Inquilab Logo Happiest Places to Work

مادہ پرستی : امن و انسانیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ

Updated: February 10, 2023, 12:25 PM IST | Muhibullah Qasmi | Mumbai

موجودہ دور میں مال و زر کی دوڑ اور ترقی کی چاہ نے معاشرہ کو خودغرض بنا دیا ہے

The music of the material world makes a person disgusted with himself
مادی دنیا کی دھن انسان کو اپنوں سے بھی بیزار کردیتی ہے


آج کی تیز رفتار دنیا بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کے بلند مقام پر پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آرام و آسائش کی جدیدترسہولیات حاصل ہوگئی ہیں، انسان دنیا کو اپنی مٹھی میں کر نے اورچاندپر گھر بسانے کے لئے  سوچ رہاہے لیکن دوسری طرف  امن و امان کا فقدان ہے۔ انسانیت دم توڑ رہی ہے۔انسان کا اخلاق و کرداراتنی پستی میں جاگرا ہے کہ اسے انسان کہنا گویالفظ انسان کی توہین ہے۔
 اگر ہم امن و امان اور انسانیت کی راہ میں کسی بڑی رکاوٹ کا ذکر کریں تو وہ اس لئے ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انسان خدا ترس ہونے کے بجائے مادہ پرست ہوگیاہے۔
مال ودولت کا حصول اور مادہ پرستی، دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ بلاشبہ مال  انسان کی ضرورت ہے ۔ کائنات اور اس کی تمام چیزیں انسانوں کی سہولت اور ان کی ضرورت کی خاطر پیداکی گئی ہیں مگر خود انسان اپنے مالک کی عبادت اور اس کی اطاعت کے لئے پیدا کیاگیاہے۔ اس طرح مال کا حصول اس کی ضرورت ہے مگر مادہ پرستی اللہ کی عبادت و اطاعت کے خلاف ہے۔ اس صورت میں انسان اپنے خالق و مالک کی مرضی کو بھول کر وہ تمام کام کرتا ہے جو خود اس کے لئےبھی نقصاندہ اور امن عالم کے لئےخطرناک ہیں ۔ اس کو اس مثال کے ذریعے بہت آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کشتی خشکی میں توچلتی نہیں، اسے پانی پر ہی چلایا جاتا ہے لیکن اگر کشتی میں پانی لبالب بھر جائے تو یہی پانی اس کشتی کو غرقاب کردیتا ہے۔
مادہ پرستی وہ مہلک مرض ہے جو انسانی اخلاق و کردار اور سماج کو متاثر کرتا ہے، پھر یہی بد اخلاق و بد کردار شخص رفتہ رفتہ الحاد کی طرف چلا جاتاہے اور اس کی عاقبت توخراب ہوتی ہی ہے  اس کا رویہ بھی سماج میں بے چینی اور فساد کا سبب بن جاتا ہے ۔وہ دنیا میں اپنی آرام و اسائش کے لئےوہ تمام کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے ، جو انسان کو ذلیل و رسوا کرتا ہے اور معاشرہ میں بدامنی پھیلنے لگتی ہے۔ اللہ تعالی نے اس سے انسان کو متنبہ کیا ہے،  مادہ اور مادہ پرستی کو اسباب ِفریب قراردیتے ہوئے اس سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ 
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’لوگوں کے لئے مرغوبات نفس، عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی او ر زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے۔‘‘ (آل عمران:۱۴)
مادہ پرستی نے انسانیت کوبری طرح متاثرکیا ہے، جس سے پورا معاشرہ فساد و بگاڑ کی آماجگاہ بن گیاہے۔انسان ہر چیز میں مادی مفاد کو سامنے رکھ کر اس کے حصول کے لئےکوشاں ہے۔ مادہ پرست انسان مادی ترقی نیز مال و زر اور اسباب کی کثرت کو زندگی کا معراج تصورکرتا ہے  اگر چہ وہ خدائی ضابطوں، انسانی رشتوں اور اخلاقی قدروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔چنانچہ  اسی کا نتیجہ ہے کہ انسانی زندگی میں توازن، اعتدال اور ہم آہنگی قائم رکھنا دشوار ہورہا ہے۔ 
کہا جاتا ہے کہ اگرعلم عام ہوجائے، لوگ زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ ہوجائیں تو سماجی زندگی بہترہوجائے۔ مگریہ بات حقیقت سے پرے معلوم ہوتی ہے۔ اس دورمیں علم پہلے کے مقابلہ میں زیادہ عام ہے ۔ تعلیم کا گراف بڑھ رہاہے۔مگر اخلاق و کردار کا گراف نیچے جارہاہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہاں اخلاقی تعلیم پرکم مادہ پرستی اور مادی تعلیم پر زیادہ زور دیا جارہا ہے۔گویا تعلیمی مراکز انسانوں کو مشین بنانے کی فیکٹریاں ہیں، جہاں انسانی جذبات نہیں ہوتے بلکہ ان درس گاہوں یا دانش گاہوں میں  زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے گرسکھائے جاتے ہیں۔
معاشرے میں جھوٹ، رشوت، دھوکہ دہی، لوٹ کھسوٹ اورحقوق کی پامالی اسی مادہ پرستی کے کرشمے ہیں۔ کل تک لوگ غریبوں کی مدد کے لئےآگے آتے تھے، ان کی ضروریات کی تکمیل کو انسانی فریضہ سمجھتے تھے، غریبوں کو کھانا دینے کے بعدہی کھاتے تھے، ہر کس و ناکس سے گفتگو کے دوران نرم لہجہ اختیار کرتے تھے۔اس سے ان کے اخلاق کی بلندی کا اظہار ہوتا تھا، مگر اب عالم یہ ہے کہ گفتگو کے دوران ایسا سخت لہجہ استعمال کرتے ہیں کہ بسا اوقات معاملہ لڑائی جھگڑے تک جا پہنچتا ہے۔ رشتہ داری نبھانا تو درکنار والدین پر خرچ کرنے کو بھی اپنا مادی نقصان تصور کرنے لگتے ہیں، اولاد ہوتے ہوئے بھی والدین بے سہارا ہوتے ہیں۔ جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ گفتگو میں نرمی رکھی جائے، مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی مزدوری دی جائے، کسی پر ظلم نہ کیاجائے، کسی کے ساتھ دھوکہ نہ کیاجائے اور  والدین کے ساتھ حسن سلوک کو یقینی بنایا جائے ۔ یہ وہ ا خلاقی تعلیمات ہیں، جنھیں رسول اللہ ؐ نے ایمان کا حصہ قرار دیاہے۔
 آج اگر انسانوں کو سکون و اطمینان نصیب ہوسکتا ہے تو وہ مال و دولت کے ڈھیر اکٹھا کرکے اور مادیت میں غرق ہوکر نہیں، بلکہ اپنے اخلاق وکردار کو سنوار کر اور دوسرے انسانوں کے حقوق اداکرکے ہی وہ اس سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK