پولیس نے جمعرات کو بونڈی بیچ کے کچھ حصے دوبارہ کھول دیئے جس کے بعد ساحل پر زندگی آہستہ آہستہ معمول پر لوٹ رہی ہے، لیکن اجتماعی صدمے کا احساس اب بھی واضح ہے۔
EPAPER
Updated: December 20, 2025, 10:00 PM IST | Sydney
پولیس نے جمعرات کو بونڈی بیچ کے کچھ حصے دوبارہ کھول دیئے جس کے بعد ساحل پر زندگی آہستہ آہستہ معمول پر لوٹ رہی ہے، لیکن اجتماعی صدمے کا احساس اب بھی واضح ہے۔
جمعہ کو طلوع آفتاب کے وقت سڈنی کے بونڈی بیچ پر ہزاروں افراد تسلی اور استقامت کے اظہار کیلئے جمع ہوئے۔ سوشل میڈیا اور زبانی پیغام رسانی کے ذریعے غیر رسمی طور پر منظم کئے گئے اس اجتماع میں رہائشی ساحل کے کنارے پر کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوئے اور پھر ایک بڑا دائرہ بنایا۔ بہت سے افراد نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی، جبکہ دیگر نے دعائیں مانگیں، اجنبیوں کو گلے لگایا یا جائے واردات پر موجود ٹیپ کے باقیات اور حملے کے دوران مچی افراتفری میں پیچھے چھوٹ جانے والے جوتوں کے قریب رو پڑے۔
واضح رہے کہ بونڈی بیچ کے قریب ایک پارک میں ہنوکا کی تقریب کے دوران دو مسلح افراد کی فائرنگ کے چند دنوں بعد یہ اجتماعی تقریب منعقد ہوئی۔ مشہور ساحلی علاقے کے قریب فائرنگ کے اس واقعہ میں ۱۵ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: بونڈی بیچ فائرنگ: آسٹریلیا میں نفرت انگیز تقاریر کے خلاف سخت قوانین کا اعلان
خوف کے سائے میں معمولات کی واپسی
پولیس نے جمعرات کو بانڈی بیچ کے کچھ حصے دوبارہ کھول دیئے ہیں جس کے بعد ساحل پر زندگی آہستہ آہستہ معمول پر لوٹ رہی ہے، چہل قدمی کرنے والے افراد ساحلی راستے پر نظر آ رہے ہیں، کتوں کو گھمانے والے اور کیفے کے باہر لوگوں کی قطاریں دوبارہ نمودار ہو گئی ہیں، لیکن اجتماعی صدمے کا احساس اب بھی واضح ہے۔ حکام نے مزید تشدد اور کمیونٹی کے ردعمل کے خدشے کے پیش نظر سڈنی بھر میں یہودی عبادت گاہوں اور مساجد کے گرد سیکیوریٹی بڑھا دی ہے۔ جمعہ کو مسلح افسران ہر جگہ نظر آئے۔
آسٹریلوی عوام اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ایسا حملہ ایک ایسے ملک میں کیسے ہو سکتا ہے جہاں بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کیلئے، ساحل پر ہونے والا یہ اجتماع المیے کا جواب ایک ساتھ مل کر دینے کی قومی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ہماری سیاست سے دور رہیں، سابق آسٹریلوی وزیراعظم کا نیتن یاہو کو سخت پیغام
سڈنی میں یکجہتی کی مثالیں
اس المناک واقعے کے بعد پورے سڈنی شہر میں کئی شکلوں میں یکجہتی کی مثالیں دیکھنے مل رہی ہیں۔ ان میں سڈنی اوپیرا ہاؤس پر `منورہ` (ہنوکا کی شمع) کا عکس کی نمائش اور خون کے عطیات کی ریکارڈ تعداد شامل ہیں۔ لائف بلڈ نامی تنظیم کے مطابق حملے کے بعد سے اب تک تقریباً ۳۵ ہزار افراد خون کا عطیہ دے چکے ہیں۔
احمد الاحمد، وہ مسلمان دکاندار جنہوں نے فائرنگ کرنے والے ایک حملہ آور کو دبوچ کر اس سے اسلحہ چھین لیا تھا اور اس دوران انہیں گولی لگی تھی، اسپتال کے بستر سے میڈیا نمائندوں سے گفتگو کی اور اتحاد اور تعلق کے معاملے میں آسٹریلیا کو ”دنیا کا بہترین ملک“ قرار دیا۔