Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایک کینیائی اَدیب کی یاد میں

Updated: June 01, 2025, 12:39 PM IST | Nasir Abbas Nayyar | Mumbai

گوگی واتھیانگو کی زندگی کی کہانی، دربدری، قید، تشدد، مہاجرت اور دیگر مصائب سے عبارت ہے۔ کچھ مصائب، کینیا کی تاریخ کے پیدا کردہ ہیں ، کچھ گوگی کی اپنی تحریروں اور ان میں موجود جرأت مندانہ مؤقف کے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

گوگی واتھیانگو(جیمز گوگی) گزر گئے۔ سب ایک ایک کر کے گزر جائیں گے۔ 
باقی رہنے والی چیزیں ہیں : یادیں اور کام۔ چھیاسی برس کی عمر میں اٹلانٹامیں ، گوگی کا انتقال ہوا ہے۔ اس کی یادوں اور کام کو، برسوں اور مہینوں میں نہیں ناپا جاسکتا۔ وہ ہمارے اور آنے والوں کے ساتھ رہیں گے۔ گوگی نے اپنے مشرقی افریقی لوگوں کے لئے لکھا، اور ایک بار پھر ثابت کیا کہ جو شخص، اپنے شخصی اور مقامی تجربے کو پوری دیانت داری سے لکھتا ہے، یعنی اپنے وجود اور احساسِ وجود کو اپنی تحریر میں تحلیل کردیتا ہے، وہ دراصل سب کے لیے لکھتا ہے۔ 
آدمی کے وجود کی حد ہے، شخصی احساسِ وجود کی بھی حد ہے، گو، یہ، وجود کی حد سے کہیں بڑی ہے، مگر تحریر کی حد، ان سب سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گوگی کی تحریریں انگریزی دنیا (Anglophone)، مشرقی افریقی دنیا اور خود ہماری ایشیائی دنیا میں رسائی اور معنویت رکھتی ہیں۔ 
گوگی جب پیدا ہوا تو کینیا، برطانوی نوآبادیات کے ماتحت تھا۔ یعنی وہ اپنی ہی زمین پر، ایک غلام شہری کے طور پر پیدا ہوا، جب اس کا انتقال ہوا ہے تو وہ امریکی ریاست جارجیا کے دارالحکومت، اٹلانٹا میں تھا، یعنی جلاوطن تھا۔ 
اس کی زندگی کی کہانی، دربدری، قید، تشدد، مہاجرت اوردیگر مصائب سے عبارت ہے۔ کچھ مصائب، کینیا کی تاریخ کے پیدا کردہ ہیں ، کچھ گوگی کی اپنی تحریروں اور ان میں موجود جرأت مندانہ مؤقف کے۔ 
گوگی جب چھوٹا تھا تب دو واقعات نے اسے، کینیا کی سچائی کے بوجھ اور بھیانک پن سے آگاہ کیا۔ وہ اسکول (الائنس مشنری اسکول) سے چھٹیوں کے دنوں میں واپس آیا تو اس کا گھر، باقی گھروں کے ساتھ تباہ کردیا گیا تھا۔ ان دنوں کینیا میں ماؤ ماۂ آزادی کی تحریک چل رہی تھی، اور برطانوی گورے فوجی، اس تحریک میں شامل لوگوں کو، ان کے ٹھکانوں کو اور گھر وں کو نشانہ بنارہے تھے۔ 
یہی تجربہ محمود درویش کا بھی تھا۔ محمود درویش کی بستی بھی صفحۂ ہستی سے مٹادی گئی تھی۔ استعمار کا یہ عمومی طریقہ ہے۔ لوگوں کے پاؤں سے زمین اور سر سے چھت چھین لو۔ آج بھی غزہ میں یہی ہو رہا ہے۔ 
گوگی اور محمود درویش، اس طور واقف ہوئے تھےکہ ایک بڑی، پرتشدد، سفاکانہ قوت، ان کے آس پاس، ان کے سر وں پر، دندناتی پھررہی تھی۔ انھیں گویا پوری عمر اس قوت یا اس کے آسیب کا سامنا کرنا تھا۔ 
دوسرا واقعہ گوگی کے دوبھائیوں کا قتل تھا۔ اس کے ایک بھائی کو فوجی حکم نہ ماننے پر، پشت سے، گولی سے اڑادیا گیا تھا۔ حالاں کہ وہ بہرہ تھا۔ 
گوگی کا پہلا انگریزی ناول :’’مت رو، بچے ‘‘ جب شائع ہوا تو اس کی عمر صرف چھبیس برس تھی۔ اس ناول کا مسودہ چنو اچیبے نے دیکھا تھا اور پسند کیا تھا۔ 
گوگی نے پہلے برطانوی استعماریت کے خلاف ناول لکھے، پھر مقامی آمریت کے خلاف۔ گوگی کی تحریریں بتاتی ہیں کہ استعماریت کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ بیرونی، صاف دکھائی دینے والی استعماریت کے رخصت ہوجانے کے بعد، اندرونی ، مبہم استعماریت قائم ہوجاتی ہے۔ پہلی استعماریت نے گوگی کا گھر تباہ کیا اور اس کے بھائی قتل کئے، دوسری استعماریت نے اسے قید کیا، تشدد کا نشانہ بنایا اور جلاوطنی پر مجبور کیا۔ وہ آمردانیال آراپ موئی (Daniel arap Moi) کے ہاتھوں چار سال جیل میں رہا۔ قید کے دوران، اس نے کچھ اہم فیصلے کئے۔ 
قید ہی میں، اس نے طے کیا کہ وہ آئندہ صرف اپنی مقامی زبان گیکوا میں لکھے گا۔ 
اس نے جیل ہی میں، گیکوا زبان میں ، اپنا پہلا ناول ٹوائلٹ پیپر پر لکھا۔ 
یہیں جیل میں اس نے اپنے نام سے جیمز کو ہٹادیا۔ لفظ جیمز، استعمار کی نشانی تھا۔ استعمار کی دوسری بڑی علامت انگریزی تھی، جس میں ناول لکھنے کے باعث اس نے عالمی شہرت حاصل کی تھی، گوگی اس سے بھی دست بردار ہو گیا۔ اس نے بعد میں صرف گیکوا میں لکھا، یہ الگ بات کہ اپنی ہی تحریروں کے انگریزی تراجم خود کئے۔ 
وہ ۲۰۰۴ء میں لندن سے واپس آیا تو کینیا کے شہری اس کے استقبال کیلئے ایئر پورٹ پر امڈ پڑے تھے۔ وہ گھر میں ابھی، اپنے استقبال کے خمار ہی میں تھا کہ کچھ لوگ اسکے اپارٹمنٹ میں گھس آئے۔ اس کی بیوی جیرا کی عصمت دری کی گئی، اور اسے مارا پیٹا گیا۔ جسمانی اور ذہنی تشدد کی یہ انتہا تھی۔ ایک مصنف کو اپنی تحریروں کی اتنی بھاری قیمت شاید ہی ادا کرنی پڑی ہو۔ 
گوگی نے ناول، تھیئٹر، مضامین اور گفتگو کے ذریعے، کینیا اور افریقہ کا مقدمہ لڑا۔ بیرونی اور مقامی استعماریت، دونوں کے خلاف۔ 
پہلے فرانز فیین اور ان کے بعد گوگی واتھیونگ نے زبان اور استعماریت کے تعلق پر نہایت گہرائی سے غور کیا۔ 
گوگی نے اپنی کتاب، جس کا نام Decolonising the Mind ہے، میں لکھا ہے کہ استعمار کار میدان ِجنگ کے جسمانی تشدد کے بعد کمرۂ جماعت (کلاس روم) کے نفسیاتی تشدد کا آغاز کرتے ہیں۔ 
پہلا تشدد اگر واضح طور پر ظالمانہ ہوتا ہےتو کمرہ جماعت کا تشدد نرم ہوتا ہے… میرے خیال میں زبان، سب سے اہم ہتھیار تھا، جس کے ذریعے استعمار ی طاقت نے سحر طاری کیا اور روح کو قیدی بنایا۔ گولی، جسمانی غلامی کا ذریعہ تھی، زبان، روحانی غلامی کا وسیلہ تھی۔ گوگی ہی وہ شخص تھا جس نے پہلی بار یہ کہا کہ انگریزی کے شعبے ختم کردینے چاہئیں اور ان کی جگہ عالمی ادبیات کے شعبے قائم کئے جائیں۔ 
یہی بات انیسویں صدی میں اکبر الہ آبادی کہہ چکے تھے:
توپ کھسکی، پروفیسر پہنچے جب بسولہ ہٹا تو رندہ ہے
گوگی نے اپنی کتاب Writers in Politics میں ایک قول نقل کیا ہے کہ زبان کا انتخاب، دنیا کاانتخاب ہے۔ 
گوگی سوال اٹھاتا ہے کہ ایک ادیب آخر کس کے لئے لکھتا ہے؟وہ اپنی کسی تحریر میں سے اپنے قارئین کا سوال حذف نہیں کرسکتا۔ اگر وہ فرانسیسی یاانگریزی میں لکھتا ہے تو وہ یہ زبانیں بولنے والے غیر ملکی اور مقامی قارئین کے لئے لکھتا ہے، اور اس کے قارئین کی فہرست سے، مقامی زبان بولنے والے قارئین خارج ہوجاتے ہیں۔ 
دوسر اسوال یہ ہے کہ وہ لکھتا کیا ہے؟ ا س کا مؤقف کیا ہے؟گویا اپنے لوگوں کے لئے، اپنے لوگوں کی زبان میں بھی کسی اور کامؤقف لکھا جاسکتا ہے۔ 
گوگی نے اپنی پہلی کتاب میں چنو اچیبے (جو اس کے محسن بھی تھے)کی اس رائے پر بھی سوال اٹھایا کہ وہ انگریزی زبان میں افریقی تجربہ لکھ کر، افریقی انگریزی پیدا کرنے جارہا ہے۔ اس کے بعد، ان دونوں افریقی ادیبوں کے تعلقات ناخوشگوار رہے۔ 
گوگی کے مطابق، اس صورت میں بھی، اچیبے کے قارئین میں سے مقامی افریقی قارئین جو انگریزی نہیں جانتے، وہ خارج رہیں گے۔ 
ایک سوال اور بھی ہے کہ کیا امپائر کی زبان میں مقامی تجربہ لکھاجاسکتا ہے؟ گوگی کا قطعی جواب تھا کہ نہیں۔ 
ایک سوال کا جواب، گوگی نے خود اپنے تجربے کی روشنی میں بھی دیا تھا۔ اس نے پہلے انگریزی میں لکھا اور اس کے بعد اپنی مقامی زبان گیگوا میں ، اپنے لوگوں کے لئے لکھا اور ردّ استعماری مؤقف کے ساتھ لکھا۔ 
اس سیارے کے ایک بڑے آدمی کو الوداع! 
(عالمی ادب کے اردو تراجم سے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK