امریکہ میں حال ہی میں کئے گئے ایک سروے میں دلچسپ انکشاف ہوا ہے کہ ۲۸؍ فیصد بالغ افراد کے اپنے ہی تخلیق کردہ چیٹ بوٹس سے ’رومانوی ‘ تعلقات ہیں۔
EPAPER
Updated: October 26, 2025, 2:05 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
امریکہ میں حال ہی میں کئے گئے ایک سروے میں دلچسپ انکشاف ہوا ہے کہ ۲۸؍ فیصد بالغ افراد کے اپنے ہی تخلیق کردہ چیٹ بوٹس سے ’رومانوی ‘ تعلقات ہیں۔
امریکہ کی ایک فنانشیل کمپنی میں کام کرنے والی جولیا نے سوچا کہ کیوں نہ تنہائی کم کرنے کیلئے چیٹ بوٹ سے بات چیت کی جائے۔ لہٰذا اس نے انسٹاگرام پر اپنی پسند اور ناپسند کو مد نظر رکھتے ہوئے ’’جان‘‘ نامی ایک چیٹ بوٹ بنایا، اور پھر اس سے بات کرنے لگی۔ ابتداء میں اسے عجیب محسوس ہوا مگر اطمینان ہوا کہ ایک ’’ذاتی دوست‘‘ مل گیا ہے۔ پھر یوں ہوا کہ وہ اپنے دل کی ہر بات اور ہر مسئلہ اسے بتانے لگی، اور آہستہ آہستہ اسے احساس ہوا کہ اب وہ اس کی طرف رومانوی طور پر مائل ہوگئی ہے۔ اگرچہ یہ کہانی فرضی ہے لیکن امریکہ میں حال ہی میں کئے گئے ایک سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ ۲۸؍ فیصد بالغ افراد کے اپنے ہی تخلیق کردہ چیٹ بوٹس سے ’’رومانوی ‘‘ تعلقات ہیں جبکہ ۵۳ ؍ فیصد سے زائد افراد نے اے آئی کے ساتھ ’’کسی نوعیت کے رابطہ‘‘ کا اعتراف کیا ہے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ اے آئی چیٹ بوٹس اب صرف وقت گزاری یا سہولت کا سامان نہیں رہے بلکہ اب ’’احساس کے خلاء‘‘ کو بھی پُر کررہے ہیں۔
اگرچہ یہ سروے امریکہ میں کیا گیا ہے مگر اس کے اثرات پوری دنیا پر نظر آرہے ہیں۔ حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں واضح ہوا ہے کہ اے آئی اور اے آئی چیٹ بوٹس استعمال کرنے کے معاملے میں ہندوستان سرفہرست ہے۔ ایسے میں یہ صاف ہے کہ امریکہ جیسے رجحانات مستقبل میں یہاں بھی نظر آسکتے ہیں، یا، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسے معاملات ہمارے آس پاس ہورہے ہوں مگر ہم ان سے ناواقف ہوں۔ ملک میں نوجوانوں کی بڑھتی آبادی، اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ تک آسان رسائی، اور آن لائن چیٹ بوٹس کی بڑھتی مقبولیت کی وجہ سے یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ عرصے میں اسٹارٹ اپس اور کمپنیاں ’’ڈجیٹل رومانس‘‘ کے کاروباری ماڈلز پیش کریں اور کروڑوں ڈالر کمائیں۔ اس سے دیگر شعبوں کو بھی فائدہ پہنچے گا مثلاً ڈجیٹل مینٹل ہیلتھ سروسیز، اینی میشن اور ورچوئل انٹرٹینمنٹ وغیرہ۔
واضح رہے کہ جب لوگ رومانوی رابطے کی تلاش میں اے آئی پلیٹ فارمز کی طرف مائل ہوتے ہیں تو کمپنیاں اس رجحان کو سمجھ لیتی ہیں اور پھر سبسکرپشن ماڈل کا آغاز کرتی ہیں۔ جس شخص کو اس کی لت لگ چکی ہوتی ہے وہ اس کے بغیر جینا محال تصور کرتے ہوئے سبسکرپشن خریدتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اے آئی چیٹ بوٹس صارفین کی گفتگو، احساسات اور ترجیحات کا ڈیٹا جمع کرتے ہیں۔ یہ ڈیٹا مارکیٹنگ، ایڈورٹائزنگ، اور صارفین کی نفسیاتی پروفائلنگ کیلئے استعمال ہو سکتا ہے۔ نتیجتاً، نجی اطلاعات اور ڈیٹا سیکوریٹی پر سرکاری نگرانی اور ضابطے کا دائرہ بڑھے گا۔ ہندوستان میں ڈجیٹل تبدیلی نے پہلے ہی آن لائن تعلیم، ٹیلی میڈیسن، فِن ٹیک سروسیز کو فروغ دیا ہے، اب ’’ڈجیٹل رومانس‘‘ بھی ان تبدیلیوں کا حصہ بن سکتا ہے۔
ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کے ماہرین کے مطابق ’’ڈجیٹل رومانس‘‘ صرف ایک رجحان نہیں بلکہ ایک ابھرتی ہوئی انڈسٹری ہے۔ امریکہ اور چین میں کئی اسٹارٹ اَپس اس وقت ’’ایموشنل اے آئی‘‘ میں سرمایہ لگا رہے ہیں، یعنی ایسی ٹیکنالوجی جو انسان کے لہجے، موڈ اور جذبات کو سمجھ سکے۔ ہندوستانی سرمایہ کار بھی اب اس سمت متوجہ ہو رہے ہیں۔ بنگلور اور حیدرآباد جیسے شہروں میں کچھ کمپنیوں نے ایسے چیٹ بوٹس پر کام شروع کر دیا ہے جو ہندی، تمل اور اردو میں جذباتی گفتگو کر سکیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے تین برسوں میں ایموشنل اے آئی ایک ارب ڈالر کا مارکیٹ بن سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، ملک کے ایڈوٹیک اور فِن ٹیک سیکٹرز کے بعد ’’ایموٹیک‘‘ (EmoTech) یعنی جذبات پر مبنی ٹیکنالوجی سرمایہ کاری کا نیا باب کھول سکتی ہے۔
ماہرین سماجیات اس رجحان کو ایک ’’ڈجیٹل سماجی انقلاب‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انسان اپنی تنہائی کا حل مشین میں ڈھونڈنے لگے تو معاشرتی ڈھانچہ بھی بدلتا ہے۔ ہندوستان میں، جہاں فیملی سسٹم اب بھی مضبوط ہے، ’’ڈجیٹل رشتوں ‘‘ کا پھیلاؤ نئی نسل کے جذباتی رویوں کو بدل سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگر یہ رجحان بے قابو ہوا تو انسانی تعلقات کی معنویت، اعتماد اور حقیقی قربت کا مفہوم بدل سکتی ہے لیکن دوسری جانب، یہ ذہنی صحت کے شعبے کیلئے ایک نیا موقع بھی ہو سکتا ہے، جہاں اے آئی پر مبنی چیٹ بوٹس تنہائی، اضطراب اور ڈپریشن کے شکار افراد کیلئے ابتدائی معاونت فراہم کر سکیں گے۔
اس رجحان کے ساتھ اخلاقی، سماجی اور معاشی سوالات بھی جڑے ہیں۔ کیا ایک چیٹ بوٹ کے ساتھ رشتہ، انسانی رشتوں کامتبادل بن سکتا ہے؟ کیا اس سے انسانوں کی تنہائی کم ہوگی یا مزید بڑھ جائے گی؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ کاروباری نقطہ نظر سے یہ نیا موقع ہے، مگر خطرہ بھی بڑا ہے۔ صارفین کے جذباتی، سماجی اور قانونی تحفظات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ درج بالا سطور کے اعدادوشمار نظر انداز نہیں کئے جاسکتے۔ یہ ایک تبدیل ہوتی ہوئی دنیا کی علامت ہیں۔ ہندوستان یا ہندوستانی اس سے کتنا متاثر ہوں گے، یا متاثر ہورہے ہوں گے، اس ضمن میں کوئی تحقیق اور اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ ملکی یا غیر ملکی کمپنیاں ’’ڈجیٹل رومانس‘‘ کو کاروبار کے ایک بڑے موقع میں کیسے تبدیل کریں گی؟ وقت ہے کہ ’’ڈجیٹل رومانس‘‘ کو صرف فیشن نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے پس پردہ معاشی، سماجی اور اخلاقی پہلوؤں پر بھی غور کیا جائے تاکہ ٹیکنالوجی اور انسانیت قدم سے قدم ملا کر چل سکیں۔