بھیونڈی کے ۸۳؍ سالہ رضی الدین انصاری تقریباً ۵۵؍سال تک لُوم کی صنعت سے وابستہ رہے، الحمرا ء ایجوکیشنل سوسائٹی کی بانیان میں شامل ہیں، آج بھی پوری طرح سرگرم ہیں اور اس ادارے کےنائب خازن کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھارہےہیں۔
EPAPER
Updated: October 26, 2025, 2:02 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
بھیونڈی کے ۸۳؍ سالہ رضی الدین انصاری تقریباً ۵۵؍سال تک لُوم کی صنعت سے وابستہ رہے، الحمرا ء ایجوکیشنل سوسائٹی کی بانیان میں شامل ہیں، آج بھی پوری طرح سرگرم ہیں اور اس ادارے کےنائب خازن کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھارہےہیں۔
بھیونڈی، ندی ناکہ کے ۸۳؍سالہ رضی الدین وحیدالدین انصاری کی پیدائش ۱۷؍ فروری ۱۹۴۱ء کو آبائی گائوں خانجہانپور، قصبہ لال گوپال گنج، ضلع الٰہ آباد میں ہوئی تھی۔ خانجہانپور کی نعمانیہ اسکول سے چوتھی بعدازیں لال گوپال گنج کے گاندھی اسمارک اسکول سےآٹھویں اور آنا پور کے آئی کے ایم انٹرکالج سے میٹرک اورانٹرکی پڑھائی مکمل کی۔ انٹر پاس کرنےکےبعدبڑے بھائی کی ایماء پرذریعہ معاش کیلئے ممبئی کارخ کیا، بھیونڈی میں سکونت اختیار کی۔ عملی زندگی کا آغاز لُوم کی صنعت سے کیا۔ پہلے مزدوری بعدازیں خود کا کاروبار، تقریباً ۵۰؍سے ۵۵؍سال محنت ومشقت کرنے کے بعد ۱۵؍سال پہلے کا روبار سے علاحدگی اختیار کی۔ معاشی مصروفیت کے ساتھ ملّی اور تعلیمی سرگرمیوں سےبھی وابستگی رہی۔ الحمرا ء ایجوکیشنل سوسائٹی کے زیر اہتمام جاری انصاری صافیہ گرلز ہائی اسکول، عائشہ صدیقہ گرلز اُردو پرائمری اسکول، انصاری فرید میموریل گرلز انگلش ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج سے ان کی والہانہ دلچسپی، ان کی زندگی کا روشن باب ہے، جو قابل تقلید ہے۔
رضی الدین انصاری الحمرا ء ایجوکیشنل سوسائٹی کےبانیان میں شامل ہیں۔ دراصل ناگائوں ، سلامت پورہ کے علاقے میں ۹۰ء کی دہائی میں لڑکیوں کیلئے کوئی اسکول نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے اس علاقے کی لڑکیوں کو پڑھائی کیلئے دور جانا پڑتاتھا۔ اسی وجہ سے رضی الدین انصاری، عبدالحمید خان، حکیم الدین انصاری، سلیم رحمت اللہ انصاری، ذاکر حسین چاچییا، عبدالماجد مومن، مومن وقار احمد کتابی، ڈاکٹر عبدالرئوف، وکیل احمد انصاری، انصاربھائی اور مرحوم فرید احمد انصاری وغیرہ کے ایک گروپ نے اکتوبر ۱۹۹۲ءمیں الحمرا ء ایجوکیشنل سوسائٹی کی بنیاد ڈالی تھی۔ یہ تمامی حضرات اس دور میں نظام پو ر کی پٹیل محلہ مسجد میں عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ نماز کےبعد مسجد کے قریب واقع لکی ہوٹل میں چائے پیتے تھے۔ اسی ہوٹل میں ان لوگوں نے الحمرا ء ایجوکیشنل سوسائٹی قائم کرنےکی منصوبہ بندی کی تھی۔ پیرانہ سالی میں بھی رضی الدین انصاری بحیثیت نائب خازن ادارہ ھٰذا کیلئے اپنی خدمات پیش کررہےہیں۔ علاوہ ازیں کھاڑی پار کی جامعۃ التوحید سےبھی وابستہ ہیں۔ جمعیت اہل حدیث بھیونڈی کے قدیم ذمہ داران میں بھی آپ کا شمار ہوتاہے۔
رضی الدین انصاری کےگائوں خانجہانپور سے آناپورکا آئی کے ایم ہائی اسکول ۵؍کلومیٹر کی دوری پر تھا۔ اسکول جانے اور گھر لوٹنےکیلئے، انہیں روزانہ تقریباً ۱۰؍کلومیٹر کا سفر پیدل طےکرناپڑتاتھا۔ ان کے اسکول کا وقت صبح ساڑھے ۱۰؍بجے سے شام ساڑھے ۴؍بجے کاتھا۔ وہ روزانہ صبح ۹؍بجے گھر سے نکلتے، اسکول شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے وہاں پہنچتے اور شام کو بھی پیدل گھرلوٹتے جس کی وجہ سے تھک جاتے تھے لیکن پڑھائی کاشوق، روزانہ ۱۰؍ کلومیٹر کی مسافت طے کرنےپرانہیں آمادہ کرتا۔ ۲؍سال تک وہ اسکول پیدل گئے تھےبعدازیں والد نے سائیکل کا انتظام کردیاتھا، پھر سائیکل سے یہ سفر طے کیا۔
اس دورمیں ان کے گائوں میں بجلی نہیں تھی، پورے گائوں میں شام ڈھلتے اندھیرا ہوجاتا، لوگ چراغ کی روشنی میں ضروریات پوری کرتے تھے۔ ایسے میں رات میں پڑھائی کرنےکیلئے، انہوں نے اپنے ہاتھوں سے چراغ بنایا تھا۔ اس زمانےمیں دانت مانجھنے کیلئے بیشتر گھروں میں بندر چھاپ منجن کی چھوٹی شیشی دکھائی دیتی تھی۔ ان کےگھر میں بھی اسی منجن کا استعمال کیاجاتاتھا۔ منجن کی خالی شیشی کے ڈھکن میں باریک سوراخ کرکے، کپڑےکی بتی سے چراغ بنایاتھا۔ مٹی کے تیل سے جلنے والے اس چراغ کی معمولی سی روشنی میں انہوں نےپڑھائی کی۔ رات کو ۱۰؍سے ۱۲؍ بجے اور علی الصباح ۴؍بجے اُٹھ کر پڑھائی کرتے تھے۔ یہ چراغ ۲؍دنو ں تک جلتا، اس کےبعد اس میں پھر مٹی کا تیل ڈالتے، اس طرح کئی برس تک چراغ کی روشنی میں پڑھائی کی تھی۔
ان کا خانوادہ زمیندار تھا۔ ساری اراضی کسانوں کو معاہدہ پر دی گئی تھی۔ جب تک زمیندار ی کا نظام جاری رہا، معمول کےمطابق ان کے خانوادہ کو فائدہ پہنچا، جیسے ہی حکومت نے زمینداری نظام ختم کرنے کا اعلان کیا، ان کی ساری آبائی اراضی پرکسانوں کا قبضہ ہوگیا، جس کی وجہ سے ان کےگھروالوں کوشدید مالی دشواریوں کا سامناکرنا پڑا۔ ایک وقت ایسابھی آیا، جب گھر میں کھانے پینے کی دقت ہونے لگی۔
رضی الدین انصاری کےبڑے بھائی نے آزادی سےقبل، لال گوپال گنج کےقریب واقع کنڈا ہرنام گنج ریلوے اسٹیشن پرپنڈت جواہر لال نہرو کو دیکھا تھا۔ اسٹیشن پر کچھ لوگ گاڑی کےمنتظر تھے، جن میں جواہر لال نہرو بھی شامل تھے۔ مسافروں کاایک گروپ پلیٹ فارم پر گاڑی کے انتظار میں، وقت گزاری کیلئے تاش کھیل رہا تھا۔ ان کےساتھ جواہر لال نہرو نےبھی تاش کھیلاتھا۔ یہ منظر ان کے بڑے بھائی نے اپنی آنکھوں سے دیکھاتھا۔ گائوں لوٹ کر گھروالوں کو فخریہ انداز میں بتارہےتھےکہ جواہر لال نہرو کونڈا ہرنام گنج اسٹیشن پر تاش کھیل رہےتھے۔
بھیونڈی کے ۱۹۷۰ءکےفسادکو رضی الدین نےبڑے قریب سے دیکھاتھا۔ ندی ناکہ پر ہونےوالی آگ زنی، پتھرائواورپولیس لاٹھی چارج وغیرہ کے مناظر دیکھ کر، وہ اپنے کارخانےمیں کئی گھنٹوں چھپے رہے۔ اسی دوران کچھ ساتھیوں کے ہمراہ، کار سے لال گوپال گنج جانےکا منصوبہ تھا۔ فساد کے دوران وہ کار سے روانہ ہوئے، راستےمیں بھی فساد کے اثرات واضح طورپر دکھائی دیئے۔ ہرطرف لوٹ مار کابازار گرم تھا۔ راستےمیں شرپسندوں نے ان کی کارکو نشانہ بنانےکی بھی کوشش کی، بچتے بچاتے دیر رات لاسل گائوں (ناسک) پہنچنے پر ان لوگوں نے وہیں قیام کافیصلہ کیا۔ ایک اسکول میں رات جاگ کرگزاری۔ علی الصباح وہاں سے آگے کے سفر کیلئے روانہ ہوئے۔ اس فسادکااثر ناسک تک پہنچ گیاتھا۔
رضی الدین انصاری کو فلم دیکھنے کا شوق تھا لیکن فلم دیکھنے سے پہلے اس کی کہانی پڑھتے تھے۔ اگر کہانی سبق آموز ہوتی توہی فلم دیکھنے جاتے ورنہ نہیں دیکھتے تھے۔ ان کےبڑے بھائی فلموں کے شیدائی تھے۔ وہ فلمی کتابیں گھرلاتےتھے۔ بھیونڈی میں متعدد مقامات پر شوٹنگ ہوتی تھی، اس وجہ سے بیشتر فلمی ستارے بھیونڈی آتے تھے۔ بھیونڈی آنے اور یہاں سے واپس ہونےکیلئے ایک عام راستہ ندی ناکہ (و نجار پاٹی) تھا۔ یہاں ایک معروف ’اپنی ہوٹل ‘ تھی، جس کی بریانی بہت مشہور تھی۔ فلمی ستارے بھی بریانی کھانےکیلئے یہاں رکتے تھے۔ اسی ہوٹل پر اس دور کےمتعدد اداکاروں کو رضی الدین انصاری نے دیکھا تھا۔
ایک مرتبہ اندراگاندھی، لال گوپال گنج آئی تھیں۔ ان کےاستقبال کیلئے پورے گائوں کو رنگ برنگے کاغذوں کے پھول پتیوں سے سجایا گیا تھا۔ لوگ ان کی تقریر سننےکیلئے اطراف کے چھوٹے چھوٹے گائوں سے بیل گاڑیوں اور یکے سے آئے تھے۔ جس میدان میں جلسہ تھا وہاں قدم رکھنےکی گنجائش نہیں تھی۔ اس موقع پر رضی الدین نے بھی اندرا گاندھی کو دیکھا تھا۔ ان کی تقریر بھی سنی تھی لیکن اس موقع پر انہوں نے کیاکہا تھا، اب کچھ یاد نہیں رہا۔