فرض حج کے بعد جتنے حج بھی کئے جائیں گے وہ نفلی حج ہوں گے حج اِفراد میں کوئی دم اور قربانی نہیں ہے صاحب نصاب کے لئے قربانی کرنا واجب ہے
EPAPER
Updated: June 23, 2023, 10:33 AM IST | Mufti Azizur Rahman Fathpuri | Mumbai
فرض حج کے بعد جتنے حج بھی کئے جائیں گے وہ نفلی حج ہوں گے حج اِفراد میں کوئی دم اور قربانی نہیں ہے صاحب نصاب کے لئے قربانی کرنا واجب ہے
ایک سے زائد بار حج
بہت سے لوگ جنہیں اللہ نے توفیق دی ہے، ایک سے زیادہ مرتبہ فریضۂ حج ادا کرچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حج تو زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے اس صورت میں بعد والے جو حج کئے گئے ان سے فرض ادا ہوگا یا نفل؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی دوسری انفرادی اور ملی ّ ضرورتیں بھی ہیں تو بہتر کیا ہے ان ضروریات میں خرچ کرنا یا نفلی حج کرنا؟ جو لوگ پہلے حج کرچکے ہیں ان میں کچھ حضرات دوسروں کی طرف سے حج بدل کی نیت کرلیں تو مقدم کون ہوگا یعنی پہلے کس کا حج ِبدل کریں ؟ ع۔ ش۔ ممبئی
باسمہ تعالیٰ ھوالموفق: حج زندگی میں ایک ہی مرتبہ فرض ہے چنانچہ ایک کے بعد جتنے حج بھی کئے جائیںگے وہ نفلی حج ہوں گے۔ رہا یہ سوال کہ نفلی حج افضل ہے یا ملی اور انفرادی ضرورتوں میں خرچ کرنا زیادہ بہتر ہے، تو علماء نے اس پر تفصیلی بحث کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ضرورت کو دیکھاجائیگا۔ اگر ملت کو درپیش ضروریات کا تقاضہ ہو تو نفلی حج پر ان کو مقدم رکھا جائیگا ورنہ حج بہر حال کار ثواب ہے۔ نفلی حج میں حج بدل کی نیت کرلینے میں حرج نہیں۔ اس سلسلے میں پہلے یہ تحقیق کرلیں کہ آباء و اجداد میں اگر کوئی ایسا تھا جس پر حج فرض تھا مگر وہ اپنا فرض ادا نہ کرسکاتھا تو حج بدل کے لئے وہ مقدم ہوگا لیکن اگر کوئی ایسا نہیں کہ اپنا فرض حج نہ کیا ہو یا جو تھے ان پر حج فرض ہی نہ تھا اس صورت میں جس کی طرف سے چاہیں حج بدل کا احرام باندھ لیں۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ احرام تو اپنے حج کا باندھیں پھر دیگر تمام اعزاء کو ثواب میں شریک کرلیں اس میں سب ثواب میں شریک ہوں گے۔ میری رائے میں یہ زیادہ بہتر صورت ہوگی۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
حج بدل اور قربانی
ایک شخص دوسرے کی طرف سے حج بدل کی غرض سے حج افراد کا احرام باندھ کرگیاہے۔ خود وہ حج کی استطاعت نہیں رکھتا۔ اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ کیا مکہ پہنچ جانے کی وجہ سے اس پر اپنا حج فرض ہوجائےگا جبکہ خود غریب اور غیر مستطیع ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا حج افراد میں بھی عمرہ کرنا پڑےگا، اگر ایسا نہ ہو تو طواف کی کیا صورت ہوگی؟ تیسرے یہ کہ کیا افراد میں حج کی قربانی واجب ہوگی اور اگر واجب ہوگی تویہ قربانی بھیجنے والے کے مال سے کرےگا یا خود اپنے مال سے؟ محمد عظیم، ممبئی
باسمہ تعالیٰ ۔ھوالموفق:حج افراد میں میقات سے اِفراد کی نیت کے بعد حج کے تمام ارکان اسی احرام کے ساتھ ادا کئے جاتے ہیں۔ یہ احرام حج کے بعد ہی کھلتا ہے لہٰذا جب یہ شخص افراد کے احرام میں گیاہے تو اس سفر کی وجہ سے اپنا حج اس پر فرض نہ ہوگا۔ عمرہ قران اور تمتع کے ساتھ خاص ہے، یا پھر کوئی صرف عمرہ کے لئے جائے۔ اِفراد میں عمرہ نہیں البتہ طواف قدوم کیاجاتا ہے پھر اگر سعی کرلی تو طواف زیارت کے بعد سعی کی ضرورت نہیں رہتی، یہ طواف قدوم والی سعی طواف زیارت میں سعی کابدل بن جاتی ہے۔ دم شکر یعنی حج کی قربانی قران اور تمتع کے ساتھ خاص ہے، افراد میں کوئی دم اور قربانی نہیں لہٰذا نہ بھیجنے والے کے مال سے کوئی قربانی کی جائیگی نہ اس کے اپنے مال سے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
صاحب نصاب کی قربانی ضروری ہے
زید صاحب نصاب ہے، مگر گھر کے دوسرے لوگوں پر قربانی واجب نہیں، زید کی اتنی حیثیت نہیں کہ بچوں کی طرف سے یا والدین کی طرف سے بھی نفل قربانی کراسکے۔ عام طور سے دیکھنے میں آتا ہے کہ اس طرح کی حیثیت رکھنے والے بعض لوگ باری باری کبھی اپنے نام، کبھی والد کے نام اور کبھی کسی بچے کے نام سے قربانی کراتے ہیں تو کیا یہ طریقہ کار صحیح ہے؟ رجب علی، ہری دوار
باسمہ تعالیٰ ۔ھوالموفق:صاحب نصاب جس پر قربانی واجب ہے اسے بہرصورت اپنی قربانی ضروری ہے۔ گھر میں اگر ایک ہی شخص صاحب نصاب ہے تو پہلے اسے اپنی طرف سے قربانی کرنی چاہئے۔ یہ طریقہ کہ اپنی قربانی کے بجائے باری باری گھر کے دوسرے افراد کے نام کراتارہے شرعاً درست نہیں۔ جس پر واجب ہے پہلے اسے اپنی طرف سے قربانی کرنا چاہئے، پھر اللہ توفیق دے تو دوسروں کی طرف سے بھی کرادے۔ اتنی حیثیت نہیں تو کوئی ضرورت بھی نہیں کہ دوسرے کے نام سے بھی قربانی کرائے۔ جو لوگ صاحب نصاب نہیں ہیں جب شریعت ان سے قربانی کا مطالبہ نہیں کررہی تو اس تکلف کی چنداں ضرورت بھی نہیں۔ آرزو انسانی فطرت ہے لیکن جنہیںشریعت نے مکلف نہیں بنایا ان کی آرزو کو رائیگاں نہیں جائے دیا گیا، ان کی جائز آرزو اور تمناؤں کا اجر بھی ملتا ہے اور عجب نہیں کہ من جانب اللہ انہیں ان کی آرزو کے مطابق قربانی کا پورا پورا ثواب مل جائے ۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
قربانی کا جانور گم ہو جائے یا مر جائے
کیا قربانی کا جانور خریدے جانے کی صورت میں وہ جانور قربانی کے لئے متعین ہوجاتا ہے نیز اسے بدلنے یا بیچ کر دوسرا لینے کا اختیار رہتا ہے یا نہیں ،مرنے یا گم ہونے کی صورت میں کیا حکم ہے؟ کیا غریب اور امیر شخص کا حکم ان صورتوں میں ایک ہی ہے یا الگ الگ؟ براہ کرم تفصیلی جواب دیں۔ قاسم علی، پال گھر
باسمہ تعالیٰ ۔ ھوالموفق: مالدار جو شرعاً صاحب نصاب ہے اس پر ہرسال اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔ اس کیلئے قربانی کا وجوب جانور کے خر یدنے نہ خریدنے پر موقوف نہیں لہٰذا اگر اس کا خریدا ہوا جانور مرگیا یاعیب دار نکل آیا یا گم ہو گیا تو اس کیلئے ضروری ہے کہ دوسرا جانور خریدکر یا بڑے جانور میں حصہ لے کر قربانی کرے۔ خریدنے کے بعد اسے جانور تبدیل کرنے کا بھی اختیار ہے، لیکن اگر پہلے کی قیمت زیادہ تھی تو علماء نے لکھاہے کہ زائد رقم کو صدقہ کردے یہ مستحب ہے۔ غریب جو صاحب نصاب نہیں، شریعت نے اس پر قربانی واجب نہیں کی البتہ اگر وہ قربانی کے دنوں میں قربا نی کی نیت سے جانور خریدے تو عرف شرع کی رو سے یہ سمجھا جائے گا کہ اس نے جانور خریدکر اس کی قربانی اپنے اوپر لازم کرلی ہے اس لئے غریب کیلئے ضروری ہے کہ اسی جانور کی قربانی کرے، شریعت اس کے لئے اسی جانور کی قربانی ضروری قرار دیتی ہے۔
اگر جانور مرجائے تو غریب کے واسطے دوسرا خریدنا ضروری نہیں اس کو نیت کا ثواب مل جائیگا، عیب دار نکل آئے تو غریب کے لئے یہ رخصت ہے کہ عیب دار ہی کی قربانی کردے، گم ہو جانے کی صورت میں بھی اس کو نیت کے مطابق ثواب مل جائیگا ،دوسراخرید کر اس کی قربانی کرنے کی غریب کو کوئی ضرورت نہیں۔ مسئلہ اس صورت میں پیدا ہوتا ہے جب وہ دوسرا بھی خرید لے۔ ایام قربانی میں دوسرا خریدنے سے اس کی قربانی بھی غریب کے لئے ضروری ہوجائےگی جبکہ شریعت کا اس سے دوسرے جانور کا کوئی مطالبہ ہی نہیں تھا۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
حاجی کی طرف سے قربانی
حاجی حرم میں جو قربانی کرتے ہیں کیا بقرعید کی قربانی بھی اس سے ادا ہوجاتی ہے یا وہ الگ سے کرنی پڑےگی؟ اگر الگ سے کرنی پڑےگی تو بقرعید والی قربانی بھی وہیں کرانی ہوگی یا اسے اجازت ہے اور وہ وطن میں بھی کرا سکتاہے ؟ عبد الجبار،نیو ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق:قران اور تمتع کے احرام میں حاجی پر بطور شکر( کہ اللہ نے ایک ساتھ عمرہ او ر حج کی توفیق دی) ایک دم واجب ہوتاہے جسے ہمارے یہاں کے لوگ حج کی قربانی بھی کہتے ہیں۔ اس کا نہ بقرعید کی قربانی سے کوئی تعلق ہے نہ ہی یہی اس کا بدل بنےگی۔ حاجی مالدار ہے تو اس پر بقرعید کی قربانی بھی واجب ہوگی لیکن یہ ضروری نہیں کہ حرم ہی میں یہ قربانی بھی کی جائے بلکہ اپنی سہولت کے مطابق وطن میں یا دوسری جگہ جہاں سہولت ہو وہاں کراسکتاہے ۔واللہ اعلم وعلمہ اُتم