ کریئرسٹ، بے مقصدی نسل نے لے لی تھی۔ چندر کانت پاٹل لکھتے ہیں :

یہ بھی پڑھئے:ایک کینیائی اَدیب کی یاد میں

 ’’دیش پریم اور آزادی کے نعرے لگاتی یہ نسل خودغرض تھی۔ عہدہ اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے بے چین تھی۔ عام آدمی کے سکھ دکھ سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا۔ سماجی ماحول میں بھی کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی تھی۔ ذات پات کا مسئلہ بڑھ رہا تھا۔ عوام ’دیہاتی اور شہری ‘ نامی دو حصوں میں بٹ گئے تھے۔ اخلاقی قدروں کا زوال صاف طور پر دکھائی دے رہا تھا مگر ان سبھی باتوں کا ادب میں کوئی عکس نظر نہیں آرہا تھا۔ ‘‘
 ’ستیہ کتھا‘ نامی رسالہ مراٹھی کا ’شب خون‘ مانا جاتا تھا۔ ستیہ کتھا میں افسانہ یا نظم کا شائع ہونا بڑی بات مانی جاتی تھی مگر وہ ساری کہانیاں Self Centre دائرہ بند کہانیاں تھی جو انسانی جذبات کو کرشن چندر یا سریندر پرکاش جیسی زبان میں پیش کرتی تھیں۔ اسٹرکچر اور جمالیات ان پر حاوی تھا۔ 
  ایسے ماحول میں ’واچا‘ شرشبد، اب کڈئی سناوی وی، کاولا، ودروہی، آتا، تاپسی، بھاروڈ، تری شنکو‘ جیسے رسائل نے بغاوت کی تھی۔ اشوک شہا نے، بھال چندر نیماڈے، راجا ڈھالے، دلیپ چترے، چندر کانت پاٹل، ارون کولہٹکر، چندر کانت کھوت، وسنت گرجر، ستیش کالسیکر، تلسی پرب، منوہر اوک، رگھو دنڈوتے اور بندڈوروزھے جیسے نئے ادیبوں نے مضامین لکھ کر مراٹھی ادب کو نیا موڑ دیا۔ ’مراٹھی ساہتیہ ورش کرنے‘ اشوک شہا نے مراٹھی ادب کی حالت کیا ہوئی ہے؟ اور اسے کس طرح سدھارا جاسکتا ہے؟ یہ بتلایا۔ انہوں نے اسٹیبلش مراٹھی ادیبوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ 
 لگھو پتریکا (رسائل) کی تحریک دس سال سے زیادہ چلی۔ صرف گالی گلوچ کرنا یعنی اسٹیبلش لوگوں کے خلاف بغاوت نہیں ، یہ بات اس کے ادیبوں کو دھیان میں نہیں آئی۔ اچھا ادیب تو صرف ہنگامہ پیدا کرنے کے مقصد سے لکھ کر خوش ہوتے۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کہنے والوں کے ذہن میں بھی اس کے معنی بے حد محدود تھے۔ وہ فقط ادب سے جڑے ہوئے تھے۔ ان رسائل میں لکھنے والے یا تو ایکٹیوسٹ ہوگئے یا پھر ادب کے مرکزی جھمگٹ میں چلے گئے، مگر اپنی الگ رائے رکھتے ہوئے۔ پھر بھی ان چھوٹے رسالوں اور ان میں لکھنے والے ادیبوں نے مراٹھی ادب کو جدید موڑ دینے میں جو اہم رول ادا کیا ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جدید رجحانات کی چاپ یہیں سے سنائی دیتی ہے۔ 
 آج مراٹھی ادب میں کئی نام ایک ساتھ ابھرتے ہیں اور کچھ ہی دنوں میں ماند پڑ جاتے ہیں۔ جی اے کلکرنی کے بعد مراٹھی افسانے میں سنت، بوکل، گوری دیشپانڈے اور سانیا جیسے کئی بڑے تخلیق کار ابھرے ہیں مگر ان کے بعد مابعد جدید دور میں کسی تخلیق کو شاہکار کہنا مشکل ہے۔ نیماڑے، وشواس پاٹل، سادھو دیشمکھ اور میگھنا پیٹھے جیسے ناول نگاروں کے بعد اس دور میں اعلیٰ درجے کا ناول نگار نہیں ملتا۔ شاعری میں ارون کولہٹکر کا بول بالا تو ہوا مگر اب کیا؟ آفاقیت جس میں مجسم ہو ایسی شاعری کی آہٹ اب تک سنائی نہیں دیتی۔ سریش بھٹ نے ۷۰ء کی دہائی میں غزل کی صنف مراٹھی میں پیش کی اور غزل کی تحریک چلائی۔ آج تقریباً پانچ سو غزل گو شاعر مراٹھی میں ہیں مگر بیشتر کی غزلیں سمجھ سے اتنی پرے ہیں کہ وہ غزل میں کیا کہنا چاہتے ہیں سمجھ نہیں آتا ہے۔ 
  ایک زمانے میں مراٹھی ڈراما جو ہمارے کلچر کا ایک اہم حصہ تھا، اب صرف انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ بن گیا ہے۔ آرٹ، ڈراما اور سہ بابی ڈراموں سے یقیناً بڑی توقعات ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد یہ ڈراما نگار میڈیا یا سیریل میں چلے جاتے ہیں۔ زندگی کے ان چھوٹے پہلوؤں کو اجاگر کرسکیں ، ایسے ڈرامے کم ہوتے جارہے ہیں۔ کیا اب کوئی تینڈولکر، الکنچور، آلیکر متکری یا دلوی پیدا نہیں ہوسکے گا؟

ستیہ کتھا کا دور 
’ستیہ کتھا‘ نامی رسالہ مراٹھی کا ’شب خون‘ مانا جاتا تھا۔ ستیہ کتھا میں افسانہ یا نظم کا شائع ہونا بڑی بات مانی جاتی تھی مگر وہ ساری کہانیاں Self Centre دائرہ بند کہانیاں تھی جو انسانی جذبات کو کرشن چندر یا سریندر پرکاش جیسی زبان میں پیش کرتی تھیں۔ اسٹرکچر اور جمالیات ان پر حاوی تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK