Inquilab Logo

مراٹھی اخبارات سے: سرکاری اسپتالوں کی حالت اور ہماری حکومتوں کا افسوس ناک رویہ

Updated: October 08, 2023, 3:06 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

ملک کا امیر طبقہ بڑے اور جدید سہولیات سے آراستہ نجی اسپتالوں میں اپنا علاج کراسکتا ہے لیکن بے چارے غریب آدمی کو علاج معالجہ کیلئے سرکاری اسپتالوں کا ہی رخ کرنا پڑتا ہے۔ اب اگر یہاں بھی علاج کے بجائے موت کا پروانہ ملنے لگے تو مریض کہاں جائیں ؟

Entrance gate of Shankar Rao Chauhan Hospital, Nanded. Photo: INN
ناندیڑ کے شنکر راؤ چوہان اسپتال کا داخلی دروازہ۔ تصویر:آئی این این

ملک کا امیر طبقہ بڑے اور جدید سہولیات سے آراستہ نجی اسپتالوں میں اپنا علاج کراسکتا ہے لیکن بے چارے غریب آدمی کو علاج معالجہ کیلئے سرکاری اسپتالوں کا ہی رخ کرنا پڑتا ہے۔ اب اگر یہاں بھی علاج کے بجائے موت کا پروانہ ملنے لگے تو مریض کہاں جائیں ؟ چندریان مشن کی کامیابی پر پھولے نہیں سمانے والی سرکار اپنے شہریوں کو بنیادی طبی سہولیات فراہم کرنے میں بری طرح سے ناکام ہے۔وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے تھانے ضلع میں ایک رات میں ۱۸؍ اموات کا معاملہ ابھی حل نہیں ہوپایا تھا کہ ناندیڑ، ٬اورنگ آباد اور ناگپور جیسے بڑے شہروں سے دل دہلا دینے والی خبریں آنے لگیں ۔آیئے دیکھتے ہیں کہ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی موت پر مراٹھی اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے؟
سامنا(۴؍اکتوبر)
 اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ’’سوال یہ ہے کہ کیا مہاراشٹر میں سرکار نام کی کوئی چیز باقی ہے؟ ادویات کی قلت کے سبب سرکاری اسپتالوں میں بڑے پیمانے پر اموات کا سلسلہ جاری ہے۔مہینہ بھر پہلے تھانے، پھر ناندیڑ اور اب چھترپتی سمبھاجی نگر میں جو خوفناک صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ دردناک اور مشتعل کردینے والی ہے۔ تین شہروں کے ضلع اسپتالوں میں اچانک مریضوں کی اموات سے ترقی یافتہ کہلائی جانے والی ریاست کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔مہاراشٹر میں اقتدار کے بھوکے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے سرکاری اسپتالوں میں لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مر رہے ہیں ۔مہینہ بھر پہلے کلوا کے چھترپتی شیواجی مہاراج اسپتال میں ایک رات میں ۱۸؍ مریضوں کی موت واقع ہوگئی تھی۔ اس واقعہ کی تحقیقات ابھی مکمل بھی نہیں ہوپائی تھی کہ۲؍ دن میں مراٹھواڑہ کے سرکاری اسپتالوں میں ۴۹؍ مریضوں کی جان چلی گئی۔یہ قدرتی اموات نہیں بلکہ سرکار کی غفلت اور لاپروائی کا نتیجہ ہے ۔ریاست کی غیر آئینی حکومت جس نے صوبے کے نظام صحت کو تہس نہس کر رکھا ہے۔سرکار ۲۴؍گھنٹے `ملائی کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ایسی حکومت کو ضلعی اسپتالوں میں ہونے والی اموات کا جواب دینا ہی پڑے گا۔ تھانے سانحہ کے بعد اس کی نشاندہی کی گئی کہ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی اموات کا فیصد بڑھ رہا ہے اس کے باوجود سرکار سوتی رہی۔ضلعی اسپتالوں میں طبی خدمات اور جان بچانے والی ادویات کے ذخیرہ کے تئیں سرکار کی مجرمانہ غفلت انتہائی سنگین نوعیت کا معاملہ ہے۔تھانے سانحہ کے بعد سرکار نے انکوائری کمیٹی بنانے کی رسمی کارروائی کی۔ اب اس طرح کی کمیٹی کو ناندیڑ بھیج دیا گیا ہےتاکہ مریضوں کی اموات کی تحقیقات کی جائے۔اس طرح کی کمیٹیاں اور ان کی رپورٹس اصل مجرموں کو بچانے کے سواکچھ اور نہیں ہوتیں ۔مہاراشٹر جیسی بڑی ریاست میں ادویات کی قلت کیوں ہوئی؟اگر قلت نہیں تھی تو ایک رات میں اتنی اموات کیسے ہوئیں ؟ ناندیڑ کے سرکاری اسپتال میں ایک مریض کے رشتہ دار کو ۵؍ دوائیں تجویز کی گئیں ان میں سے صرف ایک دوا اسپتال میں دستیاب تھی، بقیہ چار دوائیں باہر سے لانے کیلئے کہاگیا۔ ایسا صرف ناندیڑ میں نہیں بلکہ ریاست کے سبھی سرکاری اسپتالوں میں ہورہا ہے کیونکہ ادویات کی خریداری بند ہے۔‘‘
