Inquilab Logo

مادّہ پرستی کا غلبہ روحانیت کیلئے نقصان دہ ہے

Updated: February 14, 2020, 10:01 AM IST | Khalid Saifullah Rahmani

اسلام معاشی ترقی کے خلاف نہیں ہے ، قرآن مجید میں زکوٰۃ دینے کا حکم متعدد آیات میں ہے ، اور زکوۃ لینے کا استحقاق صرف ایک آیت میں بیان کیا گیا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اس موقف میں ہونا چاہئے کہ وہ دوسروں کو زکوٰۃ دیں نہ کہ خود زکوٰۃ لیں

ہرمسلمان کے دل میں یہ بات رہنی چاہئے کہ میری زندگی ، میری موت اور میری عبادتیں اور نمازیں ، سب اللہ کے لئے ہیں۔ تصویر : آئی این این
ہرمسلمان کے دل میں یہ بات رہنی چاہئے کہ میری زندگی ، میری موت اور میری عبادتیں اور نمازیں ، سب اللہ کے لئے ہیں۔ تصویر : آئی این این

اللہ تعالیٰ نے انسان سے دو چیزیں متعلق کی ہیں ، ایک اس کا مقصد ہے اور دوسری اس کی ضروریات ہیں۔ انسان کا مقصد خدا کی بندگی کا حق ادا کرنا ہے۔ ( الطور : ۵۶) عبد کے معنی غلام کے ہیں،  غلام خود اپنا مالک نہیں ہوتا، اس کی جان، اس کا مال،  اس کا وقت اور سب کچھ اس کے مالک کی ملکیت ہوتی ہے، انسان اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے حوالے کردے، یہی بندگی ہے۔ جب انسان حقیقی بندہ بن جاتا ہے تو اپنی تمام خواہشات کو خدا کی مرضی کے تابع کردیتا ہے، جس بات میں خدا کی خوشنودی ہوتی ہے وہی بات بندے کو شاد کام کرتی ہے، اور جس بات سے خدا ناراض ہوتا یا جس سے خدا کی ناراضگی کا اندیشہ ہوتا ہے، وہ بات بندوں کو بھی ناخوش کرتی ہے، اسی کو قرآن نے رضاسے تعبیر کیا ہے۔ البینہ : ۸ضروریات وہ چیزیں ہیں جو دُنیا میں زندگی بسر کرنے کیلئے لازمی ہوتی ہیں، انسان غذا اور پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، اس کو ایک ایسی چھت بھی چاہئے جس کے سائے میں وہ سکون حاصل کرسکے، اس کیلئے کپڑے بھی مطلوب ہیں، تاکہ وہ اپنا تن ڈھک سکے، یہ ساری ضروریات مال کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں، بلکہ خود بھی مال ہیں ، اسی لئے رزق کو ’’ فضلِ خداوندی ‘‘ سے تعبیر کیا ہے، ( جمعہ :۱۰ ) یہ وہ چیزیں ہیں جن  پر انسانی زندگی کی بقا موقوف ہے ۔ 
 خدا سے تعلق اور اس کی بندگی کا شعور، انسان کی روح کی غذا ہے، اسی لئے اسے ’ روحانیت ‘ کہا جاتا ہے ، اور انسان کی جسمانی ضروریات کی تکمیل ماد ّی چیزوں سے ہوتی ہے، اسی لئے اسے ’ ماد ‘ کہتے ہیں۔ دُنیا کے بعض مذاہب وہ تھے، جنہوں نے روحانیت کے لئے ماد ّہ سے بالکل قطع تعلق کر لینے کو ضروری قرار دیا تھا، جیسے ہمیشہ روزہ رکھنا، نکاح سے اجتناب کرنا یا جسمانی راحت کی چیزوں سے فائدہ نہ اٹھانا، یہ چونکہ ایک غیر فطری بات ہے، اس لئے اسلام نے اس طریقۂ کار کو پسند نہیں کیا،  قرآن مجید میں اسے ’ رہبانیت ‘ کہا گیا ہے  اور بتایا گیا کہ یہ انسانوں کا من گھڑت طریقہ ہے، خدا نے کبھی اس کا حکم نہیں دیا۔ ( الحدید : ۲۷)  اس کے مقابلے میں وہ لوگ ہوئے جنہوں نے دُنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لیا، ان کو اس بات سے انکار ہے کہ کسی خالق و مالک نے ان کو پیدا کیا ہے، اور پھر ان کو دُنیا کے اعمال کا جواب بھی دینا ہے۔ یہ زندگی گزارنے کا وہ تصور ہے جسے قرآن نفس پرستی سے تعبیر کرتا ہے ، (نساء : ۲۷) گو یا ان کا پورا یقین ماد ّہ پر ہے ۔ 
 اسلام نے زندگی گزار نے کا جوطریقہ بتایا ہے ،یہ ان دونوں کے درمیان ہے ، اس نظامِ زندگی کا حاصل یہ ہے کہ انسان کی کوششوں کا اصل محور روحانی ترقی اور خدا کی خوشنودی کا حصول ہونا چاہئے: میری زندگی، میری موت اور میری عبادتیں اور نمازیں خدا ہی کے لئے ہیں ۔ ( الانعام : ۱۶۳)، جو پوری کائنات کا رب ہے، لیکن دُنیا کے اسباب بھی خدا ہی نے پیدا کئے ہیں، اور اسی نے ان کو استعمال کرنے کی اجازت بھی دی ہے، اس لئے ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے، البتہ دُنیا سے فائدہ اٹھانے میں دو باتوں کا لحاظ رکھا جائے، ایک یہ کہ شریعت نے حلال و حرام کی جو حدیں مقرر کی ہیں، انسان ان پر قائم رہے، وہ حلال اورجائز چیزوں سے فائدہ اٹھائے اور حرام سے اپنے آپ کو بچائے، دوسرے مادیت روحانیت پر غالب نہ ہو جائے، وہ بندۂ خدا کے بجائے بندۂ نفس نہ بن جائے، اور دنیا کی نعمتیں اسکی آرزوؤں اور کاوشوں کا محور بن کر نہ رہ جائیں، اسی لئے رسول اللہ ا نے مستقل دُعاسکھائی کہ اے اللہ! دُنیا کو ہماری فکر کا سب سے بڑا مرکز نہ بنادیجئے ۔ (ترمذی ) 
 یہ بات واقعی بڑی مشکل ہے کہ آدمی دنیا اور اسباب ِدُنیا سے تعلق بھی رکھے، لیکن اس کا تعلق غالب نہ ہو جائے، اسی کو بعض صوفیاء نے ایک احسن مثال کے ذریعے سمجھا یا ہے کہ انسان دُنیا کی نعمتوں کے درمیان اس طرح رہے، جیسے کشتی پانی میں چلتی ہے، کہ کشتی پانی سے بے نیاز نہیں ہو سکتی، لیکن پانی کو اپنے وجود سے باہر رکھتی ہے، اگر پانی کشتی کے اندر آجائے، تو اس کے لئے تباہی کا پیغام ہے، اسی طرح انسان مادّے سے فائدہ تو اٹھائے، لیکن اس کی محبت اس کے دل میں جاگزیں نہ ہونے پائے۔ رسول اللہ ا کو اُمّت کے بارے میں یہی خوف تھا، گزشتہ قوموں کی تاریخ آپؐ کے سامنے تھی، جب تک وہ تنگ دستی کی حالت میں تھے، اپنے خالق و مالک سے ان کا تعلق مضبوط تھا، ان میں خدا کی خوشنودی کے لئے جاں نثاری کا جذبہ تھا، تخت وتاج اور سیم وزر کی ان کی نگاہ میں کوئی قدر و قیمت نہیں تھی لیکن جب فراخی اور خوشحالی آئی  اور دُنیا اُن کے قدموں میں بچھنے لگی، تو آہستہ آہستہ روحانیت پر مادیت کا غلبہ حاصل ہونے لگا، اور خدا سے ان کا تعلق کمزور ہوتا گیا ۔ 
 چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر ص سے مروی ہے کہ رسول اللہ ا نے غزوۂ احد کے آٹھ سال بعد شہدائے احد کے لئے اس طرح دعا فرمائی جیسے آپ زندہ اور مردہ سب کو وداعی دُعا دے رہے  ہوں، پھر آپ  ا منبر پر بیٹھے اور خطاب فرمایا : 
 ’’ میں تم لوگوں سے آگے جاتا ہوں اور تم پر گواہ ہوں، اب میری تم سے ملاقات حوض کوثرپر ہوگی، اور میں اُسے اِس وقت بھی دیکھ رہا ہوں، مجھے اس بات کا خوف نہیں ہے کہ تم شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے، لیکن مجھے تم پر دُنیا کا ڈر معلوم ہوتا ہے کہ تم اس کے بارے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کروگے ۔ ‘‘
 حضرت عقبہؓ کہتے ہیں کہ یہ میرے لئے رسول اللہ ا کا آخری دیدار تھا۔  ( بخاری ، حدیث نمبر : ۴۰۴۲ ، کتاب المغازی، باب غزوہ احد
 ایک دفعہ بحرین سے ڈھیر سارا مال آیا۔ اس موقع پر آپ ا نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم مجھے تم پر فقر و محتاجی کا اندیشہ نہیںہے، البتہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم پر دُنیا اس طرح پھیلا دی جائے،  جیسے تم سے پہلے کے لوگوں پر پھیلائی گئی تھی، پھر تم ان کے بارے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو، اور جیسے اس مال نے ان لوگوں کو ہلاک کیا تھا، تم لوگوں کو بھی ہلاک کردے۔  ( الترغیب و الترہیب : ۵؍۱۴۱ ) جب سیدنا حضرت عمر فاروق ص کے دربار میں فتح ایران کے بعد کسریٰ کا خزانہ آیا، تو مدینہ میں جشن کا منظر تھا، حضرت عمر ص کی آنکھیں اشکبار تھیں، لوگوں کو اس پر حیرت ہوئی، تو آپؓ نے فرمایا کہ جب بھی کسی قوم میں دولت کی افراط ہوتی ہے تو اس کے افراد میں باہمی عداوت اور بغض و کدورت پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘ ( بیہقی : ۶؍۳۵۸۸ ) 
 رسول اللہ ا امت پر جس بات پر اندیشہ رکھتے تھے، آج اُسے  دیکھا جاسکتا ہے۔ مادیت کے روحانیت پر غلبے کے بہت سے مظاہر ہیں، جو دن رات سامنے آتے رہتے ہیں، انہیں میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کی روحانی ضرورتوں پر جو خرچ ہو تا ہے، اِسے ایک طبقہ فضول سمجھتا ہے، اس کا خیال ہے کہ اگر یہ سرمایہ امت کی مادی ضرورت کے لئے خرچ کیا جاتا، اور اس کی معاشی سطح کو اونچا کیا جاتا تو یہ زیادہ مفید ہوتا، اسی لئے بہت سے لوگ مدارس  اور دینی تنظیموں اور کاوشوں پر ہونے والے اخراجات کو امت کیلئے ایک بوجھ سمجھتے ہیں،  ان کا تصور ہے کہ اگر یہی رقم مسلمانوں کے لئے میڈیکل کالج، انجینئرنگ اور آکیٹکچرل کالج اور فنی تعلیمی اداروں پر خرچ کی جاتی تو بہتر ہوتا، اور قوم کو اس کا زیادہ نفع پہنچتا ۔
 ہرچند کہ ایسا کہنے والے قلیل تعداد میں ہیں لیکن در حقیقت ایسا کہنا  اُس ذہنیت کا عکاس ہے جو آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے میں پروان چڑھ رہی ہے، جس میں روحانیت اور تعلق مع اللہ کی اہمیت نہیں بلکہ مادیت کی اہمیت ہے ۔ مسلمانوں میں ایمان کی روح بیدا ر ہو، بے نمازی، نمازی بنیں، حلال و حرام کی پہچان پیدا ہو، نفس اور مادے کا پرستار بننے کے بجائے انسان خدا کا پرستار بن جائے، ان کے بجائے اہمیت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کے پاس اچھے مکان ہوں، اچھی دُکانیں ہوں، کاروبار میں وہ آگے ہوں  اور مادی زندگی میں ان کو سبقت حاصل ہو۔ 
 اسلام معاشی ترقی کے خلاف نہیں ہے،  قرآن مجید میں زکوٰۃ دینے کا حکم بیسیوں آیات میں ہے ، اور زکوۃ لینے کا استحقاق صرف ایک آیت میں بیان کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا موقف یہ ہو کہ وہ دوسروں کو زکوٰۃ دیں نہ کہ خود زکوٰۃ لیں، لیکن یہ روحانی قدروں کے انحطاط اور اس سے محرومی کی قیمت پر نہیں، کیوں کہ رسول اللہ ا کی بعثت کا مقصد معاشی ترقی نہیں تھا، روحانی ترقی تھا، اور اس امت کو بھلائی کی دعوت دینے کیلئے بھیجا گیا ہے ، نہ کہ کار و بار کی دعوت دینے کیلئے۔ ( آل عمران : ۱۱۰ )جو لوگ اس مریضانہ ذہن سے سوچتے ہیں ، ان کو غور کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے پورے عالم کے صاحبِ استطاعت مسلمانوں کے لئے حج فرض فرمایا ہے۔خدا نے جو انسان کی ضرورتوں اور مصلحتوں سے خود انسان سے بھی زیادہ واقف ہے  ایسی عبادتوں کا حکم دیا ، جن سے ایمان میں تازگی آتی ہے ، جب ایک مسلمان حرم اقدس میں پہنچتا ہے ، اور خدا کی نشانیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ، جن سے اللہ کے نبیوں اور رسولوں کی یاد متعلق  ہے تو خدا پر اس کایقین بڑھتا ہے ۔اسی طرح قربانی کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ سے اپنے عہد کی تجدید کرتا ہے کہ وہ اپنا سب کچھ خدا کے لئے قربان کرنے کو تیار ہے ، اس عمل سے ہر صاحبِ ایمان کے ذہن میں حضرت ابراہیم  اور حضرت اسماعیل کی قربانی کی یاد تازہ ہوتی ہے ، اور ایک نیا جذبہ اور حوصلہ اس کے اندر بیدار ہوتا ہے ، اگر مادی ترقی روحانی ترقی سے زیادہ اہم ہوتی تو دین میں اس طرح کے احکام نہیں دئیے گئے ہوتے ، اس لئے یہ ایک بیمار سوچ ہے ، اور اس کا سرچشمہ مغربی تہذیب ہے ، مغرب میں مادیت کے غلبے کی وجہ سے روحانی قدروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، اُن کا خیال ہے کہ انسان کی حیثیت بھی ایک ترقی یافتہ حیوان کی ہے ، وہ اسی لئے پیدا ہوا ہے کہ ُدنیا کی نعمتوں اور لذتوں سے آنکھ بند کر کے فائدہ اٹھائے، کیوں کہ جو کچھ ہے وہ اسی دنیا کے لئے ہے ، اس دنیا سے آگے کچھ اور نہیں ہے ، اس تصور کے ساتھ ظاہر ہے کہ روحانیت اور خدا طلبی کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی ، افسوس کہ مغرب زدہ مسلمان اس وقت ایک طرح کی دو عملی کے شکار ہیں ، دل میں چھپی ہوئی ایمان کی چنگاری انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ دین کا لبادہ اُتار پھینکیں ، دوسری طرف مادیت کی نہ ختم ہونے والی پیاس نے انہیں ایسا بے قرار کر رکھا ہے کہ روحانیت اور خدا پرستی کی عظمت ان کے دلوں سے نکل گئی ہے ، موجودہ ماحول میں اس مادہ پرستانہ ذہن کا مقابلہ کرنا اور مسلمانوں کو اس سے بچانا نہایت ضروری ہے  
 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK