بہت سی چیزیں وہ ہوتی ہیں جن کا آفت اور مصیبت ہونا ہر شخص جانتا ہے مثلاً بیماری، افلاس، کسی دشمن کا خوف یا دیگرآفتیں جن سے انسان دوچار ہوتا رہتا ہے۔ لیکن مومن کی نظر میں سب سے بڑی آفت وہ گناہ ہیں جو اسے اللہ کی رحمت سے دور کرتے ہیں اور اس کے عذاب کا مستحق بناتے ہیں۔ ان سورتوں میں اس سے پناہ مانگنے کی بھی تعلیم دی گئی ہے اور ان آفتوں سے پناہ چاہنے کی تلقین کی جارہی ہے جو انسان کے اندر پائی جاتی ہیں اور اس کے ذہن اور فکر کو متاثر کرتی ہیں۔
قرآن پاک کی آخری سورتوں کو معوذتین کہتے ہیں یعنی وہ سورتیں جن میں ہمیں استعاذہ کی تعلیم دی گئی ہے۔ ’’استعاذہ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ پہلے اس کے معنی اچھی طرح سمجھ لیجئے۔ اس کے اندر بچنے، پناہ لینے، حفاظت میں آنے کا مفہوم پایا جاتا ہے، یا یوں کہئے کہ جس چیز سے آپ ڈرتے ہوں تث اس سے بھاگ کر کسی ایسے کی پناہ اور حفاظت میں چلے جانا جو آپ کو اس سے بچا سکے۔ اسی کے مادے سے لفظ ’’اعوذ‘‘ نکلا ہے جس کا مطلب ہے کہ میں حفاظت میں آتا ہوں، پناہ لیتا ہوں۔ اس میں چھپ جانے اور چمٹ جانے کا بھی مفہوم ہے۔ یعنی جس چیز سے آپ کو خوف ہے اس سے بچنے کے لئے آپ کسی کی آڑ لیں یا اس سے چمٹ جائیں۔ جیسے کوئی بچہ اس وقت بھاگ کر باپ کی آڑ لے لیتا ہے اور اس سے چمٹ جاتا ہے جب اس پر اس کا کوئی دشمن حملہ کرتا ہے یا اسے کوئی شے پریشان کرتی ہے۔
قرآن پاک میں ان دونوں سورتوں سے پہلے سورۂ اخلاص کو رکھا گیا ہے۔ سورۂ اخلاص میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ بندہ اپنا سب کچھ اللہ ہی کو سمجھے۔ بندگی ہو تو اس کی، اطاعت ہو تو اس کی، محبت ہو تو اس سے، خوف ہو تواس سے، غرض یہ کہ زندگی کے ہر معاملے میں بندے کی نظر اس پر رہے۔ بندہ اس سے امید لگائے، اس سے مانگے اور اسی کو اپنا آخری سہارا سمجھے۔ سورۂ اخلاص میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’صمد‘‘ کا ذکر ہوا ہے یعنی وہ ذات جسے کسی حالت میں کسی کی کوئی ضرورت نہ ہو، بلکہ اس کے برخلاف ہر چیز اس کی محتاج ہو۔ اس حقیقت کو سمجھ لینے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ بندہ پناہ لے تو اللہ کی ہی لے، اور اس کی حفاظت کو اپنے لئے کافی سمجھے۔ اس کے سوا اگر بندہ کسی دوسرے کی پناہ لیتا ہے تو گویا وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ’’صمد‘‘ ہونے کا یقین اس کے دل میں اچھی طرح بیٹھا نہیں ہے۔ چنانچہ ان دونوں سورتوں میں ’’استعاذہ‘‘ کی جو تعلیم دی گئی ہے وہ اس توحید کا لازمی تقاضا ہے جس کی تعلیم سورۂ اخلاص میں موجود ہے۔
انسان کا تعلق جب اللہ تعالیٰ سے کمزور ہوجاتا ہے یا اس بارے میں وہ کوئی غلط روش اختیار کرلیتا ہے تو وہ اللہ کے سوا دوسروں کی پناہ لیتا ہے اور مصیبتوں اور آفتوں سے بچنے کیلئے دوسروں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اس کی بے شمار شکلیں ہر دور میں موجود رہی ہیں۔ کچھ نے جنات سے تعلق جوڑا، کسی نے مذہبی بزرگوں اور نیک لوگوں کو مشکل کشا اور دستگیر قرار دیا، کچھ لوگوں نے ٹوٹکوں کو مصیبت ٹالنے کا سبب جانا، کہیں جھاڑ پھونک اور ٹونے ٹوٹکے ایجاد ہوئے، کہیں امراض کو آسیب اور جنات کا خلل سمجھ کر ان سے بچنے کے لئے طرح طرح کے جتن اختیار کئےگئے اور اسی طرح کی نہ جانے کتنی باتیں اختیار کرلی گئیں اور یہ یقین کرلیا گیا کہ اس طرح مصیبتیں ٹل سکتی ہیں اور بلاؤں سے نجات مل سکتی ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ باتیں توحید کے اقرار کے خلاف ہیں اور اسلام ان سب کو مشرکانہ حرکات ہی قرار دیتا ہے۔
ایسی تمام باتوں کے متعلق مومن کے سوچنے کا ڈھنگ بالکل الگ ہوتا ہے۔ اس کا ایمان ہے کہ جو کچھ آتا ہے اللہ کی طرف سے آتا ہے۔ اس کے منشا اور ارادے کے بغیر یہاں کچھ نہیں ہوسکتا۔ وہ اگر نفع پہنچانا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا اور اگر اس کے حکم سے کوئی مصیبت آئے تو کوئی اسے ٹال نہیں سکتا۔ اس ایمان اور یقین کا تقاضا یہ ہے کہ مومن ہمیشہ اللہ کی پناہ ڈھونڈتا ہے ، وہ صرف اس کی حفاظت کو کافی سمجھتا ہے اور ہر مصیبت کے وقت اس کا سہارا صرف اللہ ہوتا ہے۔ پھر یہ تو مادی تکالیف اور دنیوی مصیبتوں کا حال ہے۔ مومن کی نظر تو اس سے بہت آگے جاتی ہے۔ اس کی نگاہ میں سب سے بڑی مصیبت اور سب سے بڑی آفت یہ ہے کہ بندہ آخرت کی زندگی میں ناکامی سے دوچار ہوجائے۔ اس لئے وہ ان دنیوی مصیبتوں ہی کے لئے نہیں بلکہ آخرت میں اس کے عذاب سے بچنے کے لئے بھی پناہ اور حفاظت کا محتاج ہے۔ مومن اچھی طرح جانتا ہے کہ آخرت میں اللہ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے بچانے کے لئے کوئی سہارا اس کے سوا ممکن نہیں کہ آدمی اللہ کی حفاظت کا مستحق ہوجائے اور اس کی پناہ میں آجائے۔ چنانچہ جب وہ پناہ اور حفاظت کے لئے اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس کی نظر میں آخرت بھی ہوتی ہے اور وہ دنیا اور آخرت دونوں میں اللہ کی پناہ اور اللہ کی حفاظت طلب کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مومن ہر حال میں اپنے اللہ کا قرب تلاش کرتا ہے، اس کی طرف رجوع کرتا ہے، اس کی پناہ ڈھونڈتا ہے ، اس کی حفاظت میں اپنے آپ کو دے دینا چاہتا ہے ، اسی سے تعلق جوڑتا ہے، اسی کے قدموں میں خود کو ڈالتا ہے، اسی کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے، اسی سے مانگتا ہے، اسی کے آگے گڑگڑاتا ہے، اسی کی عظمت اور بڑائی کو دل میں جگہ د یتا ہے اور صرف اسی سے ڈرتا ہے۔ لفظ ’’اَعوذ‘‘ میں یہ پوری کیفیت آجاتی ہے۔ بندہ جب کہتا ہے کہ اعوذباللہ ’’میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں‘‘ تو اس فقرے میں وہ سب کیفیات آجاتی ہیں جن کی تفصیل اوپر بیان ہوئی۔ اعوذباللہ کہنے والا اپنے آپ کو بالکل اللہ کی حفاظت میں دے دینے کا اعلان کرتا ہے، ایسی حفاظت جو اسے دنیا اور آخرت دونوں جہان کی مصیبتوں سے بچانے کے لئے بالکل کافی ہو۔
ان دونوں سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے ذریعے ہمیں ’’استعاذہ‘‘کی تعلیم دی ہے۔ ایسی جامع تعلیم کہ پھر اس کے بعد اس بارے میں ہمارے لئے کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ آگے چل کر جب ان دونوں سورتوں کے الفاظ کی تشریح آپ کے سامنے آئے گی تو آپ محسوس کریں گے کہ اس مقصد کے لئے اس سے بہتر اور کوئی صورت ممکن ہی نہیں تھی۔
ان دونوں سورتوں کی یہی اہمیت اور ان کے مضامین کی یہی وسعت ہے جس کی بناء پر آپ ﷺ نے ان کے پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک بار رسولؐ اللہ نے اپنے ایک صحابی حضرت عقبہ ؓ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتادوں کہ پناہ چاہنے والوں کے لئے پناہ چاہنے کا سب سے بہتر طریقہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ضرور یارسولؐ اللہ۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا :’’قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھا کرو۔‘‘ترمذی میں آتا ہے کہ حضرت عقبہ بن عامرؓ نے فرمایا کہ رسولؐ اللہ نے مجھے حکم دیا کہ میں ہر نماز کے بعد معوذتین پڑھا کروں۔ ترمذی، نسائی وار سنن ابوداؤد میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن حبیبؓ نے فرمایا کہ ایک بار ہم بارش والی اندھیری رات میں آپؐ کی تلاش میں نکلے تاکہ حضورؐ ہمیں نماز پڑھائیں۔ آپؐ مل گئے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’کہو۔‘‘ لیکن میں نے کچھ نہ کہا ۔ حضورؐ نے پھر ارشاد فرمایا ’’کہو۔‘‘ میں پھر بھی کچھ نہ بولا۔ تب حضورؐ نے پھر ارشاد فرمایا ’’کہو‘‘ تو میں نے عرض کیا ’’کیا کہوں؟‘‘ فرمایا : ’’کہو قل ہو اللہ احد اور معوذتین ، تین تین بار شام کے وقت اور صبح کے وقت، تمہارے لئے ہر موقع اور ہر ضرورت کے لئے کافی ہے۔‘‘
بخاری اور مسلم میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ جب بستر پر تشریف لے جاتے تو قل ہواللہ احد اور معوذتین پڑھ کر دونوں ہتھیلیوں پر پھونکتے اور پھر دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر اور جسم پر جہاں تک ہاتھ جاسکتا، پھیر لیتے۔
ان تمام احادیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان سورتوں کا پڑھتے رہنا نہایت ضروری ہے اور اس سے پڑھنے والے کو بہت فائدہ حاصل ہوسکتا ہے، بالخصوص جب انسان کسی زحمت میں مبتلا ہو تو اس وقت ان کا ورد کرنا بہت مفید ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے شرط یہی ہے کہ انسان انہیں سوچ سمجھ کر پڑھے اور ذہن سے ان تمام باتوں کو نکالے جو ان سورتوں کے مضمون کے خلاف ہوں، اور ایسے کاموں سے بچے جن سے اللہ ناخوش ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں سورتیں اپنے مضمون کے اعتبار سے مومن کے لئے اتنی ضروری ہیں کہ زندگی کی مادی ضروریات کھانے پینے اور لباس کا درجہ بھی ان کے بعد ہی آتا ہے۔آگے بڑھنے اور ان سورتوں کے مضامین پر تفصیل کے ساتھ غور کرنےسے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے کی چند اور باتیں واضح کردی جائیں۔
پناہ چاہنے کا جو مفہوم ہے وہ تو ایک حد تک آپ کے سامنے آچکا، اب یہ اور سمجھ لیجئے کہ انسان جس کی پناہ چاہتا ہے اس کے بارے میں اس کا تصور کیا ہوتا ہے اور کیا ہوسکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ آدمی اسی سے پناہ چاہے گا جس کے بارے میں اسے یہ یقین ہو کہ وہ اسے اس مصیبت سے بچانے کی قدرت رکھتا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ یہ قدرت صرف اللہ تعالیٰ میں ہے، اس لئے ان سورتوں میں پناہ چاہنے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر ہوا ہے جو کسی پناہ دینے والے کے لئے ضروری ہیں، یعنی رب الفلق، رب الناس، ملک الناس اور الٰہ الناس۔ ان صفات کی تشریح آگے آرہی ہے۔ ان صفات کا ذکر کرکے انسان کے ذہن میں یہ بات بٹھائی گئی ہے کہ صرف وہی ذات جس میں یہ صفات پائی جائیں اس قابل ہے کہ پناہ چاہنے والے اس کی پناہ چاہیں اور وہی انہیں مصیبتوں سے بچا سکتی ہے ۔
تیسری بات جو اس سلسلے میں سمجھ لینے کی ہے، یہ ہے کہ وہ چیزیں جن سے پناہ چاہی جائے، کیا ہوسکتی ہیں؟ بہت سی چیزیں تو وہ ہیں جن کا آفت اور مصیبت ہونا ہر شخص جانتا ہے اور ان سے بچنے کے لئے اس کے اندر فطری طور پر ایک جذبہ موجود ہے، مثلاً بیماری، افلاس، کسی دشمن کا خوف یا دیگر آفتیں جن سے انسان دوچار ہوتا رہتا ہے ۔ لیکن مومن کی نظر میں سب سے بڑی آفت وہ گناہ ہیں جو اسے اللہ کی رحمت سے دور کرتے ہیں اور اس کے عذاب کا مستحق بناتے ہیں۔ ان سورتوں میں اس سے پناہ مانگنے کی بھی تعلیم دی گئی ہے۔ پہلی سورہ میں جن جن چیزوں سے پناہ کا ذکر ہوا ہے ان کی تشریح تو آگے آئے گی ، یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو خارج میں پائی جاتی ہیں۔ دوسری سورہ میں ان آفتوں سے پناہ چاہنے کی تلقین کی جارہی ہے جو انسان کے اندر پائی جاتی ہیں اور اس کے ذہن اور فکر کو متاثر کرتی ہیں۔
سورہ فلق کا ترجمہ ہے:
’’کہو، میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی ،ہر اُس چیز کے شر سے جو اُس نے پیدا کی ہے ،اور رات کی تاریکی کے شر سے جب کہ وہ چھا جائے اور گرہوں میں پھونکنے والوں (یا والیوں ) کے شر سے اور حاسد کے شر سے جب کہ وہ حسد کرے۔‘‘
اس سورہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ بندہ جب بھی پناہ لے تو صرف اللہ کی پناہ لے اور اللہ کا ذکر یہاں اس کی صفت کے ساتھ کیا گیا ہے وہ رب الفلق ہے۔ فلق کے معنی ہیں پھاڑنا، اسی نسبت سے صبح کو بھی فلق کہتے ہیں ۔ کیونکہ جب رات کی سیاہی پھٹتی ہے تو دن کی روشنی ظاہر ہوتی ہے بلکہ فلقط کے لفظ سے تمام ہی مخلوقات مراد لی جاتی ہیں کیونکہ ہر چیز کی پیدائش میں کسی نہ کسی طرح پھٹنے کا عمل موجود ہے۔اس سورہ میں جن چیزوں کے شر یا برائی سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ لینے کی تاکید کی گئی ہے ان میں سب سے پہلے شرّ ماخلق کا ذکر فرمایا گیاہے یعنی ہر اس چیز کی برائی جو اللہ نے پیدا فرمائی ہے۔ یہ ایک ایسا فقرہ ہے کہ اس میں تمام ہی چیزیں شامل ہیں اور اس سے باہر کسی چیز کا امکان ہی نہیں ، کیونکہ یہاں جو کچھ ہے وہ سب اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بعض چیزیں تو ایسی ہیں جن کا شر ظاہر ہوتا ہے اور ہم سب اسے جانتے ہیں ۔ مثلاً یہ کہ وہ ہمیں تکلیف پہنچاتی ہیں یا ہمارے لئے غم اور الم کا سبب بنتی ہیں ۔ لیکن بہت سی چیزیں ایسی بھی ہیں جن میں ہمیں بظاہر کوئی شر نظر نہیں آتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں بھی شر کا پہلو موجود ہوتاہے اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان چیزوں کے شر سے بھی بچنے کے لئے اللہ کی پناہ لیں۔
دوسری چیز جس کے شر کا ذکر اس سورہ میں کیا گیا ہے وہ شرّ غاسق اذا وقب ہے۔ غاسق، اندھیری رات کو کہتے ہیں اور جب اندھیری رات اچھی طرح پھیل جاتی ہے تو اس کا شر بھی بڑھ جاتا ہے۔ رات کے پردے میں بے شمار اور طرح طرح کی برائیاں چھپی ہوتی ہیں ۔ کہیں رات جان و مال کے لئے خطرہ بن کر آتی ہے اور کہیں شیطانی کاموں کے لئے آسانیاں فراہم کرتی ہے۔ رات کے شر کا تصور ہر زمانے اور ہر مقام کے لحاظ سے الگ الگ کیا جاسکتا ہے۔
تیسری چیز جس میں شر کا ذکر اس سورہ میں ہے وہ گرہوں (گنڈوں ) پر پھونکنے والیوں کا شر ہے۔ اس سے مراد جادو ہے۔ جادو کرنے والی عورتیں اور مرد کچھ ناپاک روحوں اور شیاطین کی مدد سے ایسے عملیات کرنے لگتے ہیں جن سےدوسروں کو نقصان پہنچایا جاسکے۔ ایسی چیزوں کے شر سے بچنے کے لئے کچھ لوگ عاملوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اورچاہتے ہیں کہ جادو کا توڑ جادو سے کیا جائے۔ اس سورہ میں ہمیں یہ تعلیم دی جارہی ہے کہ اس قسم کے شر سے بچنے کے لئے عملیات کا سہارا لینادرست نہیں بلکہ مومن کے لئے صحیح طریقہ صرف ایک ہے کہ وہ اللہ کی پناہ چاہے اور ان چیزوں کے شر سے بچنے کے لئے صرف اسی کی مدد کا طالب ہو۔
