• Sun, 26 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اس ہفتے اخبارات نے بہار الیکشن، بی جے پی کی فرقہ پرستی اور دہلی آلودگی پر لکھا

Updated: October 26, 2025, 2:08 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

دیوالی کے موقع پر دارالحکومت دہلی کے ۳۴؍ میں سے ۳۲؍ علاقوں میں فضا اس حد تک آلودہ ہو گئی کہ سانس لینا گویا زہر پینے کے مترادف بن گیا۔

BJP has asserted its supremacy in the NDA by winning seats equal to those of JDU. Photo: INN
بی جے پی نے جے ڈی یو کے برابر سیٹیں لے کر این ڈی اے میں اپنی بالادستی کو تسلیم کروالیا ہے۔ تصویر: آئی این این

دیوالی کے موقع پر دارالحکومت دہلی کے ۳۴؍ میں سے ۳۲؍ علاقوں میں فضا اس حد تک آلودہ ہو گئی کہ سانس لینا گویا زہر پینے کے مترادف بن گیا۔ ممبئی کی فضا بھی اب اسی سمت گامزن دکھائی دیتی ہے۔ اسی پس منظر میں اس ہفتے بیشتر اخبارات نے ہوا کی آلودگی اور اس کے انسانی صحت پر مضر اثرات کے موضوع پر اداریے تحریر کئے ہیں۔ ادھر بہار کے انتخابات کے تناظر میں ملکی سیاست میں نفرت کا زہر ایک بار پھر گھولا جا رہا ہے۔ ایک مرکزی وزیر کے اشتعال انگیز اور غیر ذمہ دارانہ بیان پر مراٹھی روزنامہ سامنا نے سخت ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے اداریے میں انہیں ’ملک اور انسانیت کا دشمن‘ قرار دیا ہے۔ اسی دوران دہلی کے ایک کالج میں پیش آئے افسوسناک واقعے نے علمی ماحول کی حرمت پر سوال کھڑا کر دیا ہے جہاں ایک طالبہ نے اپنے استاد کو طمانچہ مار کر استاد و شاگرد کے مقدس رشتے کو مجروح کیا۔ اس واقعے پر روزنامہ جن ستہ نے اپنے اداریے میں نئی نسل کو صبر، برداشت اور بزرگوں کے احترام کا درس دیا ہے۔ دوسری جانب انگریزی روزنامہ دی ہندو نے بہار اسمبلی انتخابات سے قبل این ڈی اے اور مہا گٹھ بندھن کے درمیان نشستوں کی تقسیم پر جاری رسہ کشی کو اپنا موضوع بنایا ہے اور اس سیاسی کھینچا تانی کو انتخابی منظرنامے کی سب سے بڑی آزمائش قرار دیا ہے۔ 
گری راج سنگھ کا بیان غیرذمہ دارانہ ہے
سامنا(مراٹھی، ۲۲؍اکتوبر )
’’بی جے پی کے مرکزی وزیر گری راج سنگھ کا حالیہ بیان نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ ملک کی جمہوری روح، آئینی اصولوں اور سماجی ہم آہنگی کے منافی بھی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ’ہمیں حرام خوروں کے ووٹ نہیں چاہئیں ‘ایک ایسے ذہنی رویے کی عکاسی کرتا ہے جو سیاست کو خدمت کے بجائے منافرت کا میدان بنا چکا ہے۔ گری راج سنگھ کا بیان براہ راست آئین ہند کی روح کے خلاف ہے۔ آئین ہر شہری کو مساوی حقوق دیتا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب، زبان یا ذات سے تعلق رکھتا ہو۔ سرکاری اسکیمیں حکومت وقت کی نہیں ریاست کی ملکیت ہوتی ہیں اور ان سے مستفید ہونا ہر شہری کا حق ہے نہ کہ کسی سیاسی وفاداری کا انعام ایک مرکزی وزیر کا یہ کہنا کہ مخصوص طبقے کے ووٹ نہیں چاہئیں دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ وہ آئینی ذمہ داریوں سے انکار کر رہے ہیں۔ گری راج سنگھ کے بیانات کا مقصد صاف ہے۔ انتخابی ماحول میں مذہبی جذبات کو بھڑکانا اور ہندو مسلم تفریق کو گہرا کرنا۔ بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے تناظر میں ان کے یہ الفاظ محض وقتی سیاسی فائدے کیلئے دیئے گئے معلوم ہوتے ہیں۔ اس پارٹی کی انتخابی مہم عموماً مذہبی قوم پرستی کے بیانیے کے گرد گھومتی ہے، جہاں ’ہم‘ اور ’وہ‘ کا تصور دانستہ طور پر پیدا کیا جاتا ہے۔ گری راج سنگھ کے بیان کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس نے ملک کے تقریباً ۲۰؍ کروڑ مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھا دیا ہے۔ یہ سوچ اس تاریخی حقیقت سے نظریں چراتی ہے کہ مسلمانوں نے ملک کی آزادی، تعمیر اور ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ آزادی کی جدوجہد سے لے کر آج تک مسلمان نہ صرف ہندوستان کے شہری رہے ہیں بلکہ اس کی بقا اور وقار کے محافظ بھی۔ اس کے برعکس جن قوتوں سے گری راج سنگھ وابستہ ہیں وہ آزادی کی جنگ میں شامل نہیں تھیں۔ آر ایس ایس نے برطانوی راج کے خلاف تحریکوں میں براہِ راست حصہ نہیں لیا تھا۔ ‘‘
نسلوں کا سانس لینا دوبھر کر دیا گیا
لوک ستہ ( مراٹھی، ۲۲؍اکتوبر)
’’ہمارے تہوارجو کبھی ہماری تہذیب و مظہر اور انسانی قدروں کے ترجمان تھے آج اپنی اصل معنویت کھو چکے ہیں۔ یہ وہی تہوار ہیں جو کبھی روح کی بالیدگی اور فطرت سے ہم آہنگی کا پیغام دیتے تھےمگر اب ان کی صورت حال افسوسناک حد تک بگڑ چکی ہے۔ دیوالی، جو کبھی روشنی کی اندھیرے پر فتح کی علامت تھی آج دھوئیں، شور اور زہریلی فضا کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ کبھی یہ تہوار آکاش دیپوں کی جھلمل اور مٹھائیوں کی مٹھاس سے عبارت تھا مگر اب وہی دیوالی شور اور فضا میں پھیلتے زہریلے ذرات اور انسان کی بے حسی کا جشن بن گئی ہے۔ سردیوں کی آمد کے ساتھ صبح کی شبنم میں لرزتے دیئے کبھی روح کو طمانیت بخشتے تھے مگر آج انہی مناظر کی جگہ دھوئیں سے اٹے آسمان اور شور سے گونجتی راتوں نے لے لی ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ خوشی کے حقیقی مفہوم اور موجودہ تہواروں کے مصنوعی مظاہر کے درمیان ایک خلیج حائل ہو چکی ہےاور اس خلیج کو پاٹنے کیلئے فکری اور ثقافتی شعور کی ضرورت ہے جو بدقسمتی سے ہمارے معاشرے سے عنقا ہے۔ آج کے انسان کیلئے فطری مسکراہٹ کی جگہ موبائل اسکرینوں سے پیدا ہونے والی مصنوعی ہنسی نے لے لی ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو ذرا دیوالی کے حالیہ مناظر پر نگاہ ڈال لیجیے۔ ۷؍ ہزار کروڑ روپے پٹاخوں میں جھونک دیئے گئے اور فضا کو زہریلا بنا دیا گیا۔ محض چند گھنٹوں کی ’خوشی‘ کیلئے نسلوں کا سانس لینا دوبھر کر دیا گیا۔ صرف ممبئی میں دیوالی سے قبل آگ لگنے کے واقعات میں کئی نوجوان لقمۂ اجل بن گئے، دہلی میں فضا کا معیار اس حد تک گر گیا کہ اب وہاں کی ہوا مذاق بن چکی ہے۔ یہ صرف وہ تباہی ہے جو آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے، ورنہ شور سے پریشان جانوروں، پرندوں، ضعیفوں اور بیماروں کی اذیت تو ناقابل تصور ہے۔ ‘‘
کالج میں پیش آنے والا واقعہ افسوسناک ہے
جن ستہ(ہندی، ۲۰؍اکتوبر)
‘’جامعات اور تعلیمی ادارے قوم کے مستقبل کی تشکیل گاہ ہوتے ہیں جہاں علم کی شمع جلتی ہے اور تہذیب و اخلاق کی آبیاری ہوتی ہے۔ مگر گزشتہ دنوں دہلی یونیورسٹی کے ایک کالج میں پیش آنے والا افسوسناک واقعہ اس تعلیمی حرمت اور اساتذہ و شاگرد کے پاکیزہ رشتے پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ ایک طالبہ جو ایک طلبہ تنظیم کا عہدیدار بھی ہے، اس نے نہ صرف ایک استاد سے بدتمیزی کی بلکہ معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش میں ناکامی پر پولیس کی موجودگی میں پروفیسر پر ہاتھ بھی اٹھایا۔ سوال یہ ہے کہ جب ایک طالبہ اپنے ساتھیوں کےمسائل لے کر استاد کے پاس گئی تھی تو کیا اس کیلئے یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ نہ صرف استاد کا احترام ملحوظ خاطر رکھے بلکہ اپنی تنظیم کے عہدے کے ساتھ جڑے ذمہ داری کا احساس بھی کرتی؟ایسا نہیں ہے کہ مسائل نہیں ہوتے یا طلبہ کو شکایات کا حق نہیں ہے۔ طلبہ کی فلاح و بہبود کیلئے آواز اٹھانا تنظیموں کا بنیادی فریضہ ہے لیکن کیا کسی بھی اختلاف یا شکایت کو اعلیٰ سطح پر حل کرنے کے بجائے تشدد اور بدسلوکی کا راستہ اختیار کرنا کسی بھی صورت میں جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟یہ واقعہ محض ایک انفرادی بدتمیزی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ کالج کیمپس میں استاد اور شاگرد کے درمیان تیزی سے کم ہوتے ہوئے احترام اور اعتماد کی گواہی دیتا ہے۔ جب نئی نسل، جو ملک کی نمائندگی کرنے کا خواب دیکھتی ہے مسائل کے حل کیلئے تحمل اور گفتگو کے بجائے ایسے رویے کا مظاہرہ کرے گی تو اس سے قوم کی فکری تربیت پر کیا اثر پڑے گا؟‘‘
سیاسی مفاہمت کے پیچھے چھپی ہوئی بے اعتمادی
دی ہندو( انگریزی، ۲۲؍اکتوبر )
’’بہار کی سیاست ایک بار پھر گہری ہلچل میں ہے۔ اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے بعد سیاسی محاذوں پر سرگرمیاں تیز ہو چکی ہیں۔ ہراتحاد اپنے خیمے کے اندر صف بندی درست کرنے اور نشستوں کی تقسیم کے نازک مرحلے سے گزر رہا ہے مگر جو چیز سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ ہے سیاسی مفاہمت کے پیچھے چھپی ہوئی بے اعتمادی اور قیادت کے توازن کی کشمکش۔ این ڈی اے نے بظاہر نشستوں کی تقسیم کا مرحلہ نسبتاً آسانی سے طے کر لیا ہے۔ بی جے پی اورجے ڈی یو دونوں برابر برابر نشستوں پر میدان میں اتر رہی ہیں۔ بقیہ اتحادی لوک جن شکتی پارٹی ۲۹؍ نشستوں پر جبکہ ہندستانی عوام مورچہ اورآر ایل ایم ۶، ۶ ؍نشستوں پر مقابلہ کریں گی۔ یہ اعداد و شمار محض اتفاق نہیں بلکہ بدلتے ہوئے سیاسی توازن کی علامت ہیں۔ بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان بظاہر مساوی تقسیم دراصل عدم مساوات کی گواہی دیتی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ بی جے پی نے اب جے ڈی یو کے برابر نشستیں لے کر اتحاد میں اپنی بالادستی کو عملاً تسلیم کرا لیا ہے۔ بی جے پی کے اندرونی حلقے اس امکان کو تقویت دے رہے ہیں کہ اگر این ڈی اے ایک بار پھر اقتدار حاصل کر لیتا ہے تو حکومت مخالف عوامی ناراضی کو دور کرنے کیلئے نتیش کی قربانی دی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف مہا گٹھ بندھن جس میں آر جے ڈی، کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتیں شامل ہیں۔ نشستوں کی تقسیم اور قیادت کے مسئلے پر شدید اندرونی کشمکش کا شکار ہے۔ اتحاد کے مختلف دھڑوں کے درمیان نہ صرف سیٹوں کے حصے پر اختلاف ہے بلکہ قیادت کے سوال پر بھی کھنچاؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK