Inquilab Logo

نرگس اور سنیل دت : کچھ کہی کچھ اَ ن کہی

Updated: September 28, 2020, 8:47 AM IST | Shahid Nadeem

نرگس کی کئی سوانح آچکی ہیںمگر کسی میں بھی سنیل دت کی بات شامل نہیں تھی اوریہ ان کی خواہش تھی کہ کوئی ایسی کتاب آئے جس میں حقیقت سامنے آئے، ’ڈارلنگ جی‘ ان کے آپسی رشتوں کی اصل کہانی ہے

Darlingji
سنیل دت اور نرگس کی حیات و خدمات پر کشور دیسائی کی تحریر کردہ کتاب ڈارلنگ جی

  اب یہ بات عام ہوچکی ہے کہ نرگس اور راج  کپور کے تعلقات کی نوعیت کیا تھی۔ سنیل دت کی شدید خواہش تھی کہ حقیقت کو اب سامنے آجانا چاہئے،  یوں تو نرگس کی کئی سوانح آچکی ہیںمگر کسی میں بھی سنیل دت کی بات کوشامل نہیں کیا گیا۔ ’ڈارلنگ جی‘  ان کے آپسی رشتوں کی اصل کہانی بیان کرتی ہے۔کشور دیسائی کہتی ہیں کہ میں اپنے شوہر لارڈمیگھ ناددیسائی کے ساتھ اس موضوع پر لکھنا چاہتے تھے ، ہم سنیل دت  سے ملے ۔انہوںنے کہا کہ ہرسوانح نرگس اور راج کپور کی بات کرتی ہے۔ یہ محض دیوانگی ہے ، سنیل دت اس پر توجہ مرکوز کرانا چاہتے تھے۔ وہ دراصل اپنی بیوی کی سوانح پر غور کررہے تھے ، پہلے کی لکھی ہوئی بیشتر سوانح  سے وہ مطمئن نہیں تھے ۔ مسز دت کے  بارے میں مزید معلومات فراہم کرنا چاہتے تھے مگر بدقسمتی سے مئی ۲۰۰۵ء میں وہ نہیں رہے۔ کشور اور میگھ ناد، ا سے مشترکہ طور پر لکھنا چاہتے تھے، مگر ان دنوں وہ مصروف ہوگئے (وہ دلیپ کمار پر کتاب لکھ  رہے تھے، ) کشور بتاتی  ہیں میں فلمی دنیا کے لوگوں سے ملی جو دت صاحب اور ان کے بچوں پر یا ، نمرتا اور سنجے کے قریب تھے اوران کی زندگی سے  واقف  تھے۔ میں نے پچاس گھنٹہ سے  زیادہ ریکارڈ کیا۔ بچوں نے اپنی ڈائری فراہم کی ، خطوط ، اخباری تراشے اور ذاتی کاغذات حاصل کئے ، نرگس کے خیالات اور احساسات کا اندازہ  ان کی ڈائریوں سے ہوا۔‘‘
  مدر انڈیا کے آگ والے واقعہ کے بارے میں کتاب کے ایک باب ’ رادھا اور برجو‘ میں وہ لکھتی ہیں نرگس آگ سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کر رہی تھیں، بعد میں انہوںنے بتایا کوئی طاقت ان سے کہہ رہی تھی کہ وہیں ٹھہری رہیں کوئی انہیں بچالے گا ۔ مگر  جب سنیل ان تک پہنچے تو انہوںنے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ دونوں بری طرح جل چکے تھے، سنیل کا سینہ اور چہرہ اور ان کے ہاتھ جل چکے تھے، اس وقت ان کی (نرگس ) عمر صرف اٹھائیس برس کی تھی ، دونوں کے لئے بمبئی کا سفر دور تھا۔ محبوب خاں نے علاج کے لئے انہیں اپنے گاؤں بلموریہ روانہ کردیا، جو ۳۵؍  میل پرتھا۔ چند دردکُش دواؤں  کے بعد نرگس بہتر محسوس کررہی تھیںمگر جب سنیل کے کمرے میں گئیں تو گھبرا گئیں، انہیں تیز بخار تھا، نیم بے ہوشی کے عالم میں تھے۔ نرگس کو احساس ہوا کہ آگ کے دوران رکے رہنا ان کی اس حالت کا ذمہ دار ہے، وہ پاس بیٹھ گئیں ان کی دیکھ بھال کرنے ، دوائیں دینے اور بھیگی  پٹی بدلنے میں لگ گئیں۔ وہ دن رات پاس بیٹھی رہیں ۔ ان کے احتیاط اور آرام کا خیال رکھتیں اور ان کی آنکھ کھلنے کا بے چینی سے انتظار کرتیں، جب انہوں نے  آنکھ کھولی تو انہیں اطمینان ہوا۔ سنیل ان کی دیکھ بھال سے بہت متاثر ہوئے، بہرحال  وہ مشہور  اداکارہ تھیں اور سنیل ابھی نئے تھے ، نرگس انہیں یہ احساس دلانے کی کوشش کرتیں کہ دونوں ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے  ہوں ۔  
  بلموریہ کے پندرہ دن نے ان کی زندگی کا رُخ بدل دیا۔ دونوں پیار کرنے لگے۔ مدرانڈیا ابھی تیاری کے مرحلے میں تھی ،لوگوں کو پتہ چلتا تو اسکینڈل بن جاتا۔ چنانچہ دونوں نے طے کیا کہ وہ اس بارے میں کسی سے بات نہیں کریں گے، کھلے عام نہیں ملیں گے، اس لئے  خط لکھتے۔ ان خطوط میں وہ عام طورپر ’پیا‘ یا  ’اجی ہو‘  سے مخاطب کرتے ، یہاں تک کہ ٹیلی گرام میں بھی یہی لکھتے ۔ دوسرا مزاحیہ نام ’مارلن منرو‘ اور ’ ایلوس پریسلے ‘ تھا۔ شادی کے بعد دونوں  ایک دوسرے کو ’ڈارلنگ جی ‘ پکارتے۔‘‘نرگس نے راج کپور کے ساتھ ۱۶؍ فلموں میں کام کیا، جس میں  چھ آرکے بینر کی تھیں۔ راج ان کی پہلی محبت تھے، سنیل دت ان کی زندگی میں  اس وقت داخل ہوئے جب یہ تعلق اختتام پرتھا، اورانہیں بُری طرح توڑچکا تھا۔ دونوں ( راج اور سنیل ) کا تقابل   کرتے ہوئے کتاب میں درج ہے ، راج ان کی زندگی میں اس وقت آئے جب ان کی عمر محض انیس برس تھی جب کسی کی چاہت کی خواہش ہوتی ہے اگر راج نہ ہوتے تو کوئی اور ہوتا۔ وہ صرف دوست تھے ، بعد میں نرگس کو احساس ہوا کہ وہ بے وجہ یکطرفہ اس رشتہ سے بندھی ہوئی ہیں  اور وہ  (راج ) ان پر توجہ نہیں دیتے، راج شادی شدہ تھے۔
  ’’اس نے سنیل کے سامنے  اعتراف کیا کہ راج سے ان کا تعلق ختم ہونے کو ہے، وہ بلا خوف وخطر (سنیل) سے تعلق نبھانا چاہتی ہے۔ نرگس کی خود اعتمادی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ راج نے انہیں منانے کی بہت کوشش کی۔ ایک خط میں نرگس نے سنیل کو کہا۔ ایک لمبی مدت کے لئے برلن فلمی میلے میں گئی۔ اسے یقین نہیں ہورہا تھا کہ معاملہ ختم ہوچکا ۔ میں نے ان سے کہاعلاحدگی نہ صرف میرے بلکہ ان کے لئے بھی بہتر ہے ، ان کے بیوی بچوں کے لئے اور بھی بہترہے۔ راج جاننا چاہتا تھا کہ وہ ان  پیسوں کا کیا کرے جو اسے مجھے  ادا کرنا ہے ،  اس نے کہا ، مجھے نہیں چاہئے ، (راج ) اور گھر کے لئے جو زمین خریدی ہے۔ میں نے کہہ دیا کہ وہ بھی مجھے نہیں چاہئے۔  نرگس آرکے میں حصہ دار تھیں مگر وہ تمام فلمیں خود پر ہی مرکوز رکھتے۔ راج کپور نے انہیں کبھی کسی اور کے ساتھ کام کرنے کی اجازت نہیں دی۔خاص طورپر دلیپ کمار ، جن سے ان کی (فلمی ) رقابت تھی۔ محبوب خان  آن میں انہیں مرکزی کردار  میں  لینا چاہتے تھے مگر ان کے محبوب نے منع کردیا۔ اس معاملہ میں سنیل دت بھی کچھ کم بہتر نہیں تھے۔ انہوںنے دیوآنند جیسے بڑے اداکار کے ساتھ کام کرنے کی اجازت نہیں دی تھی، اپنے کریئر کے اختتام پر نرگس کو پردیپ کمار کے مقابل کام کرنا پڑا۔
  دراصل نرگس اس بے معنی رشتہ اور گھر والوں کے درمیان اُلجھ کر رہ گئی تھیں۔ گھر والے انہیں سمجھ نہیں رہے تھے، سنیل کی آمد  سے پہلے نرگس نے فیصلہ کرلیا تھا۔ سنیل ایسے شخص تھے جو ان سے عام انسانوں کی طرح برتاؤ کرتے آگ کے حادثے سے صحت یاب ہونے پر انہیں  احساس ہوا کہ یہ ان ہی کی ہمت تھی جو انہیں آگ سے  نکال لائے ، ایک  عرصہ  بعد انہیں اندازہ ہوا کہ کوئی ہے جو ان کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرسکتا ہے ، وہ اس لاحاصل رشتہ اور خاندان سے چھٹکارا چاہتی تھیں جو ان کے الفاظ میں انہیں پیسہ کمانے کی مشین سمجھتے تھے۔  کتاب میں ایسے کئی  خطوط ہیں جو ان کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتی ہیں، میں پڑھنا چاہتی تھی مگر لڑکی تھی   اور دیکھنے میں اچھی تھی اس لئے کم عمری میں ہی مجھے گھر والوں کے لئےکمانے پر مجبور کردیا گیا۔‘‘
  نرگس کو اپنی اس نئی محبت پر اعتماد تھا، ڈائری میں انہوںنے لکھا تھا، وہ بے جھجک کسی شرمندگی کے بغیر اپنی زندگی کی ہر تفصیل بیان کردیتی ، ذرا نہ گھبراتی ، کیوں کہ ان کے شانے ہمیشہ  ساتھ ہیں ۔ میں جانتی تھی کہ وہ سارے آنسو پونچھ لیں گے   اور دوسروں کے سامنے میرا مذاق بننےنہیں دیں گے، نرگس سنیل دت سے اپنے رشتہ کے بارے میں بہت محتاط تھیں، مثلاً ان کے کریئر کو مزید آگے بڑھانے  والے آفر  جس  سے انہوںنے انکارکردیا، بعد میں سنیل کو خود ایک خط میں لکھا، امریکہ سے دعوت نامہ ملا کہ آسکر میں شرکت کروں، میں نے  منع کردیا، میں نے تمہیں اس لئے نہیں  بتایا کہ تم احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے۔‘‘ایک اور خط میں نرگس نے لکھا، ڈارلنگ ، ناراض مت ہو ، یاد رکھو،  اگر میں مرگئی تو روحانی طورپر  ہمیشہ تمہارے پاس رہوں گی،  میں تم سے اتنی وابستہ ہوچکی ہوں کہ موت بھی مجھے تم سے پوری طرح الگ نہیں کرسکتی۔‘‘ ممکن ہے نرگس کی موت کے بعد یہ الفاظ سنیل دت کو  سہارا اور سکو ن دیتے رہے ہوں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK