جادَو پور یونیورسٹی میں کنووکیشن کے اسٹیج پر احتجاج کے دوران حجاب کے خلاف امتیازی سلوک کے خلاف بینرلگایا گیاجس پر لکھا تھا ،’’جادو پور یونیورسٹی میںاسلاموفوبیا کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘
EPAPER
Updated: December 25, 2025, 10:04 PM IST | Kolkata
جادَو پور یونیورسٹی میں کنووکیشن کے اسٹیج پر احتجاج کے دوران حجاب کے خلاف امتیازی سلوک کے خلاف بینرلگایا گیاجس پر لکھا تھا ،’’جادو پور یونیورسٹی میںاسلاموفوبیا کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘
بدھ کوجادَو پور یونیورسٹی کے کنووکیشن میں، کیمپس میں مبینہ اسلاموفوبیا کے خلاف احتجاج کے طور پر اسٹیج پر نمایاں طور پر ایک پوسٹر لگایا گیا جس پر لکھا تھا ’’جادَوپور یونیورسٹی میں اسلاموفوبیا کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘ یہ احتجاج مسلم طالبات کے ایک حالیہ واقعے کی جانب توجہ دلانے اور یونیورسٹی میں امتیازی سلوک کے خلاف تشویش کا اظہار تھا۔واضح رہے کہ یہ احتجاج انگریزی ڈیپارٹمنٹ کے سال اول کے پوسٹ گریجویٹ طلباء کی جانب سے کیا گیا، جو اپنی انڈرگریجویٹ ڈگری حاصل کرنے کے لیے کنووکیشن میں شریک تھے۔ طالبات کے مطابق، پروفیسر سسوتی ہالدار نے مبینہ طور پر دو تیسرے سال کی انڈرگریجویٹ طالبات سے امتحان کے آخری گھنٹے میں نقل کرنے کا الزام لگا کر اپنا حجاب اتارنے کو کہا۔اس عمل کا اثر طالبات کی امتحانی کارکردگی پر بھی پڑا، کیونکہ چیکنگ نے امتحانی پرچہ مکمل کرنے کے لیے مختص وقت کا آخری حصہ لے لیا۔مکتوب میڈیا کی جانب سے پروفیسر ہالدار کو ان پر لگائے گئے الزامات کی تصدیق کے لیے کی گئی متعدد کالز کا کوئی جواب نہیں ملا۔بعد ازاں طلباء نے خود یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ایک شکایت نامہ لکھا۔وائس چانسلر چرنجیب بھٹاچارجی کو جمع کرائے گئے خط میں طلباء نے الزام لگایا کہ امتحان کے دوران ایک طالبہ کو نشانہ بنایا گیا اور دوسروں کے سامنے اپنا حجاب اتارنے کو کہا گیا۔جب ایک اور طالبہ نے اس پر اعتراض کیا تو پروفیسر نے مبینہ طور پر اس طالبہ کو ایک اور کمرے میں لے جا کر نجی طور پر حجاب اتارنے کو کہا۔خط میں یہ بھی الزام لگایا گیا کہ ایک دوسری تیسرے سال کی انڈرگریجویٹ طالبہ سے ایک مختلف کمرے میں امتحان دیتے ہوئے اس کا حجاب اتارنے کو کہا گیا۔ اور انہوں نے اپنے حجاب کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہی اتارا تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ ان کے پاس کوئی ایئر فون نہیں ہیں، جیسا کہ استاد کو شک تھا۔
یہ بھی پڑھئے: ’’کسی عورت کے حجاب کو جبراً ہٹانا اس کی خود مختاری پر حملہ ہے‘‘
طلباء نے متفقہ طور پر مطالبہ کیاکہ یونیورسٹی اس معاملے کو اٹھائے اور ضروری اقدامات کرے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی طالبہ اس طرح کی ہراسانی اور نشانہ بنانے والے سلوک کا شکار نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ نگرانی مختلف مذہبی و ثقافتی رسم و رواج اور لباس کے احترام کے ساتھ حساس اور منصفانہ ہو۔‘‘ جادَو پور یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم جاہت خان نے مکتوب سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’طالبات کو کلاس میں موجود ہر شخص، بشمول مرد طلباء کے سامنے اپنا حجاب اتارنے پر مجبور کیا گیا۔‘‘اس کے علاوہ جب لڑکیوں کو کمروں کے اندر لے جایا گیا تو انہیں ذلت آمیز سلوک اور مذہبی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ پروفیسر ہالدار نے بار بار ان سے حجاب کی وجہ اور یہ کہ آیا وہ یہ گھر پر بھی پہنتی ہیں، کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔اپنے تعصب زدہ ذہنیت کے ساتھ، پروفیسر نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ حجاب میں گھٹن محسوس کرتی ہیں۔تاہم طلباء پروفیسر کی جانب سے انتقامی کارروائی کے خوف میں ہیں۔جبکہ وائس چانسلر نے شکایت موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ’’ہم اس معاملے کی جانچ کر رہے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: سینگرکی سزا پر روک کیخلاف احتجاج، متاثرین کے ساتھ بدسلوکی
انگریزی ڈیپارٹمنٹ کے فیکلٹی ارکان نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔پروفیسر کا کہنا تھا کہ حالیہ ہیڈ فون کے استعمال سے نقل کے سلسلے والے واقعات کی وجہ سے چیکنگ کی گئی تھی اور یہ کسی خاص برادری کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں تھی۔فیکلٹی ارکان کے مطابق، مختلف پس منظر کے کئی طلباء کی چیکنگ کی گئی، جبکہ کچھ حجاب پہننے والی طالبات، بشمول ایک خصوصی ضرورت کی حامل طالبہ، کو کسی بھی قسم کی تصدیق کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ایک سینئر پروفیسر نے کہا کہ اساتذہ اس احتجاج سے پریشان ہیں، اور ان کا کہنا تھا کہ فیکلٹی ارکان پر اسلاموفوبیا کے الزامات انہیں اپنے تعلیمی فرائض انجام دینے میں مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔فیکلٹی ارکان نے اصرار کیا کہ ان کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی مذہبی تعصب سے متاثر نہیں تھا۔
بعد ازاں یہ واقعہ اسی دن پیش آیا جب جادَوپور یونیورسٹی کا۶۸؍ واں سالانہ کنووکیشن منعقد ہوا، جس کی صدارت مغربی بنگال کے گورنر اور ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر سی وی آنند بوس نے کی۔تقریب کے دوران۴۴۰۰؍ سے زائد طلباء کو ڈگریاں اور اسناد دی گئیں۔