مولانا ابوالکلام آزاد ملک کے پہلے وزیرتعلیم تھے۔ انہوں نے یہ وزارت صرف اسلئے نہیں سنبھالی تھی کہ انہیں وزارت چاہئے تھی بلکہ یہ عہدہ اسلئے قبول کیا تھا کہ ان کے پاس تعلیم کا ایک نظریہ تھا اور وہ اس شعبے میں کچھ کرنا چاہتے تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد۔ تصویر: آئی این این
مولانا ابوالکلام آزاد ملک کے پہلے وزیرتعلیم تھے۔ انہوں نے یہ وزارت صرف اسلئے نہیں سنبھالی تھی کہ انہیں وزارت چاہئے تھی بلکہ یہ عہدہ اسلئے قبول کیا تھا کہ ان کے پاس تعلیم کا ایک نظریہ تھا اور وہ اس شعبے میں کچھ کرنا چاہتے تھے۔ ان کے تعلق سے حالانکہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ انہوں نے کسی جامعہ سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی یعنی ڈگری حاصل نہیں کی لیکن اردو، عربی، فارسی، ہندی، حتیٰ کہ انگریزی میں بھی انہوں نےاپنے طور پر مہارت حاصل کی۔
مولانا آزاد نے ملک میں جمہوریت کی بقا اور اس کے فروغ کیلئے تعلیم کو ناگزیر قرار دیا تھا۔ ان کاکہنا تھا کہ ہمارے شہری اپنے حقِ رائے دہی کا صحیح استعمال اسی صورت میں کر سکیں گے جب ہمارا تعلیمی نظام انہیں ان کے حقوق اور فرائض سے اچھی طرح واقف کرا دے۔ شہریوں کو تعلیم یافتہ بنانے اور ان میں جمہوری جذبہ پیدا کرنے کیلئے انہوں نے ۵؍ اہم اصولوں کی تاکید کی تھی۔
ہر شہری کو شہریت کے معنی کا علم ہو اور یہ پتہ ہو کہ جمہوری حکومت میں اس کا کردار کیا ہے۔
معاشرتی تعلیم لوگوں کو صاف اور صحت مند زندگی گزارنے کی تربیت دے۔
معاشرتی تعلیم اس نوع کی ہو کہ وہ ایسی معلومات فراہم کرے جس سے افراد اپنے طرزِ زندگی میں بہتری لا سکیں۔
تعلیم کے ذریعے لوگ اپنے جذبات و احساسات کی صحیح تربیت کر سکیں۔
جمہوری رواداری کی ضرورت پر تاکید ہو اور سماجی تعلیم میں اخلاقی بھی عناصر شامل ہوں۔
مولانا آزاد تعلیم کو سیکولر طرز فکر کے تحت چلانا چاہتے تھے اور اس سمت انہوں نے کئی اہم قدم بھی اٹھائے تھے۔ ۲۰؍ فروری۱۹۴۹ء کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے قومی تعلیمی نظام کا ایک نقشہ پیش کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں غیر مذہبی تعلیمی نظام ہونا ضروری ہے۔ ایک ایسی تعلیم جس میں ملک کے تمام باشندوں کیلئے بلا امتیاز تعلیم و ترتیب کی گنجائش موجود ہو۔
ان کی تعلیم سوچ کتنی بلند تھی اور وہ کیا کچھ چاہتے تھے، اس کا ایک نقشہ انہوں نے ۱۹۵۱ء میں اپنی ایک تقریر میں کیا تھا، جس کا ذکرماہر تعلیم ہمایوں کبیر نے ۱۹۶۱ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’کتاب التذکرہ‘ میں کیا ہے۔ مولانا آزاد نے ۱۹۵۱ء میں ملک کے اولین انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) کھڑگ پور کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ:
’’وزیر تعلیم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ہماری جانب سے کئے گئے اوّلین فیصلوں میں سے ایک فیصلہ یہ تھا کہ ہم ملک میں اعلیٰ تکنیکی تعلیم کی سہولیات کو اس طرح فروغ دیں کہ ہم اپنی بیشتر ضروریات کو خود ہی پورا کر سکیں۔ ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جو اعلیٰ تعلیم و تربیت کیلئے غیر ممالک کا سفر کرتی ہے، اسے ملک ہی میں اس طرح کی تربیت ملے بلکہ میں یہ خواہش بھی رکھتا ہوں کہ ایک ایسا وقت آئے کہ جب ہندوستان میں تکنیکی تعلیم کی سہولیات اس معیار کی میسر ہوں کہ غیر ممالک کے افراد اعلیٰ سائنسی اور تکنیکی تعلیم کیلئے ہندوستان آئیں۔‘‘اسی خواہش کے تحت انہوں نے آئی آئی ٹی کی بنیاد ڈالی اور آئی آئی ایم جیسے اداروں کی راہ ہموار کی تھی۔ خیال رہے کہ مولانا آزاد صرف وزیر تعلیم نہیں تھے بلکہ سائنس و ثقافت کی ذمہ داری بھی ان کے کاندھوں پر تھی۔اسی کے ساتھ انہوں نے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یوجی سی)اورمختلف ممالک سے تہذیبی و ثقافتی رشتوں کو مضبوط کرنے کیلئے انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز(آئی سی سی آر)کی تشکیل کی تھی۔ مولانا آزاد نے ملک کے ہر فرد کیلئے یکساں تعلیم کو لازمی کرنے کی بات کرنے کے ساتھ ہی تعلیم بالغاں کو بھی عام کرنے کی بات کہی تھی۔
افسوس کی بات ہے کہ آج نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ عوامی سطح پربھی ان کے افکار و نظریات کو فراموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