Inquilab Logo

مکاتب و مدارس اور الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ

Updated: March 29, 2024, 11:27 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

ہم پوری طرح الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کئے جانے کے حق میں ہیں مگر وہ بنیاد تو ذہن میں ہو جس کی بنیاد پر ایسا کرنا ممکن ہو۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

مکاتب، مدارس اور جامعات میں مدارج کا ہی نہیں، نوعیت کا بھی فرق ہے اس لئے ۲۰۰۴ء کے یوپی ایکٹ میں مدرسہ ایجوکیشن کی جو تعریف کی گئی تھی اس کا اطلاق مکاتب اور بیشتر مدارس پر ہو ہی نہیں سکتا۔ یہاں ان بچوں کو جو مالی حالت خراب ہونے یا کسی اور وجہ سے اسکولوں میں داخلہ لینے سے محروم رہتے ہیں، اس درجہ حرف و عدد شناس بنادیا جاتا ہے کہ وہ روزمرہ کی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔ حرف شناس بنانے کے لئے قاعدہ بغدادی پڑھایا جاتا ہے جس سے ناظرہ میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ یوپی میں ۱۳۳۲۹؍ رجسٹرڈ مدارس میں ۱۵ء۷۵؍ لاکھ طلبہ پڑھتے اور ۳۳۶۸۹؍ اساتذہ پڑھاتے ہیں۔ صرف ۹۶۴۶؍ مدارس حکومت کے امداد یافتہ ہیں۔ غیرتدریسی عملہ کی تعداد ۱۳۲۳۹؍ ہے۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز کچھ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہاں عربی، فارسی یا طب کی تدریس ہوتی اور ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ چند جامعات عالم، فاضل، قاری کی ڈگریاں دیتے ہیں جنہیں حکومت قبول نہیں کرتی۔ عالم فاضل کی وہی ڈگریاں قابل قبول ہوتی ہیں جو الہ آباد بورڈ یا بعض شرائط کے ساتھ یونیورسٹیاں جاری کرتی ہیں۔ اس لئے صرف اسلام کی اشاعت و تبلیغ کی بات ان جامعات کے بارے میں تو سمجھ میں آتی ہے جہاں تفسیر، حدیث، فقہ … وغیرہ پڑھائی جاتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ایسی تعلیم دینے والے جامعات کو حکومت کی طرف سے کوئی امداد بھی نہیں ملتی۔ کچھ کو امداد ملتی ہے تو وہ ابتدائی یا بنیادی تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ یہاں پڑھانے والوں کو حکومت کی طرف سے تنخواہ ملنے کا سلسلہ اور وہ بھی کچھ کو، ادھر کچھ برسوں سے شروع ہوا تھا ورنہ مدارس کے اساتذہ کے قربانی دینے اور ہر حال میں اللہ کا شکر بجا لانے کی تاریخ بہت طویل ہے۔ ہمیں یہ بھی احساس ہے کہ ہم نے مدارس کے اساتذہ کے ساتھ شاید ہی کبھی اچھا سلوک کیا ہو۔ ہم مسلمانوں سے پہلی کوتاہی یہ ہوئی کہ اپنے پورے تعلیمی نظام کو زکوٰۃ خیرات کے سپرد کردیا اور پھر اس روپے کی ادائیگی میں بھی مجرمانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے رہے۔ کچھ بری مثالوں کے ذریعے مدارس کے سفیروں کو بدنام کرنے کی بھی کوشش کی جاتی رہی حالانکہ یہاں کی جانے والی آدم گری کی مثالوں میں ان چند واقعات کی کوئی حیثیت نہیں۔ اچھا ہوتا کہ ایک طرف مدارس کو ایسے لوگوں سے نجات دلائی جاتی جو زبانی اور فتنہ انگیزی کو حربہ کے طور پر استعمال کرتے اور تعلیم و تدریس سے ذہنی مناسبت نہ ہونے کے باوجود مدارس و مکاتب پر قابض ہوتے ہیں، اور دوسری طرف مدارس کے بارے میں پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کو دور کیا جاتا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا اور الہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنا دیا۔ اب کہا جارہا ہے کہ مدرسہ بورڈ اپنا مؤقف پیش نہیں کرسکا یا اس کو سمجھایا نہیں جاسکتا۔ 
 حالیہ فیصلے میں فاضل جج صاحبان نے دو باتیں کہی ہیں۔ ایک بات کی اصلاح ضروری ہے اور دوسری کا استقبال۔ جس بات کی اصلاح ضروری ہے وہ یہ ہے کہ تمام مکاتب و مدارس دینی تعلیم نہیں دیتے۔ وہ اسکول خرچ کے متحمل نہ ہوسکنے والوں کی ابتدائی تعلیم کا انتظام کرکے حکومت کی مدد کرتے ہیں اس لئے اصولی طور پر یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ حکومت کا فنڈ کسی ایک مذہب سے تعلق رکھنے والی تعلیم گاہ کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا، یہ نہیں تسلیم کیا جاسکتا کہ مدارس کو فنڈ دیا جانا دستور کی روح کے منفی ہے۔ اگر کوئی ایسا مدرسہ ہے جہاں تعلیم نہیں دی جاتی یا مدرسین کو پوری تنخواہ نہیں دی جاتی یا تدریسی اور غیرتدریسی عملہ کی تقرری میں جانبداری یا بدعنوانی کا ارتکاب ہوتا ہے تو ایسا کرنے والوں کو قانون کے حوالے کیا جائے۔ استقبال اس کا کہ حکومت سے کہا گیا ہے کہ مدارس کے طلبہ کا اسکولوں میں داخلہ یقینی بنایا جائے۔ 
  اس پورے معاملے کو تفصیل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مدعی کا کہنا تھا کہ مدارس آٹھویں یا ۱۴؍ سال تک کی عمر کے بچوں کو معیاری تعلیم دینے میں ناکام ہیں اور دوسرے یہ کہ مدارس و مکاتب میں ایک ہی مذہب کی تعلیم دی جاتی ہے۔ دوسری بات کے جواب میں حکومت کے کونسل نے کہا کہ ایسا کیا جانا ممنوع یا غیرقانونی نہیں ہے۔ یہاں یہ بات بھی آئی کہ ایسے تعلیمی اداروں کے لئے جہاں ایک مذہب کی تعلیم دی جاتی ہے، ایسے علاحدہ بورڈ کی ضرورت ہے جس کے اراکین اسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں جس سے مدرسے یا تعلیم گاہ کا تعلق ہو۔ 
 اس تفصیل یا تجزیے کی روشنی میں یہ مطالبہ برحق ہے کہ بے شک حکومت اُن جامعات کو کسی قسم کی مالی اعانت نہ کرے جہاں مولوی، عالم، فاضل، قاری ہونے کا نصاب پڑھایا جاسکتا ہے مگر ابتدائی مکاتب و مدارس کے اساتذہ کو پوری تنخواہ اور مالی امدا د دے سکتی ہے۔ یہاں کے معاملات کی بھی نگرانی کرسکتی ہے کہ انتظامیہ اور اساتذہ اپنے کام ایمانداری سے کرتے ہیں یا نہیں ؟ اور اگر کوئی ایسا مدرسہ پایا جائے جو کاغذ پر تو ہو حقیقت میں نہ ہو یا اساتذہ کو پوری تنخواہ نہ دی جاتی ہو تو اس کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ ہم پوری طرح الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کئے جانے کے حق میں ہیں مگر وہ بنیاد تو ذہن میں ہو جس کی بنیاد پر ایسا کرنا ممکن ہو۔ اپنی کمزوریوں اور ان دنیاداروں کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے جو دنیا حاصل کرنے کے لئے دین کا نام لیتے ہیں۔ دین خیرخواہی کا نام ہے۔ اساتذہ کی بدخواہ انتظامیہ کو دیندار کہا جاسکتا ہے نہ طلبہ کے بدخواہ اساتذہ کو۔ دونوں دین کے نام پر دنیا کمانے کی کوشش کررہے ہیں اور مدارس کا مسئلہ الجھا رہے ہیں۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے اصولی بات کہی ہے کہ حکومت کا فنڈ کسی ایک مذہب کی اشاعت کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ جواب یہ ہے کہ ہر مدرسہ میں مذہبی تعلیم نہیں دی جاتی۔ مذہبی تعلیم دینا اور بچوں کی ضرورت کے مطابق ایک خاص ماحول میں اتبدائی تعلیم دینا الگ الگ ہے۔ مذہبی اور لسانی تشخص یا ضرورت کے مطابق بچوں کو تعلیم دینے کی بات تو آئین میں بھی کہی گئی ہے۔ 
  اچھے وکلاء سے اس مسئلہ میں مشورہ کیا جاسکتا ہے۔ انتظامیہ میں گھس آنے والے ناواقفوں کے مقابلے وہ زیادہ مفید اور قابل عمل مشورہ دے سکتے ہیں۔ 

allahabad Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK