Inquilab Logo

میک اِن انڈیا کا منصوبہ ناکام ہوگیا، اب کیا؟

Updated: February 16, 2020, 4:45 PM IST | Aakar Patel

ایک نہیں، کئی ممالک ایسے ہیں جن کی معیشت ہم سے چھوٹی ہے مگر انہوں نے مینوفیکچرنگ کے شعبے میں کافی ترقی کرلی ہے جبکہ ہم میک ان انڈیا کا خواب سجانے کے باوجود پچھڑ گئے اور مزید پچھڑتے جارہے ہیں

میک اِن انڈیا کا منصوبہ ناکام ہوگیا، اب کیا؟
میک اِن انڈیا کا منصوبہ ناکام ہوگیا، اب کیا؟

ستمبر ۲۰۱۴ء میں ’’میک اِن انڈیا‘‘ کا اجراء ہوا تھا۔ اپنی ویب سائٹ (پی ایم انڈیا ڈاٹ جی او وی ڈاٹ اِن) پر وزیر اعظم نے وضاحت کی ہے کہ ’’برسوں سے پالیسی ساز اس بحث و مباحثہ میں مصروف تھے کہ مینوفیکچرنگ کو کس طرح سمت و رفتار عطا کی جائے تاکہ ہندوستان مینوفیکچرنگ کے میدان کا شہ سوار بن جائے۔ لیکن، وہ نریندر مودی ہیں جنہوں نے محض چند مہینوں میں میک اِن اِنڈیا کی مہم چھیڑ دی تاکہ سرمایہ کاری کو راغب کیا جائے، مینوفیکچرنگ کے شعبے میں ندرت اور جدت لائی جائے، ہنرمندی کو فروغ حاصل ہو، دانشورانہ حق ملکیت کی حفاظت ہو اور انفراسٹرکچر کی تیاری میں ہندوستان عالمی سطح کا معیار اپناسکے۔‘‘ 
 بلاشبہ مینوفیکچرنگ اہم ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ہی کم آمدنی والے ممالک متوسط درجے کی آمدنی والے ملکوں میں شمار کئے جاسکتے ہیں اور پھر خاطرخواہ آمدنی والے ملکوں کی صف تک پہنچ سکتے ہیں۔ کسی بھی زرعی اور دیہی معیشت کے فروغ کا اس سے بہتر کوئی طریقہ ہمارے علم اور مشاہدہ میںنہیں ہے کہ شروعات ہلکی مینوفیکچرنگ (مثلاً گارمینٹ) سے کی جائے اور پھر بتدریج، نسبتاً پیچیدہ مینوفیکچرنگ کی طرف بڑھا جائے، اس کے بعد اعلیٰ ٹیکنالوجی کے میدان میں قدم رکھا جائے۔ جہاں تک ہمارے ملک کا تعلق ہے، یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس ملک میں مذکورہ تینوں طرح کی مینوفیکچرنگ، تھوڑی یا زیادہ، ہوتی ہے۔ لیکن جیسا کہ وزیر اعظم کی مذکورہ تحریر میں کہا گیا ہے، سب سے اہم ہے مینوفیکچرنگ کا جاری و ساری رہنا اور ترقی کرنا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں، ہندوستان میں مینوفیکچرنگ، جی ڈی پی کا ۱۵؍ فیصد تھی۔ پچھلے سال، یہ شرح کم ہوکر ۱۴؍ فیصد ہوگئی۔ میک اِن انڈیا ناکام ہوگیا اور اب تو اسے پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اگر ہم یہ سمجھنا چاہیں کہ وطن عزیز کس شمار اور قطار میں ہے اور میک ان انڈیا کی ناکامی کا کیا معنی ہے تو ہمیں کچھ دوسرے ملکوں کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہوگا۔ چین، جس سے ہم اپنا مقابلہ اور موازنہ کرنا چاہتے ہیں یا کرتے ہیں، اس کی معیشت ہماری معیشت سے ۵؍ گنا بڑی ہے۔ وہاں مینوفیکچرنگ، جی ڈی پی کا ۲۹؍ فیصد ہے جو ۲۰۱۴ء سے اب تک برقرار ہے۔ ویتنام میں مینوفیکچرنگ کی شرح ۱۶؍ فیصد ہے جب ہم نے میک ان انڈیا شروع کیا تھا تب یہ شرح ۱۳؍ فیصد تھی۔ سری لنکا کی شرح بھی ۱۶؍ فیصد ہے۔ اس کے علاوہ جن ملکوں کے اعدادوشمار اس وقت میرے سامنے ہیں اُن میں تھائی لینڈ (۲۷؍ فیصد)، انڈونیشیا (۱۹؍ فیصد)، فلپائن (۱۹؍ فیصد)، ملائیشیا (۲۱؍ فیصد) اور سنگاپور (۲۰؍ فیصد) ہے۔ یورپی ملکوں میں جرمنی ۲۰؍ فیصد کی شرح پر ہے جو کہ حیرت انگیز نہیں ہے کیونکہ اس کی سرزمین پر دُنیا کی سب سے عمدہ اور بڑی آٹوموبائل انڈسٹری پائی جاتی ہے۔ یہ گارمینٹ کے بعد صنعتی ترقی کی دوسری سب سے بڑی سطح ہے۔
 میک ان انڈیا کے اجراء کو جتنا وقت ہوا ہے اُتنے وقت میں بنگلہ دیش میں مینوفیکچرنگ کا فیصد ۱۶؍ سے ۱۸؍ ہوا ہے۔ ویسے بنگلہ دیش کا مجموعی جی ڈی پی سالانہ ۸؍ فیصد کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔ یہ رفتار ہماری شرح نمو سے کافی زیادہ ہے جس کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اس عرصے میں بنگلہ دیش کی گارمینٹ مینوفیکچرنگ انڈسٹری ۳۸؍ ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے جبکہ ہندوستان کی گارمینٹ انڈسٹری ۱۸؍ بلین ڈالر سے گھٹ کر ۱۶؍ بلین ڈالر ہوگئی ہے۔ گارمینٹ انڈسٹری اس لئے اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں کم ہنرمند اور کم پڑھے لکھے افراد کو روزگار میسر آجاتا ہے بالخصوص خواتین کو۔ بنگلہ دیش میں لگ بھگ ۵؍ ہزار گارمینٹ فیکٹریاں ہیں جن میں ۸۵؍ فیصد خواتین برسرکار ہیں۔ ویتنام جیسے ملک کا گارمنٹ ایکسپورٹ بھی ہندوستان سے زیادہ ہے جبکہ آخر الذکر، ماضی میں  گارمینٹ مینوفیکچرنگ کے معاملے میں کافی آگے تھا مگر حالیہ برسوں میں اس کی وہ رفتار اور شرح باقی نہیں رہ گئی ہے۔ 
 دیکھا جائے تو مینوفیکچرنگ ایک کل وقتی کام ہے جس میں معینہ تنخواہ دی جاتی ہے جسے کاریگر چند گھنٹے پکوڑہ تلنے کی جزوقتی مصروفیت کے مقابلہ میں ترجیح دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستان مینوفیکچرنگ کو بڑھاوا دینے میں کیوں ناکام ہے؟ میرے خیال میں اس سوال کا جواب یہ ہے کہ میک اِن انڈیا کوئی منظم منصوبہ (اسٹراٹیجی) نہیں تھی بلکہ ایک لوگو (علامت، نشانی) اور چند الفاظ کا مجموعہ تھا اور ہے۔ وہ الفاظ جن کا معنی سمجھنا مشکل ہے۔
  مینوفیکچرنگ کا شعبہ وہاں پھلتا پھولتا ہے جہاں محدود ہنرمندی کے حامل افراد رہتے بستے ہیں۔ چین میں تعلیم کا معیار ہندوستان سے کافی اعلیٰ ہے۔ ہم میں سے جن لوگوں نے چین دیکھا اور وہاں کے کاریگروں سے بات چیت کی ہے وہ اس حقیقت سے واقف ہیں۔ چین میں کوئی فیکٹری قائم کرنا بھی مہنگا ہے کیونکہ وہاں زیادہ مزدوری ادا کرنی پڑتی ہے اس کے باوجود چین میں، جی ڈی پی اور  مینوفیکچرنگ کا تناسب گھٹا نہیں ہے جبکہ ہم نے میک ان انڈیا کی خوب تشہیر کی اس کے باوجود ہمیں کوئی فائدہ نہیں ملا۔
 ہمارے وزیر اعظم کا خواب ہے کہ ملک کی معیشت ۵؍ کھرب ڈالر کی ہوجائے۔ دیکھا جائے تو یہ کوئی ہدف نہیں ہے۔ ہندوستان کی جی ڈی پی جلد یا بہ دیر اُس ہدف تک پہنچ ہی جائیگی۔ جو سوال حکومت سے پوچھا جانا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم کتنی جلدی اُس ہدف تک پہنچ سکتے ہیں اور حکومت ہدف تک رسائی کی رفتار کو تیز تر کرنے کیلئے کیا کچھ کرسکتی ہے؟ یہی اہم سوال ہے اور جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا جواب قطعی غیر واضح ہے۔
 میک ان انڈیا کی مہم دراصل ہندوستان کی معیشت کو نئے تیور عطا کرنے کی کوشش تھی جو وزیر اعظم نے شروع کی تھی لیکن وہ ناکام ہوچکی ہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، وہ اَب میک ان انڈیا کی بات بھی نہیں کرتے۔ اُن کی ویب سائٹ پر جو ڈاٹا ہے وہ ۲۰۱۴ء کا ہے، اُسے اَپ ڈیٹ بھی نہیں کیا گیا ہے۔ 
 فی الوقت ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ہمارا منظم منصوبہ (اسٹراٹیجی) ناکام ہوچکی ہے اور اب ہمیں نئے منصوبے کی ضرورت ہے ورنہ مذکورہ منصوبے کی ناکای پر چپ سادھ لینا ہوگا۔ یہ چپی یا خاموشی کسی کیلئے بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی، خواہ آپ وزیر اعظم کے حامی ہوں یا اُن کی پالیسیوں کے مخالف

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK