Inquilab Logo

ذکر اُس ناول کا جو ۲؍ وکلاء کے تجربات کا آئینہ ہے

Updated: September 03, 2023, 12:51 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

یہ ناول دو معروف وکلاء کرت پان والا اور روشن پان والا کی تصنیف ہے جو سورت میں راہل گاندھی کے وکیل ہیں۔ اتفاق سے یہی صاحبان، مضمون نگار کے بھی وکیل ہیں۔

The criminal justice system covers the rights of the accused.Photo. INN
کریمنل جسٹس سسٹم ملزم کے حقوق کا احاطہ کرتا ہے۔ تصویر:آئی این این

اس ماہ میرا ایک ناول منظر عام پر آئے گا۔ اس کے ساتھ ہی ایک تقریب منعقد ہونی ہے جس کا عنوان ہے ’’مادی دُنیا کو ساتھ لینے میں  افسانہ نویسی کا کردار‘‘۔ سورت میں  جن وکلاء نے راہل گاندھی کے مقدمے کی پیروی کی تھی، اُن کی بھی فکشن کی ایک کتاب ’’تھیوری آف سسپیشن‘‘ (شک و شبہ کا فلسفہ) حال ہی میں  منظر عام پر آئی ہے۔ اس کے مصنف کرت پان والا اور روشن پان والا ہیں  جو راہل گاندھی جیسے ہی ایک مقدمہ میں  میرے وکیل بھی ہیں ۔ یہ مقدمہ سورت کی عدالت میں  بی جے پی کے اُسی رکن اسمبلی نے دائر کیا ہے جس نے راہل گاندھی کے خلاف مقدمہ کیا تھا۔ بہرحال پان والا صاحبان نے اس کتاب میں  اپنے تجربات کا احاطہ کیا ہے۔ کتاب کا لب لباب قتل کے ایک سے زائد واقعات کی گتھی سلجھانے سے متعلق ہے۔ مصنفین کے مطابق اُنہوں  نے ایسے واقعات کو سمجھنے اور عدالت میں  بحیثیت وکیل پیش ہونے کے اپنے تجربات سے کتاب کے خدوخال مرتب کئے ہیں ۔ 
 وکلاء کا یہ ناول عام ڈھرے سے ہٹ کر ہے۔ ہندوستان میں  چند ہی وکلاء یا دیگر پروفیشنل ایسے ہوتے ہیں  جو کتاب تصنیف کرتے ہیں ۔ اس سے بھی بہت کم تعداد اُن لوگوں  کی ہوتی ہے جو فکشن (افسانوی ادب) لکھتے ہیں  اور اس کیلئے اپنے پیشہ جاتی تجربات سے استفادہ کرتے ہیں ۔ میرے پاس کتابوں  کا جو ذخیرہ ہے اُس میں  دو خود نوشتیں  ہیں  جو دو سابق چیف جسٹس صاحبان کی تصنیف کردہ ہیں ۔ ان میں  سے ایک ہیں  ایم سی چھاگلہ جن کی کتاب کا نام ہے ’’دسمبر میں  گلاب‘‘ (روزیز اِن ڈسمبر) اور دوسرے سابق چیف جسٹس ایم سی سیتلواد ہیں  جن کی یادداشتیں  کتابی شکل میں  شائع ہوئی تھیں ۔ مگر اِن دونوں  کتابوں  میں  قانونی پیشے سے متعلق باتیں  ہی ہیں ، اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔
  اس پس منظر میں  ہمیں  ان دو وکلاء (کرت پان والا اور روشن پان والا) کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اُنہوں  نے قتل کی وارداتوں  کے راز کو سمجھاتے ہوئے اپنے قارئین کو تفصیل فراہم کی کہ پولیس کس طرح کام کرتی ہے، عدلیہ کے تئیں  ریاست کا کیا پروٹوکول ہوتا ہے، وکلاء کا طریق کار کیا ہوتا ہے اور ایسے کیسیز میں  تفتیش کو کیسے آگے بڑھایا جاتا ہے۔ انہی باتوں  کو سمجھنے کیلئے اس کتاب کا مطالعہ کیا جاناچاہئے یہ میری مخلصانہ رائے ہے۔ ویسے یہ بات برسبیل تذکرہ آگئی ورنہ آج اس کالم میں  قارئین کو اِن دو وکلاء کی پیشہ جاتی زندگی کے ایک ایسے پہلو سے واقف کرانا ہے جس کا تعلق فلسفہ ٔ قانونیات (جیورِسپروڈنس) اور جدت پسندی سے ہے۔انہوں  نے ناول کی کہانی ایک ایسے جج کی شخصیت کے اطراف بُنی ہے جو عام قوانین (کامن لاء) کو مسترد کرکے تمام مقدمات کو اپنی سوچ سمجھ کی بنیاد پر فیصل کرتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر اس جج کے خیال میں  شبہ جرم ہے اور جرم کی سزا لازم ہے جو جلد سے جلد دی جانی چاہئے۔
  آج ہمارے ملک میں  کم و بیش اسی طریق کار پر عمل ہورہا ہے۔ نظام ِ تعزیر (کریمنل جسٹس سسٹم) ملزم کے حقوق کا احاطہ کرتا ہے کیونکہ کریمنل کیس میں  طاقت حکومت کے پاس ہوتی ہے۔ حکومت ہی پولیس کی آقا ہوتی ہے، ججوں  کی تقرری اور تبادلہ کا اختیار بھی اسی کے پاس ہوتا ہے چنانچہ استغاثہ وہی کہتا ہے جو حکومت چاہتی ہے اور اسی کے ذریعہ قید کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔ حکومت کے اختیارات کے مقابلے میں  ملزم کے حقوق معمولی ہوتے ہیں  اور یہی وجہ ہے کہ جمہوری ملکوں  میں  ملزم کو زیادہ حقوق تفویض کئے جاتے ہیں  تاکہ وہ حکومت کی طاقت اور اختیارات کے سامنے ٹھہر سکے، اپنی بات کہہ سکے، ناکردہ گناہی بیان کرسکے اور اس طرح انصاف کو یقینی بنایا جاسکے۔ یہ بات بیشتر لوگوں  کو تعجب خیز معلوم ہوگی کیونکہ عوام کی اکثریت چاہتی ہے کہ جو ’’بدمعاش‘‘ ہے اُسے سزا ملے۔ یہی خیال  حکومت کے عملے میں  شامل لوگوں  کا ہوتا ہے۔ انتظامیہ میں  اصلاحات کے کمیشن نے ۲۰۰۷ء میں  اپنی پانچویں  رپورٹ پیش کی تھی جس کے آغاز میں  ڈاکٹر عبدالکلام کا یہ قول پڑھنے کو ملتا ہے:
 ’’اگر اصل ملزموں  کو کئی سال تک سزا نہ ملے محض اس لئے کہ عدالتی سماعتوں  میں  تاخیر ہوئی، تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ لوگ بھی جرم کی طرف مائل ہوجائینگے جو بصورت دیگر اس سے باز رہیں  گے۔‘‘ یہ قول اُن لوگوں  کیلئے خاصا اہم ہے جو اِس مفروضے کے تحت سزائے موت تک کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں  کہ اصل مجرموں  کے خلاف ریاستی تشدد منصفانہ سماج کی تشکیل میں  معاون ہوتا ہے۔‘‘
  آزاد ہندوستان میں  قانون کو سخت بنایا گیا تاکہ حکومت کے پاس زیادہ اختیارات ہوں ۔ جلیان والا باغ کے واقعہ کے بعد انگریز حکومت نے زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے پاس رکھے تھے تاکہ جو بے گناہ گرفتار کئے جاتے تھے اُنہیں  مقدمہ چلائے بغیر زیادہ عرصہ تک جیل میں  رکھا جائے۔ کیا سخت قوانین کی وجہ سے منصفانہ سماج وجود میں  آیا؟ مرکزی حکومت کے ذریعہ فراہم کردہ اعداد و شمار سے اس سوال کا جواب نفی میں  برآمد ہوتا ہے۔ آئی پی سی کے تحت ۱۹۶۱ء میں  ۶۴؍ فیصد لوگوں  کو سزا ہوئی تھی، ۲۰۰۵ء میں  یہ تعداد ۴۲؍ فیصد ہوگئی۔ ۲۰۱۷ء میں  نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی فراہم کردہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ ملک میں  قتل کے۴۳؍ فیصد ملزموں  کو، عصمت دری کے ۳۲؍ فیصد ملزموں  کو جبکہ اغواء کے  ۲۶؍ فیصد ملزموں  کو سزا ہوئی، وغیرہ۔
 جن لوگوں  کو بری کردیا گیا اُن کی کہانی بھی نظر انداز نہیں  کی جاسکتی۔ ہمارا کریمنل لاء اتنا طاقتور ہے کہ لوگوں  کی زندگیاں  برباد کرسکتا ہے اسلئے اس کے استعمال میں  بہت احتیاط لازمی ہے۔ یہ خیال اُس وقت زیادہ شدت کے ساتھ اُبھرا جب مَیں  نے پان والا صاحبان کی کتاب کا مطالعہ کیا جو ایک جج اور اُس کی فیملی سے متعلق ہے۔ مثال کے طور پر تشدد نہ ہونے کے باوجود جب کسی کی گرفتاری کا معاملہ ہوتا ہے یا غداری (سڈیشن) جیسے سخت قانون کا اطلاق کیا جاتا ہے تب نچلی عدالتوں  کے کتنے جج سابقہ فیصلوں  کو نظر انداز اور سپریم کورٹ کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ 
 مذکورہ ناول یہی نکتہ خاص طور پر اُجاگر کرتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK