Inquilab Logo

مرمو بمقابلہ سنہا: کیا ہے امکان؟

Updated: July 19, 2022, 11:38 AM IST | Mumbai

 صدارتی الیکشن کیلئے اراکین پارلیمان اور اراکین اسمبلی متعلقہ پولنگ بوتھوں پر اپنا ووٹ دے چکے ہیں اور اب انتظار ہے ۲۱؍ جولائی کا جب ووٹوں کی گنتی کے بعد یہ ظاہر کیا جائے گا کہ کون جیتا، این ڈی اے کی جانب سے نامزد اُمیدوار دروپدی مرمو یا اپوزیشن کے تائید یافتہ اُمیدوار یشونت سنہا۔

Yashwant Sinha And Draupadi Murmu. Picture:INN
دروپدی مرمواور یشونت سنہا۔ تصویر: آئی این این

 صدارتی الیکشن کیلئے اراکین پارلیمان اور اراکین اسمبلی متعلقہ پولنگ بوتھوں پر اپنا ووٹ دے چکے ہیں اور اب انتظار ہے ۲۱؍ جولائی کا جب ووٹوں کی گنتی کے بعد یہ ظاہر کیا جائے گا کہ کون جیتا، این ڈی اے کی جانب سے نامزد اُمیدوار دروپدی مرمو یا اپوزیشن کے تائید یافتہ اُمیدوار یشونت سنہا۔ اس مختصر کالم میں ہم اپنے قارئین کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ صدارتی انتخاب کا طریقۂ کار کیا ہے، اراکین پارلیمان کے ووٹوں کی قدر (ویلیو) کتنی ہوتی ہے اور ملک بھر کی الگ الگ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی قدر کتنی، مگر اتنا ضرور بتا سکتے ہیں کہ ۷۷۶؍ اراکین لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں سے ہر ایک کے ووٹ کی قدر ۷۰۰؍ ہے اور اگر تمام ایم پیز ووٹ دیں تو مجموعی قدر ۵؍ لاکھ ۴۳؍ ہزار ۲؍ سو ہوگی جبکہ اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی مجموعی قدر ۵؍ لاکھ ۴۳؍ ہزار ۲۳۱؍ ہے۔ اس طرح تمام اراکین پارلیمان و اسمبلی کے ووٹوں کی مشترکہ قدر ۱۰؍ لاکھ ۸۶؍ ہزار ۴۳۱؍ ہے۔ گزشتہ روز ووٹنگ کا وقت مکمل ہونے کے بعد بتایا گیا کہ ۹۹ء۱۸؍ فیصد پولنگ ہوئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ محض چند اراکین پارلیمان و اسمبلی ووٹ نہیں دے سکے ہیں ورنہ تمام نے ملک کے ۱۵؍ ویں صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے ووٹ دیا ہے۔ چونکہ بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے کے اراکین کی تعداد زیادہ ہے اس لئے یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ این ڈی اے کی اُمیدوار دروپدی مرمو انتخاب جیت جائیں گی مگر اس الیکشن میں چونکہ وہپ جاری نہیں ہوتی اور ووٹ دہندگان کو پارٹی لائن سے اُٹھ کر اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دینے کا حق اور اختیار حاصل ہوتا ہے اس لئے ایک موہوم سی اُمید یہ ہے کہ اپوزیشن کا اُمیدوار بھی جیت سکتا ہے یعنی یشونت سنہا۔  ہم نے موہوم اُمید اس لئے کہا ہے کہ اب پارٹی لائن سے اوپر اُٹھ کر ضمیر کی آواز پر ووٹ دینے کی روایت تقریباً ختم ہوچکی ہے، اراکین پارلیمان و اسمبلی پارٹی لائن ہی پر چلتے ہیں۔ اگر ان میں سے مٹھی بھر لوگ پارٹی لائن سے ہٹے بھی تو جو پلڑا بھاری ہے اُس طرف جائینگے۔ اس لئے بہت ممکن ہے کہ اپوزیشن کے بعض ووٹ این ڈی اے کو مل جائیں مگر اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ حکمراں اتحاد کے ووٹ کھسک کر اپوزیشن کے اُمیدوار کی طرف آجائیں۔ یہ ہماری قومی سیاست کا افسوسناک پہلو ہے کہ بہت سے لوگوں کو، خواہ وہ ایم پی اور ایم ایل اے ہی کیوں نہ ہوں، جمہوری قدروں کو بالائے طاق رکھنے میں کچھ تکلف نہیں ہوتا۔  جہاں تک صدر جمہوریہ کے اُمیدواروں (دروپدی مرمو اور یشونت سنہا) کا تعلق ہے، دونوں ہی نے ملک کی متعدد ریاستوں کا دورہ کیا اور الیکٹورل کالج کے ممبران سے ملاقات کی۔ منظر عام پر آنے والی ان ملاقاتوں کی رپورٹوں اور ویڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں اُمیدواروں میں ایک فرق بہت واضح تھا۔ دروپدی مرمو کی ملاقاتیں رسمی تھیں جبکہ یشونت سنہا کی ملاقاتوں پر ملک کے مسائل کا تذکرہ، اُن کے تعلق سے تشویش اور اُنہیں حل کرنے کا عزم حاوی تھا۔ وہ اُمیدوار نہ ہوتے تو ممکن تھا کہ نہ تو انتخابی مہم چلتی نہ ہی مسائل زیربحث آتے۔ یشونت سنہا نے، جو مالیات اور اُمور خارجہ کے مرکزی وزیر رہ چکے ہیں، معاشی اُمور و مسائل اور آئین کو لاحق خطرات پر تفصیلی گفتگو کی اور یہ بتایا کہ اگر اُنہیں صدر بننے کا موقع ملا تو اُن کا طرز عمل کیا ہوگا، ترجیحات کیا ہوں گی اور کس طرح وہ خود کو ایک فعال اور غیر جانبدار صدر کے طور پر پیش کرسکیں گے مگر، افسوس کہ اُن کا جیتنا بہت مشکل ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK