ناقدین کا کہنا ہے کہ ”کونسل کو اردو زبان اور ادب کو فروغ دینے کیلئے قائم کیا گیا تھا، نہ کہ تقسیم کرنے والی سیاسی شخصیات کی حمایت کرنے کیلئے۔“
EPAPER
Updated: October 14, 2025, 8:02 PM IST | New Delhi
ناقدین کا کہنا ہے کہ ”کونسل کو اردو زبان اور ادب کو فروغ دینے کیلئے قائم کیا گیا تھا، نہ کہ تقسیم کرنے والی سیاسی شخصیات کی حمایت کرنے کیلئے۔“
قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان (این سی پی یو ایل) کی جانب سے ہندوتوا نظریاتی لیڈر وِنایک دامودر ساورکر کی مدح سرائی پر مبنی ایک کتاب کے اردو ترجمہ کی اشاعت نے مؤرخین اور ماہرین تعلیم کے درمیان شدید غم و غصہ کو جنم دیا ہے۔ ناقدین نے حکومت پر ہندوتوا کے نظریاتی پروپیگنڈا کو فروغ دینے کیلئے ریاستی اداروں کا استعمال کرنے کا الزام لگایا۔
مکتوب میڈیا کے مطابق، اُدے ماہُرکر اور چرایو پنڈت کی ۲۰۲۱ء میں شائع ہوئی کتاب ”Veer Savarkar: The Man Who Could Have Prevented Partition“ (ویر ساورکر: وہ آدمی جو تقسیم ہند کو روک سکتا تھا) کا ”ویر ساورکر اور تقسیمِ ہند کا المیہ“ کے عنوان سے اردو ترجمہ این سی پی یو ایل نے شائع کیا، جس کا باضابطہ اجراء جمعرات کو نئی دہلی میں پرائم منسٹر میوزیم میں کیا گیا۔ اس تقریب میں مرکزی وزیر قانون، ارجن رام میگھوال نے ساورکر کی تعریف کے پل باندھتے ہوئے انہیں ”قومی اتحاد کیلئے انتہائی پرعزم اور دور اندیش لیڈر“ قرار دیا۔ میگھوال نے دعویٰ کیا کہ اگر ساورکر کے نظریات پر عمل کیا گیا ہوتا تو ”ہندوستان کو تقسیم سے بچایا جا سکتا تھا۔“
اس کتاب کا انگریزی سے اردو ترجمہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کے وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف نے کیا ہے، جنہوں نے کتاب کو ساورکر کے ورثے کا ”معقول اور ثبوت پر مبنی جائزہ“ قرار دیا۔ تاہم، پروفیسر آصف کی شمولیت کے بعد حکومت کے حمایت یافتہ ثقافتی پروگراموں میں ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ماہرینِ تعلیم نے خبردار کیا کہ اس طرح کی شمولیت سے تعلیم اور سیاست کے درمیان کی لکیر دھندلی ہو سکتی ہے۔
مؤرخین کی حکومت پر شدید تنقید
مؤرخین نے ساورکر کو ایک قوم پرست ہیرو کے طور پر پیش کئے جانے پر سخت اعتراض کیا۔ انڈین ہسٹری کانگریس کے سیکریٹری اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فیکلٹی رکن، پروفیسر ندیم رضوی نے اس پیش رفت کو ”چونکا دینے والا“ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ”مسلم لیگ کے دو قومی نظریے کو اپنائے سے پہلے سے ہی، ساورکر اس نظریے کی توثیق کرنے والوں میں شامل تھے۔“ انہوں نے ۱۹۳۷ء میں ہندو مہاسبھا کے ایک پروگرام میں کی گئی ساورکر کی تقریر کا حوالہ دیا جس میں واضح طور پر ہندو قوم پرست لیڈر نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو الگ الگ قومیں قرار دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: مسلم آبادی سے متعلق امیت شاہ کے بیان پر ہنگامہ، نفرت کی آگ بھڑکانے کا الزام
رضوی نے مزید کہا کہ ساورکر کی قیادت میں، ہندومہاسبھا نے ’بھارت چھوڑو تحریک‘ کے دوران صوبائی حکومتوں میں مسلم لیگ کے ساتھ بھی اتحاد کیا تھا اور ساورکر نے ۱۹۴۷ء میں ایک سیکولر انڈین یونین کی مخالفت کرتے ہوئے تریوانکور کی آزادی کی کوشش کی حمایت کی تھی۔ رضوی نے زور دیا کہ ”ساورکر بقائے باہمی پر نہیں، بلکہ صرف ہندو غلبے پر یقین رکھنے والی شخصیت تھی۔“
این سی پی یو ایل کے ایک سابق عہدیدار نے بھی اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ”کونسل کو اردو زبان اور ادب کو فروغ دینے کیلئے قائم کیا گیا تھا، نہ کہ تقسیم کرنے والی سیاسی شخصیات کی حمایت کرنے کیلئے۔“ ناقدین کا کہنا ہے کہ ساورکر کی تعریف کرنے والی ایک کتاب کا اردو میں ترجمہ کرنا، جو تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم فکری روایت کی زبان ہے، ثقافتی بیانیے کو نئی شکل دینے کی ایک جان بوجھ کر کی گئی سیاسی چال ہے۔