پربھات(۴؍اکتوبر )
 اخبار نے لکھا ہے کہ ’’دنیا بھر میں طبی پیشے سے وابستہ افراد اور تنظیموں کو فرشتوں کا درجہ حاصل ہے کیونکہ عوام کی نگاہ میں جان بچانے والا کسی فرشتہ سے کم نہیں ہوتا لیکن جب طبی سہولیات فراہم کرنے والے افراد اور ذمہ دار ادارے فرشتوں کے جیسا کام کرنے کے بجائے شیطانوں کی طرح سلوک کرنے لگیں اور بہت سے لوگوں کی موت کا سبب بن جائیں تو پھر ان فرشتوں کو شیطان کہنا ہی پڑتا ہے۔ ناندیڑ اور اورنگ آباد میں ۵۰؍ سے زائد مریض ناقص طبی نظام کی بھینٹ چڑھ گئے۔صرف ناندیڑ میں ۲۴؍ گھنٹے میں ۳۰؍ سے زائد مریضوں کی جان چلی گئی۔مہاراشٹر کے بیشتر سرکاری اسپتالوں میں یہی صورتحال ہےلیکن جب بڑے پیمانے پر اموات ہوتی ہیں تب معاملہ سرخیوں میں آتا ہے۔ورنہ ضلعی اسپتالوں میں طبی امداد کے نام پر مریضوں کی بد حالی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ضلعی اسپتالوں میں مناسب طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے غریب مریضوں کا صحیح طریقہ سے علاج نہیں ہوتا اور کبھی کبھی جان بھی گنوانی پڑتی ہے۔ جن سرکاری اسپتالوں میں قلیل وقت میں بڑے پیمانے پر اموات ہوئی وہاں معقول طبی عملہ، مناسب طبی آلات اور ادویات دستیاب نہیں تھیں جس کی پوری ذمہ داری وزرات صحت پر عائد ہوتی ہے۔ناندیڑ سانحہ نے ثابت کردیا ہے کہ تھانے میں پیش آنے والے واقعہ کے بعد بھی حکومت نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا تھا۔در اصل تھانے سانحہ کے بعد حکومت کو فوراً ریاست کے دیگر سول اسپتالوں کی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا لہٰذا سرکاری اسپتالوں میں موت کا یہ کھیل کب تک چلتا رہے گا،اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے؟‘‘
سکال(۴؍اکتوبر )
اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ’’ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ صوبے کا نظام صحت نہ صرف آئی سی یو میں ہے بلکہ آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ناقص طبی خدمات کے سبب ناندیڑ اور سمبھاجی نگر میں ۴۸؍ گھنٹوں میں ۴۰؍ سے زائد اموات درج کی جا چکی ہیں ۔اتنی بڑی ہلاکتوں کے بعد تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے، معاوضے کا بھی اعلان کیا جاسکتا ہے لیکن ان لوگوں کا درد کیسے کم ہوگا جنہوں نے اپنے عزیزوں کو کھویا ہے۔ دو ماہ قبل وزیر اعلیٰ کے انتخابی حلقے تھانے میں بھی بے حسی اور مجرمانہ غفلت کے سبب کئی لوگوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑی تھیں ۔ مہاراشٹر جیسی ترقی یافتہ ریاست کے سرکاری اسپتالوں میں اتنی بڑی تعداد میں مریضوں کی اموات نظام صحت کے زوال پذیر ہونے کا اشاریہ ہے۔ناندیڑ کے ڈاکٹر شنکر راؤ چوہان ضلع سول اسپتال میں ادویات کی قلت اور انتظامیہ کی مبینہ لاپروائی کے سبب ۲۴؍ گھنٹوں میں ۲۴؍ مریضوں کی جان چلی گئیں جن میں معصوم بچے بھی تھے۔ سرکاری اسپتال غریب اور مزدور طبقہ کا واحد سہارا ہے اگر انہیں یہاں بھی طبی سہولیات فراہم نہیں کی جائیں گی تو وہ کہاں جائیں گے؟ ہم چاند پر پانی تلاش کرنے اور انسانی بستیاں بسانے کی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں مگر چھوٹے قصبوں میں صاف پانی اور طبی خدمات فراہم کرنے میں بری طرح سے ناکام ہیں ۔ حکمرانوں کواس پرغورکرنے اور کچھ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK