Inquilab Logo Happiest Places to Work

جمہوریت کے بامعنی ہونے کا مفہوم ہے ملک کی حقیقی ترقی

Updated: May 25, 2025, 3:25 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

ایسے قوانین جن سے فرد کی آزادی اور اختیار متاثر ہوتا ہے، نظر ثانی کے مستحق ہوتے ہیں کیونکہ جب تک آزادی اور اختیار کو یقینی نہیں بنایا جائیگا تب تک جمہوریت متاثر رہے گی۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

جمہوریت بنیادی طور پر فرد کی آزادی کیلئے ہوتی ہے۔ سماجی اور ثقافتی اقدار کی پاسداری کی فریاد کسی بھی حکومت کے تحت کی جا سکتی ہے۔ جمہوریت کی تہذیب، اس پر عمل آوری اور اس کی روح کو کسی ملک کی شان اور رفعت میں اضافہ کا سبب بننا چاہئے۔ یہ تب ہوگا جب افراد کو اختیار دیا جائیگا۔ جمہوریت کا مقصد ہی یہ ہے۔ 
اپنے ایک مضمون میں برطانوی مصنف اور ادیب سی ایس لیوِس نے لکھا ہے کہ معمولی پیچ کش سے لے کر گرجا گھر تک کسی بھی کاریگری کا فیصلہ کرنے کی پہلی اہلیت یہ جاننا ہے کہ یہ کیا ہے۔ یعنی جو پیچ کش ہے وہ کیا ہے اور اسے کس مقصد کے تحت یا کون سی آسانی پیدا کرنے کیلئے بنایا گیا ہے۔ یہی بات اداروں پر منطبق کی جاسکتی ہے کہ اُن کے وجود کا مقصد کیا ہے۔ جب اس کا مقصد جان لیا جائے گا تو ہر شخص اپنے نقطۂ نظر سے اس کی تعبیر کرے گا مثلاً ایک مصلح سوچے گا کہ پیچ کش خراب مقصد کیلئے بنایا گیا تھا جبکہ کمیونسٹ یہی بات گرجا گھر کے بارے میں کہے گا۔ مگر یہ باتیں بعد میں آتی ہیں، اُن سے پہلے آپ کو اُس آلہ اور ادارہ کو سمجھنا ہوگا۔ ‘‘
اس قول کی روشنی میں اگر جمہوریت کو سمجھنا ہو تو محسوس ہوگا کہ محض انتخابات کا انعقاد جمہوریت کی واحد ضرورت نہیں ہے۔ یہ محض قبائلی جدوجہد سے بھی و ابستہ نہیں ہے۔ اگر فرد کی آزادی مجروح کی جاتی ہے یا سلب کی جاتی ہے یا محدود کی جاتی ہے تو خواہ آمریت ہو یا منتخبہ حکومت، ان میں کوئی فرق نہیں کیا جائیگا کیونکہ دونوں کا طور طریقہ مختلف ہوگا مگر ان طور طریقوں سے ایک ہی کام لیا جائیگا۔ 
اسے، اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک جج، حکومت کے خلاف فیصلہ سناتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُسے حکومت سے بیر ہے یا وہ حکومت سے کد رکھتا ہے بلکہ وہ اپنا فیصلہ جمہوری قدروں کی بالادستی ہی کیلئے سناتا ہے۔ جج اپنے فیصلے میں اس لئے حق بجانب قرار پائےگا کہ اُسے فرد کے حقوق کی حفاظت کیلئے حکومت کے خلاف فیصلہ دینے تک کا اختیار ہے۔ ہوسکتا ہے یہ کہنا کچھ سخت لگے مگر یہ کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ جج کی بنیادی ذمہ داری فرد یا شہری کو حکومت کےغیر عادلانہ فیصلوں سے بچانا ہے۔ یہ مفروِضہ ہوسکتا ہے مگر درست مفروضہ ہے کہ ریاست یعنی حکومت فرد کو پابند کرنا چاہتی ہے کیونکہ وہ آلات کے ہموار چلائے جانے میں دشواری سمجھا جاتا ہے۔ آپ ہمارے ملک کے کسی بھی واقعے میں مذکورہ بالا معانی کو رو بہ عمل آتا ہوا بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں کسی خاص واقعے کی نشاندہی مناسب نہیں ہوگی۔ مصنف یا قلمکار اس مقصد کے تحت قلم اٹھاتا ہے کہ وہ حالات کو مثبت طور پر بدلنے میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے یا نہیں۔ اگر وہ کردار ادا کرسکتا ہے تو یقیناً قلم اُٹھائے گا۔ اس سلسلے میں اس بات کا بھی مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ جن تبدیلیوں کو حکومت یا ریاست راہ دیتی ہے اُن کے بارے میں عوام کس ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کی تفصیل بیان کرنا ضروری نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کافی عرصے سے عوامی حلقوں میں ہیں (موجودہ حکومت کا بارہ سالہ اقتدار)۔ عوامی حلقے کیا سوچتے ہیں اس کا اظہار انتخابات کے نتائج سے ہوتا ہے۔ اس کے باوجود سرخیاں پڑھنا ضروری ہے تاکہ کوئی سرخی دلچسپی کا باعث بنے تو قاری خبر کی تفصیل تلاش کرے اور اندازہ لگائے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ فرد کو بااختیار بنانے اور جمہوریت کو گہرائی عطا کرنے میں کتنا معاون ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جو کچھ ہے وہ اس کے برعکس ہے؟موجودہ حکومت نے جو قوانین بنائے ہیں اُن کی فہرست پر نظر ڈالنے سے بہت سی باتوں کا علم ہوتا ہے۔ یہ ہیں چند قوانین:
اتراکھنڈ کا آزادی ٔ مذہب قانون ۲۰۱۸ء، ہماچل پردیش کا آزادیٔ مذہب قانون ۲۰۱۹ء، اُتر پردیش کا وِدھی وِرُدھ دھرم سمپریورتن پرتی بندھ ادھیادیش ۲۰۲۰ء، مدھیہ پردیش آزادیٔ مذہب قانون ۲۰۲۱ء، گجرات کا آزادیٔ مذہب (ترمیمی) قانون ۲۰۲۲ء اور ہریانہ کا ’’غیر قانونی تبدیلیٔ مذہب قانون‘‘ ۲۰۲۲ء۔ 
اس کے علاوہ چند قوانین اس طرح ہیں :
مہاراشٹر کا تحفظ حیوانات (اینیمل پروٹیکشن) ایکٹ ۲۰۱۵ء،  ہریانہ حکومت کا گئووَنش سنرکشن ایوم گئو سموردھن قانون ۲۰۱۵ء، گجرات اینیمل پریزرویشن (ترمیمی) قانون ۲۰۱۷ء اور دیگر۔ قوانین کی تیسری فہرست بھی ہے جس میں دی رائٹ ٹو انفارمیشن (امینڈمنٹ) ایکٹ ۲۰۱۹ء، اترپردیش ریکوری آف ڈیمیج ٹو پبلک اینڈ پرائیویٹ پراپرٹی ایکٹ ۲۰۲۰ء، ٹیلیکوم سروسیز کو عارضی طور پر معطل کرنے (پبلک ایمرجنسی اینڈ پبلک سیفٹی) رولس ۲۰۱۷ء اور آدھار نیز دیگر قوانین (ترمیمی) قانون ۲۰۱۹ء وغیرہ ہیں۔ 
ان فہرستوں میں قانون وضع کئے جانے کا سال دیکھنا اہم ہوگا کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم (فرد کی آزادی کو محدود کرنے کے معاملے میں ) بتدریج آگے بڑھتے رہے ہیں۔ انہی قوانین نے آج ہمیں وہاں لا کر کھڑا کیا ہے جہاں ہم ہیں۔ رونما ہونے والے واقعات کی سرخیوں کے پس پشت قوانین کا یہ ڈھانچہ ہے جن کے سبب واقعات کی نوعیت ایک جیسی ہوجاتی ہے اور حالات ایک ہی سمت میں بڑھتے ہیں نیز ان میں تبدیلی نہیں آتی۔ 
آمریت منظم بھی ہوسکتی ہے جس کی کئی مثالیں دُنیا کے مختلف ملکوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں بالخصوص ہمارے پڑوسی ملکوں میں۔ مگر اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جس ملک میں فرد کی آزادی اور اختیارات کو محدود کیا جاتا ہو وہاں جمہوریت پھلتی پھولتی نہیں ہے چنانچہ ایسی کوئی مثال ہمارے سامنے نہیں ہے جس میں کسی ملک کی جمہوریت آزادی اور اختیارات کے محدود کئے جانے کے باوجود پھلی پھولی ہو۔ جمہوریت تبھی استحکام پاتی ہے اور اسے تبھی فروغ حاصل ہوتا ہے جب فرد کی آزادی اور اُس کا اختیار زیادہ بامعنی طریقے سے نشوونما پائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب فرد آزاد اور با اختیار ہوتا ہے تو وہ ملک اور سماج کیلئے زیادہ کارگر اور نافع ہوتا ہے، زیادہ تخلیقی انداز اپناتا ہے اور اس کی اہلیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ 
جو بھی راستہ بامعنی جمہوریت کے مذکورہ راستے سے ہٹتا ہے وہ کامیابی کی طرف نہیں جاتا۔ کوئی راستہ کامیابی کی طرف نہ جائے پھر بھی اُسے کامیابی سے تعبیر کیا جائے تو بات دوسری ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK