• Sun, 26 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

دولت کمانے کو جرأت چاہئے، سنبھالنے کو صبر و عاجزی

Updated: October 26, 2025, 12:50 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai

مورگن ہاؤزل کی کتاب ’دی سائیکولوجی آف منی‘ کا جائزہ، اس میں انہوں نے بتایا ہے کہ مالی کامیابی کا تعلق ذہانت سے کم اور رویے سے زیادہ ہوتا ہے اور یہ کہ پیسہ کمانا ایک فن ہے، لیکن اسے سنبھالنا کردار کا امتحان ہے لہٰذا اکتسابِ مال، عقل کا نہیں بلکہ رویے کا کھیل ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

عالمی وبا کے بعد متوسط طبقے سے متعلق ہر شخص کی دلچسپی سرمایہ کاری میں بڑھی ہے۔ شیئر بازار کی حساسیت سے تو سبھی واقف ہوتے ہیں، لیکن کیا کسی نے تصور کیا تھا کہ سونے اور چاندی کی قیمتیں آسمان پھاڑ کر خلاء کی طرف چھلانگ لگائیں گی۔ دولتمند بننے کی خواہش کسے نہیں ؟ ہرشخص دعا کر رہا ہوتا ہے کہ اسے تھوڑی سی لفٹ کرادی جائے۔ درہم و دینارو ڈالر نہیں تو کم از کم روپے پیسوں کی کوئی قلت نہ ہونے پائے۔ گلابی کاغذ والے اخبار، بے شمارجریدے اور یوٹیوبر دولت کمانے کے نسخے دن رات فراہم کرتے ہیں۔ کیا دولت مند ہونا اتناآسان کام ہے؟ مارکیٹ، بینک، بچت اسکیموں کی جانکاری، ذہانت اور اسمارٹ سرمایہ کاری سےانسان دولت مند بنتاہے یا محض قسمت کے زور پر؟
کیا دولت صرف کاغذ کے چند ٹکڑے یا بینک کے اعداد و شمار کا نام ہے؟ یا کیا یہ ایک خیال، ایک رویّہ، ایک ذہنی کیفیت ہے؟ اس کے پیچھے کون سی انسانی نفسیات، خواہشات، خوف، اور امیدوں کا ایک گہرا سمندر چھپا ہوا ہے؟ مورگن ہاؤزل کی کتاب ’دی سائیکولوجی آف منی‘ یعنی پیسے کی نفسیات، انسان اور دولت کے پیچیدہ مگر دلچسپ تعلق کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش ہے۔ 
عقل کا نہیں، رویے کا معاملہ
ہاؤزل کے خیال میں مالی کامیابی کا تعلق ذہانت سے کم اور رویے سے زیادہ ہوتا ہے۔ دنیا میں بہت سے ذہین لوگ غربت میں گزر بسر کرتے ہیں اور کئی بظاہر عام سے لوگ غیر معمولی دولت حاصل کر لیتے ہیں۔ کیوں ؟ اسلئے کہ دولت کے ساتھ معاملہ کرنے میں انسانی جذبات سب سے بڑی قوت ہیں۔ خوف، لالچ، صبر، توقع اور حرص وہ جذبات ہیں جو سرمایہ کاری کے فیصلے اور زندگی کا مالی رخ طے کرتے ہیں۔ پیسہ کمانا بیشک ایک فن ہے، لیکن اسے سنبھالنا کردار کا امتحان ہے لہٰذا اکتسابِ مال، عقل کا نہیں بلکہ رویے کا کھیل ہے۔ 
تجربہ، علم سے زیادہ قیمتی 
ہاؤزل ایک اہم نکتہ اٹھاتا ہے کہ ہر شخص کا مالی تجربہ منفرد ہوتا ہے۔ جو کچھ ہم نے بچپن میں دیکھا، گھر کے حالات، والدین کا طرزِ خرچ، غربت یا آسائش کا ماحول، یہ سب مل کر ہمارے مالی رویے کو تشکیل دیتے ہیں۔ ایک شخص جس نے کسی مالی بحران میں سب کچھ کھویا، وہ ہمیشہ محتاط رہے گا؛ جبکہ وہ شخص جو تیزتر ترقی کے زمانے میں پلا بڑھا، زیادہ پرخطر فیصلے کریگا۔ یوں دولت کے بارے میں ہمارے تصورات دراصل تجربات کا عکس ہوتے ہیں، اعداد و شمار کا نہیں۔ 
خوش قسمتی اور جوکھم
ہاؤزل کا کہنا ہے کہ ہم اکثر کامیابی کو محض صلاحیت کا نتیجہ سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ اس میں قسمت اور حالات کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ بِل گیٹس کی خوش قسمتی تھی کہ اُس دور میں جب کمپیوٹر ایک نایاب شئے تھا، اسے ایسے اسکول میں داخلہ ملا جہاں کمپیوٹر موجود تھا۔ اسی تجربے نے اس کی زندگی بدل دی۔ اسی طرح، بدقسمتی بھی اتنی ہی طاقتور حقیقت ہے۔ کوئی شخص بہترین منصوبہ بندی کے باوجود کسی حادثے یا بیماری کے سبب سب کچھ کھو سکتا ہے۔ قسمت اور خطرہ دونوں نظر نہیں آتے، مگر دونوں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں لہٰذا کامیابی یا ناکامی میں توازنِ نظر ضروری ہے۔ نہ حد سے زیادہ فخر، نہ حد سے زیادہ افسوس اور خود کو کوسنا۔ 
جمع کرنا بمقابلہ برقرار رکھنا
دولت حاصل کرنا ایک صلاحیت ہے، لیکن اسے برقرار رکھنا ایک بالکل الگ فن۔ دولت کمانے کیلئے جرأت، تخلیق اور خطرہ اُٹھانے کی ضرورت ہے، مگر اسے سنبھالنے کیلئے احتیاط، صبر اور عاجزی درکار ہے۔ ہاؤزل کے مطابق، اگر آپ اپنی دولت کے بارے میں بہت زیادہ پُراعتماد ہو گئے، تو وہ ہاتھوں سے پھسل جائے گی۔ ہم اکثر صرف کامیاب لوگوں کی کہانیاں سنتے ہیں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان ہزاروں ناکام کوششوں کو بھول جاتے ہیں جو منظر کے پیچھے دفن ہو چکی ہوتی ہیں۔ ان سے بھی سبق لینا چاہئے۔ 
قناعت کا فلسفہ
ہاؤزل قناعت کے فلسفے کو مالی نفسیات کا بنیادی ستون قرار دیتا ہے۔ لالچ کی آگ دولت کی کثرت سے نہیں بلکہ اطمینانِ قلب سے بجھتی ہے۔ انسان جب یہ سمجھ لے کہ میرے پاس جو کچھ ہے، وہ میری ضرورت کیلئے کافی ہے، تو وہ حقیقی خوشحالی کو چھو لیتا ہے، ورنہ لالچ انسان کو ایسے مقام پر لاتی ہے جہاں مزید کی بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کتاب قاری کے اندر روحانی سکون کی جستجو پیدا کرتی ہے۔ دولت کا اصل مقصد زندگی کو بہتر بنانا ہے، نہ کہ زندگی کو روپوں پیسوں کے تعاقب میں کھپا دینا۔ 
وقت: سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ہتھیار
ہاؤزل، کمپاؤنڈنگ یعنی سود کے اثرِ مرکب کو ایک جادوئی اصول کہتا ہے۔ اگر آپ مستقل مزاجی سے، تھوڑا تھوڑا کر کے سرمایہ لگاتے رہیں، تو وقت آپ کا مددگار بن جاتا ہے۔ وارن بفیٹ کی مثال دیتے ہوئے ہاؤزل لکھتا ہے کہ انہوں نے ۶۰؍ سال سے زیادہ عرصے تک مستقل سرمایہ کاری کی۔ یہی ان کی اصل طاقت تھی۔ ۸۴؍ بلین کی دولت میں سے ۸۱؍ بلین ان کی تجوری میں ۶۵؍ ویں سالگرہ کے بعد جمع ہوئے تھے۔ 
خوشی اور دولت کا تعلق
کیا دولت واقعی خوشیاں بخشتی ہے؟ ہاؤزل کا جواب نفیس مگر حقیقت پسندانہ ہے: پیسہ خوشی خرید نہیں سکتا مگر کئی مشکلات سے بچاتا ہے یعنی دولت آپ کو بنیادی سُکھ، آزادی اور اپنے فیصلوں پر اختیار دیتی ہے، لیکن اگر دولت کا مقصد صرف نمائش یا دوسروں سے مقابلہ بن جائے، تو وہ خوشی کے بجائے حسد اور اضطراب پیدا کرتی ہے۔ اپنے مال و متاع کا دوسروں کی دولت سے موازنہ کرنا، قلبی اطمینان کھو دینا ہے۔ 
اپنے وقت پر اختیار 
ہاؤزل کے نزدیک، حقیقی مالی خوشحالی وہ ہے جب انسان کو اپنی مرضی کے مطابق وقت گزارنے کی آزادی حاصل ہو۔ جب وہ صبح اٹھنے کیلئے الارم کے بجائے شوق پر انحصار کرے۔ جب وہ کسی کے دباؤ میں نہیں بلکہ اپنے انتخاب سے کام کرے۔ دولت کی سب سے قیمتی لیکن پوشیدہ شکل ہے، اپنے وقت پر اپنا اختیار!
غلطیوں سے سیکھنا
ہاؤزل مالیاتی غلطیوں کو شرمندگی نہیں، بلکہ سیکھنے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ مالی دنیا میں کوئی بھی پیشگوئی قطعی نہیں۔ بہترین رویّہ یہ ہے کہ اپنی غلطیوں کے نتائج کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ یہ ذہنی رویّہ انسان کو مستقبل کیلئے مضبوط بناتا ہے۔ مالی خوشحالی کا راز پیچیدگی نہیں بلکہ سادگی ہے۔ اپنی آمدنی سے کم خرچ کرنا، مستقبل کیلئے بچانا، اور غیر یقینی حالات کیلئے تیار رہنا یہی اصل مالی حکمت ہے۔ بچت اور سرمایہ کاری بیحد ضروری ہیں۔ بہترین سرمایہ کاری وہ ہے جس میں آپ آرام محسوس کریں، نہ کہ جس میں زیادہ منافع کے لالچ میں نیندیں حرام ہو جائیں۔ 
پیسہ بولتا ہے
ہاؤزل نے اچھا کیا یہ کتاب لکھی۔ ہم جیسوں کو پہلے سے معلوم ہے کہ مال جمع کر کے گن گن کر رکھنے والوں کے حصے میں کون سا شر آتا ہے۔ دوسری طرف ہمارا ایمان یہ بھی ہے کہ فضول خرچ شیطان کے بھائی ہوتے ہیں۔ سوچتے سوچتے راقم الحروف کو جیب میں کچھ حرکت محسوس ہوئی۔ ریڈیو پر قوالی چل رہی تھی، ’پیسہ بولتا ہے‘۔ راقم نے فوراًجیب سے سکّوں کو نکال کر ہتھیلی پر رکھا اور ان کی کھنک دار بولی کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ’’سنو بھائی انویسٹر! بینک ایف ڈی پر ۷۔ ۶؍ فیصد منافع ملتا ہے۔ بہت عقلمندی کرلو تو شیئرس میں ۱۵۔ ۱۲؍ فیصد۔ اب اچانک کوئی بازیگر، ۴۰؍ فیصد والی اسکیم کا اعلان کرتا ہے تو تم یقین کس طرح کرلیتے ہیں ؟ کسی نئی سائنسی ایجاد یا بازار کے غیرمعمولی اتار چڑھاؤ کی بات اور ہے۔ بھلا اتنا پرافٹ، بڑے صنعتی ادارے بھی کما لیتے ہیں کیا؟ پھر جب چینی حکومت نے امریکہ کے ٹریزری بانڈ میں تین چار فی صد پر سرمایہ کاری کی تو اُس سے بڑا احمق کون ہوا بتاؤ؟ اس کو تو ہمارے ہاں کسی پاپولر اسکیم میں ساری رقم لگا کر ہیرے موتیوں کی توقع کرنی چاہئے تھی، نا؟ اپنے اطراف دیکھو۔ لوگ خون کےآنسو روئے، کھانے کے محتاج ہوگئے۔ کم علمی تھی، جہالت تھی کیا وجہ تھی؟ جو کم تعلیم یافتہ تھے ان کی بات علاحدہ ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے بھی پونزی اسکیموں میں کیونکر پھنستے ہیں ؟ قدم قدم پر شعبدہ باز موجود ہیں۔ خون پسینے کی، عمر بھر کی کمائی جب ضائع ہوتی ہے تو ان چالبازوں کے مکر کے ساتھ، کم یا زیادہ مقدار میں، خود اپنی طمع بھی ذمہ دار ہوتی ہے۔ جاگو بابا جاگو، اپنے لوگوں کو سمجھاؤ۔ ‘‘ اب راقم میں مزید سماعت کی سکت نہیں تھی۔ قلم اُٹھایا اور لکھنا شروع کیا۔ 
مورگن ہاؤزل کی کتاب محض، سرمایہ کاری کے اصولوں اور معاشی مشوروں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ انسانی سوچ، طرزِ عمل اور دولت کے درمیان رشتے کی ایک نفسیاتی تعبیر کا بیان ہے۔ سب کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK