شمیم طارق ،قاضی مشتاق احمد،سلیم شہزاد، نذیر فتح پوری، عظیم راہی اور ایم مبین کے بغیر مہاراشٹر میں اردو زبان و ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوگی۔
مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے اردو زبان وادب کی نمایاںخدمات انجام دینے والی شخصیات کی حوصلہ افزا ئی کیلئے ہر سال قومی و ریاستی سطح کے انعامات کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اکیڈمی نے ۲۰۲۱ء ، ۲۰۲۲ء اور ۲۰۲۳ء کے اعزازات کا اعلان کیا۔ ان ایوارڈ میں مرزا غالب ایوارڈ (قومی سطح: ایک لاکھ روپے، شال اور سند ) اور ولی دکنی ایوارڈ (ریاستی سطح: ۵۱؍ ہزار روپے ، شال اور سند ) انتہائی اہم ہوتے ہیں جو طویل عرصے تک اردو زبان و ادب کے دشت کی سیاحی کرنے والے سینئر و ممتاز شعراء و ادباء کودئیے جاتے ہیں۔ مذکورہ بالا تین برسوں کے لئے یہ ایوارڈس شمیم طارق (مرزاغالب ایوارڈ )، عظیم راہی (ولی دکنی ایوارڈ)، قاضی مشتاق۱ حمد(مرزا غالب ایوارڈ)، نذیر فتح پوری (ولی دکنی ایوارڈ )، سلیم شہزاد(مرزا غالب ایوارڈ ) اور ایم مبین (ولی دکنی ایوارڈ) کوتفویض کئے گئے ۔چونکہ اردو اکیڈمی کے ۵۰؍ سال یعنی گولڈن جبلی مکمل ہوئی ہے اس لئے گزشتہ دنوں ایوارڈس کی تقریب ممبئی کے شاندار اسٹیڈیم (ڈوم)میں منعقد کی گئی جہاں عام طور پر بین الاقوامی مقابلے اور تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ اس شاندار سہ روزہ ادبی و ثقافتی جشن میں ان ادبی شخصیات کو اعزاز سے سرفراز کیا گیا ۔
شمیم طارق
ملک کے معروف محقق و نقاد ، صحافی اور شاعر شمیم طارق کا وطن بنارس ہے مگر مستقل سکونت ممبئی میں ہے۔ تقریباً ۲؍ درجن کتابوں کےمصنف ہیں جن میں سے کئی کتابیںعالمی شہرت یافتہ ہیں اور متعدد کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اُن کی تصنیف ’شرفِ محنت و کفالت‘‘ انہی کتابوں میں سے ایک ہے جس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے ہیں۔ انہوں نے امیر خسرو، ٹیگور، غالب، اقبال اور کالیداس گپتا رضا پر قابل قدر تحقیقی کام کئے ہیں۔ ساہتیہ اکیڈمی دہلی سے بھی ایوارڈ یافتہ ہیں اور اب مہاراشٹر اردو اکیڈمی کے بھی سب سے بڑے اعزاز سے سرفراز کئے گئے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف ادبی تنظیموں اور انجمنوں نے بھی ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ شمیم طارق انقلاب کیلئے سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر کالم تحریر کرتے ہیں۔
قاضی مشتاق احمد
قاضی مشتاق احمد کا ادبی سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے جس کے دوران انہوں نے ۵۰؍ سے زائد ناول، ایک ہزار کہانیاں و مضامین اور متعدد مقبول ڈرامے تحریر کئے ہیں۔ ادب کے میدان میں ان کی خدمات کو مختلف ریاستی اکیڈمیوںاور پُونے مہانگر پالیکا نے بھی سراہا ہے۔ان کی پراثر کہانیاں اور منفرد اسلوبِ بیان نے نہ صرف قارئین کی نسلوں کو متاثر کیا ہے بلکہ ان کے ادبی کام پر تحقیقی مطالعے بھی کئے گئے ہیں ۔ قاضی مشتاق ہمہ جہت ادیب ہیں جن کے افسانوں کے ساتھ ساتھ ناول اور ڈرامے بھی مقبول ہوئے ہیں۔قاضی مشتاق بنیادی طور پر علاقہ خاندیش کے مردم خیز ضلع جلگائوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن مستقل طور پر پونے میں مقیم ہیں۔
سلیم شہزاد
سلیم شہزاد دور حاضر کے ممتاز ناقد، محقق، شاعر وادیب اور ماہرِ لسانیات ہیں۔ انہوں نےمالیگاؤں میں تعلیم حاصل کی اور درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ اردو اور انگریزی ادب کی تمام اصناف پر ان کی گہری نظر ہے۔ تنقیدی کتابوں کے علاوہ انہوں نے لغات اور اردو قواعد پر بھی نہایت پرمغز کتابیں لکھی ہیں۔ فرہنگ ادبیات، دعا پر منتشر، جیم سے جملے تک، ویر گاتھا، تزکیہ، کشفیہ، دشتِ آدم، فرہنگ لفظیات غالب ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ ان کا شمار جدید شعراء میں ہوتا ہے۔ انہوں نے آزاد نظم میں متعدد تجربات کئے ہیں اور ان کے حوالے سے بھی ان کی شناخت ہے۔
نذیر فتح پوری
نذیر فتح پوری کا نام اردو دنیا کے لئے محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ برصغیر کے ادباء میں عزت اور احترام کے ساتھ ان کا شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے فکر و فن پر انہیں کئی بین الاقوامی، قومی، ریاستی اور علاقائی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ ان کا تخلیقی سفر۱۹۷۰ء سے شروع ہو کر اب تک جاری ہے۔ مختلف موضوعات پر ان کی ۱۱۰؍ سے زائدکتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔گزشتہ ۴۴؍ برس سے سہ ماہی رسالہ’’ اسباق‘‘ کی ادارت کی ذمہ داری سنبھال رہے ہیں۔ یہ رسالہ ہی اردو دنیا میں ان کا نام زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔ افسانہ ، ناول ، شاعری اور دیگر اصناف میں ممتاز حیثیت حاصل کرنے کے بعد اب خطوط نگاری کی جانب متوجہ ہوئے ہیں۔
عظیم راہی
مشہور افسانہ نگار اور افسانچہ نگار ڈاکٹر عظیم راہی کی اب تک ۱۵؍کتابیں شائع ہوکر قبول عام کا درجہ پاچکی ہیں۔ انہوں نے افسانوں میں جتنا بہترین کام کیا ہے اس سے بڑھ کرعظیم خدمت انہوںنے افسانچوں کے میدان میں کی ہے۔اردو افسانچہ نگاری پر ان کے تحقیقی و تنقیدی کام کو اولیت حاصل ہے ۔ وہ ملک میں ان گنے چنے ادیبوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے افسانچوں کو نہ صرف قبولیت بخشی بلکہ اس صنف کو مقبول بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ’اگلی صدی کے موڑپر‘ ، اور ’اپنے دائرے کا آدمی‘ کو اعزازات سے نوازا جاچکا ہے۔ ان کی پانچ کتابیں زیراشاعت ہیں اور آٹھ زیرترتیب ہیں۔ ان میں افسانہ نگاری، افسانچہ نگاری، خاکہ نگاری، تبصرے اور مضامین پر کتابیں شامل ہیں۔
ایم مبین
۸۰ء کی دہائی کے بعد منظر عام پر آنے والے افسانہ نگاروں میں ایم مبین کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ حساس سماجی موضوعات پر کہانیاں لکھنے کیلئے جانے جاتے ہیں۔ ان کی متعدد کتابوں کو ملک کی مختلف اکیڈمیوں اور انجمنوں کی جانب سے اعزازات سے نوازا جاچکا ہے۔ تقریباً ۱۰۰؍ کتابیں تخلیق کرچکے ہیں جن میں افسانوں کے علاوہ ادب اطفال سے متعلق کتابیں بھی ہیں۔ ان کی مشہور کتابوں میں ٹوٹی چھت کا مکان ، لمس اورانگوٹھا (ناول) شامل ہیں جبکہ ادب اطفال کے ذیل میں لکھی گئی ان کی کہانیاں بچوں میں کافی مقبول ہیں۔