Inquilab Logo

ساٹھ برسوں سے راج کرتا مغل اعظم

Updated: August 09, 2020, 3:27 PM IST | Prof Syed Iqbal

فلم کا کریڈٹ کے آصف کی ہدایتکاری کوجاتا ہے مگر اس کریڈٹ میں مکالموں، گیتوں اور موسیقی کا بھی اتنا ہی حصہ ہے۔ مغل اعظم کے مکالمے اس وقت تو قبول ہوئے ہی تھے، پرانی نسل کو آج تک ازبر ہیں۔ امان اللہ خان ، وجاہت مرزا، احسن رضوی اور کمال امروہوی نے مل کر ایسے مکالمے تحریر کئے ہیں کہ لگتا ہے کہ ان موقعوں پر ان کرداروں نے یہی کہا ہوگا۔ ایک طرف اکبر کے شایان شان پر شکوہ مکالمے لکھے گئے ہیں تو دوسری طرف سلیم اور انارکلی کیلئے اتنی ہی شاعرانہ زبان استعمال کی گئی ہے

Mughal e azam - PIC : INN
مغل اعظم ۔ تصویر : آئی این این

کریم الدین آصف کو بڑی  تلاش کے بعد بھی جب اپنے تصور کی انارکلی نہیں ملی تو انہوں نے ایک اشتہار شائع کروایا کہ ۱۶؍ سال سے ۲۲؍ سال کی عمر کی کوئی لڑکی انارکلی کا کردار نبھانا چاہتی ہو تو اپنے متعلق تفصیلات اور ایک عدد تصویر کے ساتھ درخواست بھیج دے۔ اس اشتہار  کے جواب میں ہزار ہا درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے۸؍ لڑکیوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا۔ دلیپ کمار جنوبی ہند کی ایک اداکارہ وجے لکشمی  میں انارکلی کا روپ دیکھ رہے تھے اور آصف کو نرگس پسند تھیں۔ جب نرگس سے بات کی گئی تو انہوں نے انکارکردیا۔ اس کے بعد قرعۂ فال نوتن کے نام نکلا مگر انہوں نے بھی یہ کہہ کر انکارکردیا کہ وہ خود کو اس رول کی اہل نہیں سمجھتیں  البتہ ان کے نزدیک نرگس یا مدھوبالا  میں سے کوئی ایک اس رول کو ادا کرنے کیلئے مناسب ہے۔ اس دوران کئی ہیروئنوں نے خود ہی آگے بڑھ کر انار کلی بننے کی خواہش ظاہر کی۔ اس وقت مدھوبالا کے آصف سے ناراض تھیں مگر جب وہ ان سے ملنے گئیں تو آصف کو لگا انہیں اپنی پسند کی انارکلی مل گئی۔ یہ بات  بھی کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ ۱۹۴۵ء میں مغل اعظم کی مہورت پر سلیم کے رول کیلئے چندر موہن، انارکلی کیلئے نرگس اور اکبر کے رول کیلئے سپرو کے ناموں کا اعلان ہوچکا تھا۔ یہ بات بھی بہت دنوں بعد پتہ چلی کہ آصف سلیم کے کردار کیلئے دلیپ کمار میں شاہانہ آن بان تو دیکھتے تھے مگر ان کے نزدیک دلیپ کمار کی صحت اور ڈیل ڈول ایک مغل شہزادے پر پوری نہیں اُترتی تھی پھر بھی انہیں یقین تھا کہ فلم سازی کے دوران دلیپ کمار اتنے تنومند ہوجائیں گے ۔ حلیہ بشرے سے اس رول کیلئے مناسب نظر آئیں۔ مغل اعظم کی کہانی پہلی بار کمال امروہوی نے آصف کو ان کی فلم ’پھول ‘ کی شوٹنگ کے دوران سنائی تھی اوریہ بھی کہا تھا کہ لاہور کے ایک ادیب (امتیاز علی تاج) نے انارکلی کو بنیادی کردار بناکر ایک ڈراما تخلیق کیا ہے۔  برسبیل تذکرہ ، سلیم اور انارکلی کے عشق پر مبنی یہ کوئی پہلی فلم نہیں تھی۔ خاموش فلموں کے دور میں اردیشر ایرانی اور چودھری نامی پروڈیوسرز نے بھی اس عنوان سے فلمیں بنائی تھیں اور ایک فلم میں امتیاز علی تاج نے بھی چھوٹا سا کردار نبھایا تھا۔
 مغل اعظم کے نام کے ساتھ شاپور جی پالن جی مستری کا نام بھی لیاجاتا ہے جنہوںنے اس فلم کی تیاری میں کروڑہا  روپے خرچ کئے تھے مگر شیراز علی حکیم نامی ایک کاروباری اس کے پہلے پروڈیوسر تھے جو قیمتی سنے بلڈنگ اور ملاڈ کے بمبئی اسٹوڈیو کے مالک تھے مگر۸؍ ریل بننے کے بعد بدقسمتی سے جب ملک کا بٹوارہ ہوا تو محمد علی جناح سے ان کے تعلقات کے سبب ایسی فضا تشکیل دی گئی کہ انہیں سارا کاروبار چھوڑ کر پاکستان ہجرت کرنے ہی میں عافیت نظر آئی۔ نتیجتاً کے آصف اپنے فنانسر سے محروم ہوگئے اور اپنے خوابوں کی کرچیاں سمیٹ کر کسی دوسرے فنانسر کی تلاش  میں نکل پڑے۔ یہ بات بھی بڑی تعجب خیز  ہے کہ شاپورجی مستری سیٹھ کو فلموں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہاں! وہ کبھی کبھار بمبئی کے اوپیرا ہاؤس  میں ڈرامے دیکھنے ضرور جاتے تھے جہاں ان کے دوست پرتھوی راج کپور ڈرامے کیا کرتے تھے۔ اسے بھی اتفاق کہئے کہ شیراز علی حکیم نے ہجرت سے قبل اپنی پراپرٹی  مستری سیٹھ کوہی فروخت کی تھی۔ شاپور جی اور آصف کا فنانس کے حوالے سے اکثر جھگڑا بھی ہوجاتا مگر پھر وہ اپنے ’بیٹے ‘ آصف کی بات مان جاتے اور فلم ایک بار پھر شروع ہوجاتی۔ اپنے خوابوں کی فلم بنانے میں آصف نے۹؍سال صرف کئے تھے اور اتنی شوٹنگ کردی تھی کہ اس سے مزید تین فلمیں بن سکتی تھیں۔ ساتھ ہی فلم سازی کے دوران اسٹوڈیو میں اتنا سامان جمع ہوچکا تھا کہ ایک معروف پروڈیوسر نے اس سامان کو اونے پونے خرید کر ایک فلم بناڈالی تھی۔
 موسیقار نوشاد علی نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ دلیپ کمار اور مدھو بالا کے آخری سین میں جب انارکلی سلیم کو زہر آلود پھول سونگھاتی ہے، اس وقت وہ  بیگ گراؤنڈ میں کلاسیکی راگ پیش کرنا چاہتے تھے۔ اس کیلئے  انہوںنے بڑے غلام علی خاں کا انتخاب کیا تھا لیکن خان  صاحب نے فلموں میں گانے سے صاف انکارکردیا۔ نوشاد جب مایوس لوٹ آئے اور آصف سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا تو آصف جو مغل اعظم کیلئے کسی طرح کی ’مصالحت ‘ میں یقین نہیں رکھتے تھے ، نوشاد کو ایک بلینک چیک  دیا تاکہ خان صاحب اس پر اپنی من پسند رقم لکھ کر گانے کیلئے راضی ہوجائیں... اور پھر خان صاحب ریکارڈنگ کیلئے  راضی ہوگئے۔ جیل کے سیٹ پر مدھوبالا کو مغلیہ عہد کی جو زنجیریں پہنائی گئی تھیں، اس کے بوجھ سے وہ بیمار ہوگئی تھیں۔ اسی طرح دلیپ کمار کو شہزادے کا روپ دینے کیلئے خصوصی وِگ فرانس سے منگوائی گئی تھی۔ شیش محل کا سیٹ بنوانے کیلئے شیشے بلجیم  سے لائے گئے تھے اور یہ اتنا عالیشان سیٹ بناتھا کہ چاروں طرف شیشوں کی موجودگی سے کیمرہ مین کیلئے شوٹنگ کرنا دشوار ہوگیاتھا لہٰذا ہالی ووڈ اور بمبئی کے نامی گرامی ہدایتکاروں اور فوٹو گرافرز کو بلایا گیامگر سب کی رائے یہی تھی کہ کسی بھی زاویے سے شیش محل میں شوٹنگ کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ کیمرہ کہیں  نہ کہیں ضرور دکھائی دے گا مگر آصف نے دنیا کو دکھادیا کہ وہ ناممکن کو ممکن بناسکتے ہیں۔
  یہ آصف کی دیوانگی تھی جس نے ان سے مغل اعظم ایسی فلم بنوائی بلکہ فلم مورخین کہتے ہیں کہ ایسی فلم نہ آج تک بنی ہے اور نہ مستقبل میں بن پائے گی کیونکہ کچھ فلمیں بنائی نہیں جاتیں، وہ اپنے آپ بن جاتی ہیں۔ کے آصف کیلئے مغل اعظم ایک خواب اور ایک مقصد حیات تھا جس کیلئے وہ ہر طرح کی قربانی دینے کو تیارتھے۔  انہوںنے کوئی بنگلہ بنایا، نہ کار خریدی ،  سادہ سے کرتے اور پاجامے میں زندگی گزار دی اور ہمیشہ ٹیکسی میں سفر کرتے رہے۔ مگر مغل اعظم کیلئے کروڑ ہا روپے خرچ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ شاپورجی کو جب انہوںنے فلم کی کہانی سنائی اورکچھ اس طرح سے سنائی کہ وہ اس کی جادوگری میں گرفتار ہوگئے  (منٹونے لکھا ہے کہ آصف کا مسحورکن Narration کسی کو نہیں بخشتا)۔ کہانی سنانے سے پہلے آصف اوپیرا ہاؤس جاتے رہے تھے اور شاہ پور جی سے دوستی بھی گانٹھ لی تھی۔ انہیں پتہ  تھا کہ یہ سیکولر پارسی شہنشاہ اکبر کا عاشق ہے اور پرتھوی راج کو بھی پسند کرتا ہے۔ آصف کی یہ فلم سلیم ۔ انارگلی کے عشق کی کہانی کے بجائے دراصل ایک عظیم شہنشاہ کے کشمکش کی داستان ہے۔ (کسی موقع پر دلیپ کمار کو احساس ہوا کہ فلم میں ان کے مکالمے اکبر اعظم کے مکالموں کے سامنے کچھ کمتر ہیں تو انہوںنے آصف سے شکایت کی، اس پر آصف کا جواب یہی تھا کہ میں مغل اعظم بنا رہا ہوں، سلیم اعظم نہیں)۔ یہ ایک ایسے باپ کی کہانی ہے جو جنگ سے پہلے اپنے بیٹے کے سامنے ( جو حضرت سلیم چشتی ؒ کی دعاؤں کا ثمرہ ہے) سرجھکا لیتا ہے تاکہ بیٹے کی ضد پوری ہوسکے مگر جب اڑیل شہزادہ اپنی محبت کو ہندوستان کی سلطنت پر فوقیت دیتا نظر آتا ہے تو وقت کے بادشاہ کو اپنے وارث کی گمراہی ناگوار گزرتی ہے اور وہ اس کی محبت کو دیوار میں زندہ چنوا دیتا ہے۔ اگر بہار کے توسط سے محلات کی سازشوں کو دکھایا گیا ہے تو سنگ تراش عوامی مخالفت کا نمائندہ بن کر جلوہ گر ہوتا ہے۔ وہ واحد کردار ہے جس کا کوئی نام نہیں۔ وہ ایک عام آدمی بھی ہوسکتا ہے اورکسی تحریک کا قائد بھی۔ تاریخ کے ہر دور میں حکومت وقت کے مخالفین کو سرکاری عتاب کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ کبھی یہ ہاتھی کے پیروں تلے روندے جاتے تھے اورآج عقوبت خانوںمیں ٹھونس دیئے جاتے ہیں۔ فلم میں سنگ تراش کا کردار اسی مخالفت کا ایک طاقتور نمائندہ ہے۔ اسی طر ح ایک راجپوت سردار کی شہزادے سلیم سے دوستی اور وفاداری کا اظہار اس وقت کے معاشرے کا عکاس ہے جب ہندو مسلم بھائی چارہ عام تھا اور دوستی کی خاطر لوگ اپنی جان تک دے دیا کرتے تھے۔ 
 بلاشبہ اس فلم کا کریڈٹ کے آصف کی ہدایتکاری کوجاتا ہے مگر اس کریڈٹ میں مکالموں، گیتوں اور موسیقی کا بھی اتنا ہی حصہ ہے۔ مغل اعظم کے مکالمے اس وقت تو قبول ہوئے ہی تھے، پرانی نسل کو آج تک ازبر ہیں۔ اگر فلم شعلے کے مکالموں کے کیسٹ لاکھوں میں بکے تھے تو مغل اعظم کے کیسٹ بھی لاکھوں میں بکتے۔  امان اللہ خان ، وجاہت مرزا، احسن رضوی   اور کمال امروہوی نے مل کر ایسے مکالمے تحریر کئے ہیں کہ لگتا ہے کہ ان موقعوں پر ان کرداروں نے یہی کہا ہوگا۔ ایک طرف اکبر کے شایان شان پر شکوہ مکالمے لکھے گئے ہیں تو دوسری طرف سلیم اور انارکلی کیلئے اتنی ہی شاعرانہ زبان استعمال کی گئی ہے۔ (ہمارے کچھ دوست سلیم کا انار کلی کولکھا خط آج بھی اسی محبت سے دُہراتے ہیں) آج بھی نوشاد کی موسیقی میں ترتیب دیئے ہوئے شکیل بدایونی کے گیت بھلائے نہیں بھولتے۔  پھر چاہے لتا اور شمشادکی گائی ہوئی قوالی ہو یا محمد رفیع کا گایا ہوا ’زندہ باد‘ ....فلم کے نغمے اتنے رسیلے ہیں کہ آج کی ہنگامہ خیز موسیقی کے زمانے میں بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ فلم کی کامیابی میں اس کا اسکرین پلے غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے، اسی لئے ۶۰؍ سال بعد بھی یہ فلم تیز رفتار اور منطقی لگتی ہے۔ جس کسی نے مغل اعظم دیکھی ہے، وہ سلیم کی آمد کا سین، آدھی رات کو انار کلی کے مجسمہ کا سلیم کو سلام کرنا، سلیم کا انار کلی سے ملنے اچانک اس کے گھر چلے جانا، اکبر کا طویل راہداریوں سے گزر کر سلیم اور انار کلی کو اچانک باغ میں دیکھ لینا، رانی جودھا بائی کی ہاتھ سے تلوار کا گرجانا، اکبر کا انارکلی کو سلیم کو قید کرنے کیلئے تیار کرانا اور انارکلی کا اکبر کو اپنا خون معاف کردینا اور سلیم اور انارکلی کی قربت کا آخری سین   ایسے ناقابل فراموش مناظر ہیں کہ جن سے فلم کا تاثر گہرا ہوتا جاتا ہے۔
 ۱۹۶۰ء  میں جب مراٹھا مندر میں اس کی نمائش ہوئی (۵؍ اگست ۶۰ء) کو بکنک آفس کے باہر شائقین نے بستر لگادیئے تھے اور ہفتہ بھر کی بکنک چند گھنٹوں میں مکمل ہوجاتی تھی۔ بلیک کرنے والوں کی تو چاندی ہی چاندی تھی۔ دس روپے کا ٹکٹ سیکڑوں روپے میں بلیک ہوتا تھا اور سارا شہر مغل اعظم دیکھنے امڈا چلا آتا تھا۔ مراٹھا مندر کی تعمیر کرنے والے راجستھان کے ایک کاروباری مہتاب سنگھ گولچا کی خواہش کی تھی کہ ان کے تھیٹر کا افتتاح مغل اعظم سے ہومگر فلم بننے میں اتنی دیر لگ گئی کہ انہیں مجبوراً دیگر فلموں کو تھیٹر دینا  پڑا مگر آصف سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ گولچا سیٹھ ہر نئی فلم کے کنٹریکٹ پر یہ ضرور لکھوالیتے تھے کہ جس دن مغل اعظم ریلیز کیلئے تیار ہوگی آپ کو اپنی فلم اتارنی ہوگی۔ اتفاقاً ۱۹۶۰ء  میں پاکستانی کرکٹ ٹیم بھی ممبئی آئی ہوئی تھی اور کپتان فضل محمود اپنی ٹیم کے ساتھ مغل اعظم دیکھنا چاہتے تھے مگرساری کوششوں کے بعد بھی انہیں ٹکٹیں نہیں مل رہی تھیں۔ کسی طرح یہ بات گولچا سیٹھ کے کانوں تک پہنچی۔ انہوںنے فوراً ٹیم کو تھیٹر  پر مدعو کیا اور تھیٹر کے انتظامیہ سے کہا کہ جب بھی کوئی پاکستانی اپنا پاسپورٹ لے کر تھیٹرآئے، اسے سب سے پہلے ٹکٹ دیاجائے کیونکہ ان دنوں پاکستانیوںکی ایک بڑی تعداد صرف مغل اعظم دیکھنے کیلئے ویزا لے کر بمبئی آئی تھی۔ آج اس طرح کی فراخدلی کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔
 کے آصف نے فلم کی ابتداء ہندوستان کے نقشے سے کی ہے جس میں ہندوستان خود اپنا تعارف کرواتا ہے۔’’ میں ہندوستان ہوں۔ ہمالیہ میری سرحدوں کا نگہبان ہے اور گنگا میری پوترتا کی سوگندھ۔‘‘ کیا آج فرقوں اور گروہوں میںمنقسم کوئی ہندوستانی دل سے یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ ایسا ہی ہندوستان ہے جس کی سرحدوں کی نگہبانی ہمالیہ کرتا ہے اور گنگا اس کے تقدس کی قسمیں کھاتی ہے ؟ مغل اعظم کے ۶۰؍ سال کے کامیاب سفر کی شاید یہی وجہ ہے کہ یہ فلم ان اچھے دنوں کی کہانی سناتی ہے جب لوگ ایک دوسرے سے واقعی محبت کرتے تھے اوراپنے معاملات کسی خاص عینک سے نہیں دیکھتے تھے..... اور تاریخ شاہد ہے کہ وہی تخلیق لافانی بن جاتی ہے جو زبان ومکان سے پرے ہوتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK