زکوٰۃ کوئی مالیاتی ٹیکس نہیں ہے جس کو امیروں سے وصول کرکے فقیروں پر تقسیم کیا جاتا ہے، بلکہ یہ جہانِ اَخلاق میں فرد کی تطہیر اور تزکیے کا وسیلہ بھی ہے۔
             
            اَخلاق اِسلام کے شعبوں میں سے ایک شعبہ نہیں، بلکہ اسلام مکمل طور پر ایک اخلاقی پیغام ہے۔ محققین عموماً پیغامِ اسلام کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں : (۱) عقائد (۲) عبادات (۳) معاملات اور (۴) اَخلاق۔ اس تقسیم میں اَخلاق کو آخری نمبر پر رکھنے سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے بھی اسے آخری چیز کے طور پر ہی بیان کیا ہے اور اس کی حیثیت دیگر شعبوں جیسی نہیں ہے۔ 
قرآن و سنت کی روشنی میں جو بھی اسلام پر غور و فکر کرے، اس کی روح اور نصوص پر نظر رکھتا ہو، اور اس کے الفاظ اور مقاصد کو سمجھتا ہو، اُس پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام اپنے جوہر اور اصلیت میں ایک اخلاقی پیغام ہے۔ اسلام لفظِ اخلاقیت کے تمام معانی اور مفاہیم کا حامل ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اخلاقیت اسلام کی عمومی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے۔ 
اِسلام صرف اس لئے اخلاقی پیغام نہیں ہے کہ اس نے فضائل کی ترغیب پر بہت زور دیا ہے اور رذائل سے بچنے کا حکم بھی اسی شدت کے ساتھ دیا ہے۔ اور ان دونوں معاملات میں اسلام نہایت بلند سطح پر دکھائی دیتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام نے دنیا و آخرت میں جزا و سزا کا اہتمام بھی اعلیٰ سطح پر کیا ہے۔ 
اسلام کو سراسر اخلاقی پیغام ہونے کا یہ امتیاز اس لئے بھی حاصل نہیں ہے کہ اس میں اَخلاق پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثناء و توصیف کے لئے ان الفاظ سے ارفع اور بلیغ جملہ کوئی نہیں پایا جاتا: ’’اور بے شک آپؐ اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہیں۔ ‘‘ (القلم:۴) خود زبانِ رسالتؐ نے اپنی رسالت کے مقصد کا خلاصہ اسی چیز کو قرار دیا ہے: ’’بلاشبہ، مجھے اَخلاقِ کریمہ کی تکمیل کے لئے نبی بنایا گیا ہے‘‘۔ 
صرف دوچار معاملات میں اَخلاقیت اسلام کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ اسلام کے پورے ڈھانچے میں یہ خصوصیت خون کی طرح گردش کرتی ہے۔ یہ ہر جگہ ہے یعنی تمام اسلامی تعلیمات، حتیٰ کہ عقائد، عبادات، معاملات، سیاست و معیشت اور امن و جنگ کے شعبوں میں موجود ہے۔ 
اَخلاق اور اسلامی عقائد
اسلامی عقائد کی اساس توحید ہے اور اس کی ضد شرک ہے۔ اسلام توحید کو ایک اَخلاقی رنگ قرار دیتا ہے۔ وہ اُسے عدل و انصاف میں شمار کرتا ہے اور عدل و انصاف ایک اَخلاقی فضیلت اور خوبی ہے۔ اسی طرح اسلام نے شرک کو ظلم شمار کیا ہے اور ظلم ایک بداَخلاقی ہے۔ ’’حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑاظلم ہے۔ ‘‘ (لقمان:۱۳)
اسلام کا عقیدہ، یعنی ایمان جب کامل ہو جاتا ہے اور پھل دینے لگتا ہے تو وہ اَخلاقی فضائل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ قرآنی آیات اور احادیث ِ رسولؐ اس امر کی بہترین وضاحت کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صاحبِ ایمان لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے دور رہتے ہیں، زکوٰۃ کے طریقے پر عامِل ہوتے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سواے اپنی بیویوں کے اور اُن عورتوں کے جو اُن کی مِلکِ یمین میں ہوں کہ اُن پر محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں، البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں، اپنی امانتوں اپنے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں۔ ‘‘(المومنون:۱-۸)
ایک اور جگہ اس کی وضاحت اس طرح وارد ہوئی: ’’سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں، جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ ‘‘ (الانفال :۲-۴)
یہ بھی فرمایا گیا: ’’حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔ ‘‘(الحجرات :۱۵)۔ اسی طرح احادیث رسولؐ بھی اَخلاقی فضائل کو ایمان کے ساتھ مربوط کرتی ہیں۔ ان فضائل کو ایمان کے لوازم اور ثمرات قرار دیتی ہیں۔ رسول کریمؐ نے فرمایا:’’جو شخص اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو اُسے رشتے داریوں کو قائم رکھنا چاہئے، اور جو شخص اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسایے کو اذیت نہ دے، اور جو شخص اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کرے یا پھر خاموش رہے۔ ‘‘ دوسری حدیث ہے:’’ایمان کے ۶۹شعبے ہیں، سب سے اعلیٰ لا الٰہ الا اللہ ہے، اور سب سے کم تر کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے۔ ‘‘
اَخلاق اور اِسلامی عبادات
بڑی بڑی اسلامی عبادات واضح اَخلاقی اہداف اور مقاصد رکھتی ہیں۔ نماز مسلمان کی زندگی میں پہلی یومیہ عبادت ہے۔ یہ فرد کی ذاتی زندگی کی تشکیل اور دینی غیرت و حمیت کی تربیت کا شان دار فریضہ انجام دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ یقیناً نمازفحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ ‘‘ (العنکبوت:۴۵)
نماز مسلمان کے لئے اَخلاقی سہارا بھی ہے جس کے ذریعے وہ مشکلات و مصائب ِ زندگی کے مقابلے میں مدد حاصل کرتا ہے۔ فرمایا: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔ ‘‘(البقرہ:۱۵۳)
زکوٰۃ وہ عبادت ہے جسے قرآنِ کریم نے نماز کے ساتھ متصل (التوبہ:۱۰۳) بیان کیا ہے۔ یہ کوئی مالیاتی ٹیکس نہیں ہے جس کو امیروں سے وصول کرکے فقیروں پر تقسیم کیا جاتا ہے، بلکہ یہ جہانِ اَخلاق میں فرد کی تطہیر اور تزکیے کا وسیلہ بھی ہے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح یہ مال و دولت کی ترقی اور افزایش کا ذریعہ ہے۔ فرمایا: ’’اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو۔ ‘‘(التوبہ۹:۱۰۳)
اسلام میں روزے کا مقصد نفس کو شہواتِ نفسانی اور مرغوباتِ حیوانی کی تکمیل سے رُکنے کا ضابطہ سکھانا اور اس ضابطے کی عملی مشق کرانا ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ نفس کو تقویٰ کی خاصیت کیلئے تیار کرتا ہے۔ وہ تقویٰ جو اسلامی اَخلاق کا سنگم ہے، اسلامی عبادات کا نقطۂ اتصال اور احکامِ اسلامی کا مرکزی خیال ہے۔ فرمایا گیا:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ ‘‘(البقرہ:۱۸۳)حج کا مقصود اور مطلوب مسلمان کی روحانی و جسمانی تطہیر بھی ہے۔ اللہ کی عبادت کے لئے دنیا سے الگ تھلگ ہونا بھی۔ زندگی کی خوشنمائیوں اور رعنائیوں، کشمکشوں اور تصادمات سے اوپر اٹھ کر اللہ کی طرف متوجہ ہونا بھی۔ یہی وجہ ہے کہ حج کے اعمال شروع کرنے سے پہلے احرام پہننا فرض کیا گیا تاکہ بندہ ایک ایسی کیفیت میں داخل ہو جائے جس کی بنیاد اور اساس سادگی و انکساری، امن و سلامتی اور سنجیدگی و پاکیزگی ہے۔ نماز سے متعلق فرمایا گیا: ’’جس شخص کی نماز اُسے بے حیائی سے نہ روکے، اُس کی نماز بے مقصد ہے۔ ‘‘ تہجد گزار کے بارے میں آیا ہے: ’’کتنے تہجد گزار ایسے ہیں جن کو جاگنے کے سوا قیام سے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ‘‘
روزے کے بارے میں فرمایا:’’جو شخص جھوٹ اور جھوٹ پر مبنی فعل نہ چھوڑے، اللہ کو اُس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ‘‘
بعض لوگ عبادات کو محض خاص قسم کی تعبدی حرکات کی ادائیگی سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ نماز، روزہ، اور حج وغیرہ کے اعمال کی خاص شکلیں ہیں۔ افسوس ہے کہ عبادات سے متعلق عمومی تصور یہی پایا جاتا ہے، اور یہ تصور غلط ہے۔ اسلام میں عبادت پوری زندگی پر محیط ہے۔ پورا دین عبادت ہے۔ عبادات کے خاص طریقوں اور معروف ارکان کی ادائیگی کے ساتھ اَخلاقی قواعد اور نصیحتوں کا اہتمام اس سلسلے میں سرفہرست ہے۔ اور یہ سب کچھ تقربِ الٰہی کے حصول کی غرض سے کیا گیا ہے۔ 
جب ایک مسلمان سچ بولتا ہے، بھلائی کے کام کرتا ہے، وعدہ پورا کرتا ہے، عہد کو نباہتا ہے، امانت ادا کرتا ہے، عدل کے ساتھ فیصلے کرتا ہے، مقدمات کا تصفیہ انصاف سے کرتا ہے، ناپ تول میں پورا پورا دیتا ہے، نگاہیں نیچی رکھتا ہے، شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے، دوسروں کے جان، مال اور عزت و آبرو پر دست درازی سے باز رہتا ہے، والدین سے اچھا برتائو کرتا ہے، رشتے داریاں ٹوٹنے نہیں دیتا، ہمسایے سے حسن سلوک رکھتا ہے، اپنے مہمان کی عزت و توقیر اور خاطر تواضع کرتا ہے، کمزوروں پر ترس کھاتا ہے، مسکینوں کو کھانا کھلاتا ہے، یتیموں کو دھتکارتا نہیں، خیر کی دعوت عام کرتا ہے، معروف کی تلقین اور منکر کی ممانعت کا فریضہ انجام دیتا ہے، جابر حکمراں کے سامنے حق کہتا ہے، زندگی کی تلخیوں پر صبر اور آسانیوں پر شکر کرتا ہے… تو وہ یہ سب کچھ انجام دیتے ہوئے دراصل اپنے رب اللہ سبحانہ کی عبادت ہی کرتا ہے۔ وہ کتاب و سنت کے احکام کی تنفیذ اور تعمیل ہی تو کرتا ہے، اور اس تمام تر جدوجہد کے ذریعے وہ رب کی رضا اور خوش نودی چاہتا ہے۔ 
جو شخص بھی قرآنِ مجید کو غور سے پڑھے گا وہ اَخلاقی حدود کو ایمانی عقائد اور تعبدی شعائر کے پہلو بہ پہلو پائے گا، ان میں کہیں بھی کوئی دُوری اور جدائی نہیں دیکھے گا۔