چوتھی چیز جس کے شر کا ذکر کیا گیا ہے وہ حسد کرنے والے کا حسد ہے۔ حسد دل کی اس کیفیت کا نام ہے کہ ایک شخص دوسرے کے پاس اللہ کی کسی نعمت کو دیکھے تو اسے دیکھ کر دل میں کڑھے اور یہ چاہے کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے یا اس کے بدلے مجھے مل جائے۔ دل کی یہ بیماری دراصل ذہن کی ایک بڑی خرابی کا پتا دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حسد کرنے والا یہ نہیں مانتا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل بہت وسیع ہے کیونکہ اگر وہ یہ مانتا تو وہ یہ خواہش بھی کرسکتا تھا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے نعمت سے نوازا ہے وہ مجھے بھی عطا کرے۔ پھر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حسد کرنے والا اللہ تعالیٰ کی حکمت، تدبر اور رحمت پر ایمان نہیں رکھتا ورنہ اسے یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ یہ اس کی حکمت، تدبیر اور رحمت کا تقاضا ہے کہ اس نے اپنے کسی بندے کو اپنی کسی نعمت سے نوازا ہے۔ ذہن کی اس خرابی کی وجہ سے انسان کے دل میں کینہ پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں وہ ایسی تدبیریں سوچنے لگتا ہے جن سے کام لے کر وہ اس شخص کو نقصان پہنچائے جسے اللہ نے اپنی نعمتیں دی ہیں ۔ یہ جذبہ انسان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے حسد کی آگ کو بجھانے کے لئے دوسرے کو برباد کرنے کی صورتیں پیدا کرے۔
حسد سے بچنے کے لئے سب سے زیادہ مفید تدبیر یہی ہے کہ آدمی اپنے ایمان کو تازہ کرے ۔ اسی سے صحیح فکر پیدا ہوتی ہے اور آدمی دل کی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔
جہاں تک دوسروں سے حسد کرنے کا تعلق ہے ، اس کے بارے میں ہمیں اس سورہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ہم اس کے شر سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ کوکافی سمجھیں اور ہر وقت اسی سے یہ لو لگائیں کہ جب اس نے ہمیں اپنی نعمتوں سے نوازا ہے تو وہ ہمیں ان لوگوں کے شر سے بھی محفوظ رکھے جو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو دیکھ کر جلتے ہیں اور ہمیں نقصان پہنچانے کے در پے ہوتے ہیں ۔ عام طور پر جب ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص ہمارے پاس اللہ کی کسی نعمت کو دیکھ کر جل رہا ہے اور وہ ہمارا برا چاہ رہا ہے تو ہمارے دل میں اس کے خلاف نفرت اور انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ ایسے جذبات سے دل کو خالی رکھنے کی کوشش کرنا چاہئے اور اس شخص کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہوئے اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ کی پناہ لینا چاہئے۔ یہی بات ہمیں اس سورہ میں سکھائی گئی ہے۔
معوذتین کی دوسری سورہ ، سورہ الناس ہے جس کا ترجمہ ہے:
’’آپ عرض کیجئے کہ میں (سب) انسانوں کے رب کی پناہ مانگتا ہوں ، جو (سب) لوگوں کا بادشاہ ہے، جو (ساری) نسلِ انسانی کا معبود ہے، وسوسہ انداز کے شر سے جو (اﷲ کے ذکر کے اثر سے) پیچھے ہٹ کر چھپ جانے والا ہے، جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے، خواہ وہ جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔‘‘
اس سورہ میں بھی یہی تعلیم دی گئی ہے کہ بندہ صرف اللہ کی پناہ لے۔ یہاں اللہ کی تین صفتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ وہ تمام لوگوں کا رب ہے ، دوسرے یہ کہ وہ تمام لوگوں کا مالک اور بادشاہ ہے اور تیسرے یہ کہ وہ لوگوں کا الٰہ ہے۔جو شخص اللہ تعالیٰ کو ان صفات کے ساتھ مانتا ہے وہ تو اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اسے چھوڑ کر وہ کسی دوسرے کی پناہ لے ۔ اسی طرح اس کی دوسری صفت پر غور کیجئے۔ جب ہم اسے بادشاہ مانتے ہیں تو اس کا مطلب یہی تو ہے کہ سارے معاملات کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں ہے ، ہم اس کے بندے اور غلام ہیں ، ہمارے معاملات میں وہ جس طرح چاہتا ہے طے فرماتا ہے اور وہی بادشاہی اور حکمرانی کا مستحق ہے اور اسی لئے ہر مصیبت کے وقت ہم اسی سے مدد مانگتے ہیں ، اسی کو پکارتے ہیں ۔ اس یقین اور ایمان کے بعد کسی دوسرے کی پناہ لینا کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے؟
یہی حال تیسری صفت کا ہے۔ وہ ہمارا الٰہ ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہماری تمام حاجتیں وہی پوری کرتا ہے اور مصیبتوں اور خطروں کے وقت وہی ہمیں پناہ دیتا ہے۔ بے چینی میں سکون عطا فرمانا اسی کا کام ہے اور اسی لئے وہ اس کا مستحق ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں ، اس کے آگے سر جھکائیں ، ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوں اور اسی کے لئے اپنی نذر و نیاز پیش کریں ۔
اس سورہ میں جس چیز سے پناہ چاہنے کی ترغیب دی گئی ہے وہ بڑی اہم ہے ، کیونکہ اسی کی وجہ سے انسان گناہ میں مبتلا ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ جو چیز انسان کو گناہ میں مبتلا کرے اس سے بڑا شر اور کس چیز کا ہوسکتا ہے؟
اس سورہ میں جس چیز کے شر سے بچنے کی تعلیم دی گئی ہے وہ الوسواس الخناس ہے۔ وسواس اسے کہتے ہیں جو وسوسہ ڈالے۔ وسوسہ دل میں آنے والے برے خیال کو کہتے ہیں ۔ شیطان کا کام یہی بتایا گیا ہے کہ وہ انسان کے دل میں برے خیالات ڈالا کرتا ہے۔ خود انسان کا نفس بھی ایسے خیالات کا سبب بنتا ہے۔ ان ہی کو وسوسہ کہتے ہیں ۔ یہاں اس طرح وسوسہ ڈالنے والے کی صفت خنّاس آئی ہے۔ خناس اسے کہتے ہیں جو ظاہر ہو اور چھپ جائے۔ ان وسوسوں کی حیثیت بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے ، آپ کے دل میں ایک وسوسہ آتا ہے ، اگر آپ فوراً اللہ کو یاد کریں یا اس سے پناہ چاہیں تو وہ فوراً غائب ہوجاتا ہے، جیسے کوئی چھپا ہوا سانپ بل سے منہ نکالے اور پھر فوراً دبک جائے۔ اور پھر جب اللہ کے ذکر سے آپ کا دل غافل ہوجاتا ہے تو پھر وہ وسوسہ آنے لگتا ہے۔ اسی بار بارچھپنے اور ظاہر ہونے والے کو خناس کہتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے شیطان کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ بندے کے دل میں وسوسہ ڈال سکے لیکن اسےیہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ بندے سے کوئی غلط کام کرا بھی لے۔ دل میں برا خیال آنے کے بعد بندے کو اختیار حاصل ہے کہ وہ چاہے تو اس خیال کے مطابق برائی میں مبتلا ہوجائے اور چاہے تو بچ جائے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے یہاں دل میں برا خیال آنے پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ خیال کے مطابق عمل کرنے پر پکڑ ہوگی۔ (آسان تفسیر)