Inquilab Logo

مجازؔ کے خواب ِسحر کواُس عہد نے مجازؔ کے ساتھ مل کر دیکھا تھا

Updated: October 24, 2021, 1:22 PM IST | Sharab Rawaoldi

اس کی تعبیر میں کون سار نگ بھرا جائے گا اور کون سارنگ ان آرزوؤں اور تمناؤں کو پورا کرسکے گا ، یہ آنے والا عہد خود طے کرےگا۔ یہ کہہ کر کہ یہ اشتراکی رنگ تھایا مجاز کے کلام کو وقتی قرار دینا شعر کی معنویت کو بہت محدود کردینا ہوگا

Asrarul Haq Majaz. Picture:INN
اسرارالحق مجاز۔ تصویر: آئی این این

مجاز کی انقلابی اور رومانی نظموں اور غزلوں پر گفتگو کے بعد یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ مجاز کی ادبی اہمیت کیا ہے؟  بالخصوص آج کے سیاق میں ، کیا مجاز صرف عہد گزشتہ کے شاعر ہیں؟ یا شعری مزاج میں تبدیلی کے بعد آج وہ صرف ادبی تاریخ کا ایک ورق ہیں جس کے بارے میں منظرسلیم نے لکھا ہے: ’’…یہ نغمے تیزی سے بدلتے ہوئے شعری مزاج کے ساتھ ساتھ پرانے ہوتے جارہے ہیں کچھ اس زمانے کے ہنگامی اور وقتی موضوعات سے متعلق ہیں جن میں کشش اور نیاپن باقی نہیں رہا ، کچھ برسوں بعد یہ نغمے اور بھی پرانے ہوکر ماضی کا جزو بن جائیں گے لیکن جس طرح ماضی کے محل کی بہت سی آوازیں آج ہمارے کانوں میں گونجتی رہتی ہیں اسی طرح مجاز کی آواز بھی زندہ رہے گی۔‘‘ منظرسلیم کی بات میں کسی قدر سچائی ضرور ہے لیکن یہ بات صرف مجاز تک محدود نہیںہے۔ اگر ادبی تاریخ پر نگاہ ڈالیںتو محسوس ہوگا کہ زمانے اور وقت نے کسی کو معاف نہیں کیا۔ اپنے اپنے زمانے کے نہ جانے کتنے مقبول شاعر ایسے ہیں جن کے نام اب حوالوں کا حصہ بھی نہیں رہے اور جو نام زمانے کے دست برد سے بچ گئے ہیں ان میں زندگی کی ایسی توانائی اور سکت تھی کہ اس نے خود ماضی کو رد کردیا۔ وقت ایک سیلاب کی طرح آتا ہے اورپھر اس کے گزرنے کے بعد اسی پر ایک نئی کاشت تیار ہوجاتی ہے ، لیکن کچھ چیزیں اور کچھ آثار باقی رہ جاتے ہیں۔ مجاز کی شاعری کا ایک حصہ ایسا ضرور ہے جو اب تک ماضی کے محل کی گونج بننے کے بجائے تازہ کار ہے اور ہمارے جمالیاتی احساس کی تسکین کا سامان فراہم کرتا ہے۔ 
 مجاز کی شاعری کے فروغ کا زمانہ وہ تھا جب وقتی موضوعات کا دباؤ زیادہ تھا ۔ اس کا جواز بھی تھا۔ ایک طرف جنگ عظیم ، دوسری طرف ہندوستان کی تحریک آزادی ، تیسری طرف بین الاقوامی سطح پر تبدیلیاں ، فاشزم کے خلاف قلم کی لڑائی میں ادیبوں کی پیش قدمی اور سوشلزم کی مقبولیت، ساری صروت ِ حال چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی :
شاعر ہو مت چپکے رہو چپ میں جانیں جاتی ہیں
ایسے میں کوئی کیونکر علاحدہ رہ سکتا تھا۔ پھر علی گڑھ اس نئی فکر اور روشن خیالی کا مرکز بن گیا تھا۔ شاعروں میں مجاز، جذبی، آل احمد سرور، جاں نثار اختر، افسانہ نگاروں میں حیات اللہ انصاری، عصمت چغتائی ، تنقید میں اخترحسین رائے پوری اپنے مضمون ’ادب اور انقلاب‘ کے ذریعے ادب میں ترقی پسند فکر کی بنیاد رکھ چکے تھے۔  انقلاب اپنے ’ادھ کچرے‘ تصور کے ساتھ ادب و شاعری کا مقبول موضوع بنا گیا تھا۔ ان حالات میں تخلیق کیا ہوا ادب ہمیشہ اپنے ساتھ ایک  سوال لاتا ہے کہ اس کی ادبی قدر و قیمت کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ وقتی تحریریں مخصوص حالات کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ان حالات کے ختم ہونے کے بعد ان کی مدت عمر بھی ختم ہوجاتی ہے ، سوائے اس حصہ کے جو اپنے جمالیاتی اظہار میں مکمل ہو اور جس کا موضوع اتنی وسعت اختیار کر لے کہ اپنے زمانے کے بعد بھی اس کا عصری ربط باقی رہے۔ کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ کسی شاعر کا سارا کلام وقتی یا سارا کلام ہر عہد میں یکساں طور پر لطف آمیز رہنے والا ہے۔ اس لئے کہ حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور پسند و ناپسند کے ساتھ ادبی سیاق بھی بدلتا رہتا ہے۔ کبھی غیراہم چیز وقت گزرنے کے ساتھ اہم ہوجاتی ہے اور  اپنے عہد کی بہت اہم چیزیں لوگوں کے لئے باعث توجہ نہیں رہ جاتیں۔ مجاز کی شاعری کا ایک مختصر حصہ ایسا ضرور ہے جسے موضوعاتی یا وقتی کہہ کر نظر انداز کرسکتے ہیں اور اُس وقت بھی شاید اُس کی اہمیت اِس سے زائد نہیں تھی کہ وہ مزدوروںاور عوام کا ترانہ بن سکے۔ لیکن یہ معمولی بات نہیں تھی، اس وقت  ضرورت بھی اسی کی تھی۔ مجاز خود اس غربت اور بےکسی کو دیکھ رہے تھے اور ایک بیدار ضمیر رکھنے والے  انسان کی حیثیت سے وہ اس میں شامل ہوگئے تھے۔  مجاز ادبی حلقوں اور نوجوانوں میں نمائش ، نذر خالدہ اور رات اور ریل جیسی خوبصورت ترشی ہوئی رومانی نظموں سے خاصی مقبولیت حاصل کرچکے تھے۔ ۱۹۳۳ء میں  ان کی نظم ’انقلاب‘ آئی۔ مجاز کے یہاں رات اور ریل اور  نذرِ خالدہ میں بھی فکری اور سیاسی بصیرت کے اشارے موجود تھے لیکن ’انقلاب‘ میں ان کی آواز، لہجہ اور شعور سب مختلف تھا۔یہ دراصل صرف مجاز کی آواز نہیں تھی ، اس میں ہندوستان کے حریت پسندوں کے ساتھ دنیا میں فسطائی قوتوں سے لڑنے والے عوام کی آواز شامل تھی ۔ اردو میں اس موضوع پر پہلی نظم کس نے لکھی ، یہ تاریخ دانوں کا کام ہے لیکن ایک خاص فکری ترتیب، سیاسی بصیرت ، معاشی شعور اور آزادی کے تصور کے ساتھ یہ اردو کی اس موضوع پر پہلی نظم ہے۔ اس وقت تک انقلاب کا تصور بہت واضح نہیں تھا لیکن دنیا کی جو صورت ِ حال تھی اس کی طرف مجاز نے اپنے اشعار میں بہت واضح  اشارے کرد یئے تھے :
فرش گیتی سے سکوں اب مائل پرواز ہے
ابر کے پردوں میں ساز جنگ کی آواز ہے
آرہے ہیں جنگ کے بادل وہ منڈلاتے ہوئے
آگ دامن میں چھپائے خون برساتے ہوئے
 اور اس طرح اپنے اگلے اشعار کی ہیبت خیزی  اور خوں آشامی کا جواز بھی پیش کردیا تھا۔ اس میں مجاز  انقلاب اور آزادیٔ ملک کا جو خواب د یکھ رہے تھے وہ  اردو ادب کے لئے نیا تھا۔ اس طرح کی نظموں کی ادبی اہمیت نہ سہی ، لیکن فکری ارتقا ء میں ان کی تاریخی اہمیت ضرور ہے ۔ مجاز ایک بیدار ذہن شاعر  تھے۔انہوں نے اپنے عہد کے مطالبات کو ادبی اظہار کا موضوع بنایا۔ یہ ایک اہم قدم تھا۔ احتشام حسین نے اسی کو روح عصر سے تعبیر کیا ہے ۔ مجاز کی کامیابی یا مقبولیت کا یہ سبب نہیں ہے کہ وہ رومان سے انقلاب کی طرف آئے اور انہوں نے مزدور کا گیت لکھا یا سرمایہ داری کے خلاف نظم لکھی۔ ان کی یہ بڑائی ضرور ہے کہ انہوں نے سرمایہ داری کی لعنت کو محسوس کیا اور انقلاب کی اہمیت کو سمجھا ، لیکن  ان کی بڑائی یا کامیابی اس احساس، فن ، انفرادی فکر اور سماجی بصیرت میں ہے جس کے ذریعے  انہوں نے شاعری کا ایک ایسا رخ پیش کیا جس سے کم از کم اردو شاعری اس وقت تک ناآشنا تھی۔
 مجاز کے بارے میں یہ بات بار بار کہی گئی ہے کہ ان کی ذہنی تربیت شاعری کی کلاسیکی روایت کے سائے میں ہوئی لیکن مجاز کا جو عہد تھا وہ کلاسیکی اور رومانی (عاشقانہ) شاعری ہی کا عہد تھا اور اس عہد کے سبھی شاعروں کی تربیت میں کلاسیکیت کا بہت بڑا حصہ تھا۔ سردار جعفری، میر  انیس سے اس قدر متاثرتھے کہ خود بھی مرثیے لکھتے اور مجالس میں پڑھتےتھے۔ کیفی پر اگر ایک طرف اختر شیرانی کی رومانیت کا اثر تھا تو دوسری طرف جوش اور اقبال کے آہنگ کا۔فیض کے  یہاں کئی کلاسیکی شاعروں کا اثر نظر آجائے گا۔ معین احسن جذبی آخر وقت تک کلاسیکیت سے باہر نہیں نکل پائے۔ اس لئے یہ بات بہت اہم نہیں کہ مجاز کلاسیکی مزاج رکھتے تھے ، ۔ اس وقت عام شاعری  کلاسیکیت یا فن کی پابندیوں کے دائرہ ہی میں تھی۔ نظم میں موضوع کے تجربات جگہ پانے لگے تھے لیکن  ہیئت میں بڑے تجربات شروع نہیں ہوئےتھے۔ مجاز کی شاعری میں بھی اس طرح کا تجربہ نہیں ملتا۔ مجاز کی خصوصیت ان کے کلام میں الفاظ و تراکیب کا تخلیقی استعمال ، ان کا بے تکلف اور بے ساختہ اظہار اور سادہ بیانی ہے۔
  مجاز کی یہی خوبی ہے کہ وہ آسمانوں پر پرواز نہیں کرتے ، زمین سے ان کا رشتہ اتنا گہرا اور مضبوط ہے کہ کبھی نہیں ٹوٹتا۔ یہاں پر ان کی بہت خوبصورت نظم ’ خواب سحر‘ یا ’شکوۂ مختصر ‘ دیکھیں  تو   مجاز کی اصل دلکشی اور اس کے حسن کا اندازہ ہوگا۔ جس کی آواز میں صرف اس عہد کی آواز ہی نہیں شامل  ہے بلکہ ہر زمانے کا خواب اور احساس شامل ہے اور جب  تک انسان ’اوہامِ باطل‘ کا شکار  ہے یا محبت محروم درماں ہے ، اس کا تاثر اور  دردانگیزی کم نہیں ہوگی:
مہر صدیوں سے چمکتا ہی رہا افلاک پر
رات ہی طاری رہی انسان کے ادراک پر
آدمی منت کش ارباب عرفاں ہی رہا
درد انسانی مگر محروم درماں ہی رہا
اور یہ رجائیت ، اعتماد اور بھروسہ ایک ایسے مایوس کن ماحول میں جب کہ ہر طرف  جنگ کے بادل چھائے ہوں ، غلامی کی زنجیروں کی آوازیں گونج رہی ہوں، بہت بڑی بات ہے۔ 
 مجاز ہی کی غزل کا ایک شعر ہے:
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
اُس  زمینی سچائی کا احساس دلاتا ہے جو اس وقت ترقی پسند شعراء کے یہاں بھی نہیں تھی۔  ’ خواب سحر‘ یا نئی صبح کی امید اسی طرح کا خواب ہے۔ اب اس خواب کی تعبیر  میں رنگ بھرنا اُس عہد کا بھی کام تھا اور آنے والے عہد کا بھی کام ہے۔ اس کی تعبیر میں کون سار نگ بھرا جائے گا اور کون سارنگ ان آرزوؤں اور تمناؤں کو پورا کرسکے گا ، یہ آنے والا عہد خود طے کرےگا۔ یہ کہہ کر کہ یہ اشتراکی رنگ تھایا مجاز کے کلام کو وقتی قرار دینا شعر کی معنویت کو بہت محدود کردینا ہوگا۔ مجاز نے خواب سحر کی بات کی ہے اور یہ خواب سحر اس عہد نے مجاز کے ساتھ مل کر دیکھا تھا اور آئندہ کا انسان بھی یہ خواب سحر دیکھے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK