سنجے راؤت کی مراٹھی کتاب ’نرکاتلا سورگ‘ کا جائزہ، شیوسینا اور بی جے پی کےرشتوں اور بہت سارے سیاسی واقعات کے تذکرے کے ساتھ ہی یہ کتاب ان کے ذاتی تجربات، سیاسی جدوجہد اور جیل میں ان کے شب و روز کے احوال کی عکاس ہے۔
EPAPER
Updated: June 18, 2025, 9:35 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai
سنجے راؤت کی مراٹھی کتاب ’نرکاتلا سورگ‘ کا جائزہ، شیوسینا اور بی جے پی کےرشتوں اور بہت سارے سیاسی واقعات کے تذکرے کے ساتھ ہی یہ کتاب ان کے ذاتی تجربات، سیاسی جدوجہد اور جیل میں ان کے شب و روز کے احوال کی عکاس ہے۔
سنجے راؤت ایک بیباک اور نڈر رکن پارلیمان ہیں۔ ’سامنا‘ کے کارگزار مدیر ہیں۔ ان کے قلم نے کئی بار سیاسی منظرنامے میں ہلچل پیدا کی ہے۔ سنجے راؤت بولنے والے، بہت بولنے والے شخص ہیں۔ تقریباً ہر صبح پریس بریفنگ کرتے ہیں۔ کئی دفعہ ان کا اندازِ گفتار مخالفین کی صفوں میں کھلبلی مچا چکا ہے۔ صاف گوئی ان کی پہچان ہے۔ وہ اکثر مرکزی حکومت پر تیکھی تنقید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی سیاست میں جرأت اور عوامی خدمت کا جذبہ نمایاں ہے۔ ہندوتوا خیمے کے کسی لیڈر نے اگر سی اے اے مخالف جلسے سے خطاب کیا ہو تو وہ واحد لیڈر راؤت ہیں۔ ۲۰۲۰ء میں مراٹھی پتر کار سنگھ کے کھچا کچ بھرے ہال میں، انھوں نے کہا تھا کہ آپ ہمارے ہی لوگ ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ کوئی زیادتی ہونے نہیں دیں گے۔
ان کی سیاسی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے، جن میں ای ڈی کی جانب سے کی گئی تحقیقات اور گرفتاری بھی شامل ہے۔ تاہم انہوں نے ہر چیلنج کا سامنا حوصلے اورعزم کے ساتھ کیا۔ حال ہی میں ان کی مراٹھی کتاب ’نرکاتلا سورگ‘ یعنی ’جہنم کے اندر کی جنت‘ کا اجراء ہوا۔ یہ کتاب ان کے ذاتی تجربات، سیاسی جدوجہد اور جیل میں ان کے شب و روز کے احوال کی عکاس ہے۔
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا
۲۰۱۴ء میں نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں اُدھو کے ساتھ راؤت بھی شریک تھے۔ کہتے ہیں کہ ’’حکومت حاصل ہوتے ہی پرانے دوستوں کے مزاج اور برتاؤ میں فرق صاف نظر آرہا تھا۔ بیوپاری طبقے کے چہروں پر ’آپڑو مانوس‘ کے منتخب ہونے کی خوشی جھلک رہی تھی۔ یہ عوام کی حکومت کا آغاز تھا یا چند مٹھی بھر کاروباری ہم پر راج کرنے جا رہے تھے؟‘‘ باہر کسی رپورٹر کے سوال کرنے پر سنجے نے کہا کہ ملک میں سب چین کا سانس لے سکیں، آزادی اور جمہوریت کا جتن ہو بس یہی توقع ہے۔ اسی وقت انھوں نے کہا تھا کہ مودی کا استقبال ہے لیکن ہندوستان صرف گجرات کا نام نہیں۔ اس طرح کے خیالات و احساسات کا اظہار بعد میں شیو سینا کےسرکار میں شراکت دار ہونے کے باوجود وقتاً فوقتاً سامنا کے اداریوں میں کیا گیا۔
راؤت رقمطراز ہیں کہ گجرات میں مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے تنقید کی۔ دنیا میں بدنامی ہوئی۔ عالمی دباؤ سے وزیر اعظم واجپئی بھی بے چین تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ مودی کو وزراتِ اعلیٰ سے ہٹایا جائے۔ وزیر داخلہ اڈوانی خود بال ٹھاکرے سے مشورہ کرنے ممبئی آئے تھے۔ اُس وقت ٹھاکرے نے مودی کو ہٹانے کے خلاف رائے دی۔ راؤت کہتے ہیں کہ انھوں نے خود سامنا میں مودی کی حمایت میں اداریہ لکھا لیکن بعد میں مودی کی مرکز میں حکومت بنتے ہی’آپریشن شیو سینا‘کی شروعات ہوئی۔
راؤت یاد دلاتےہیں کہ امیت شاہ مشکلات سے گھرے تھے۔ مرکز میں یو پی اے کی حکومت تھی۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے بھی مودی اپنےمصاحبِ خاص کی مدد نہیں کر پا رہے تھے۔ امیت شاہ کے خلاف سی بی آئی تحقیقات جاری تھیں۔ تڑی پار کئے گئےتھے۔ ایسے میں کسی نے مشورہ دیا ہوگا کہ ان کی مدد بس ایک شخص کر سکتا تھا یعنی بال ٹھاکرے۔ ایک دوپہر شاہ ممبئی ایئر پورٹ پر اترے اور کالی پیلی ٹیکسی کے ذریعہ باندرہ روانہ ہوئے۔ انھیں کلا نگر کے داخلے پر ہی روک لیا گیا۔ میں گجرات کا ایم ایل اے اور سابق وزیر ہوں۔ صاحب سے فوری طور پر ملنا چاہتا ہوں لیکن ان کا پیغام ماتوشری کے اندر تک پہنچ نہیں پایا۔ سیکوریٹی والوں نے روک رکھا تھا۔ شاہ، بڑی دیر انتظار کرنے کے بعد لوٹ گئے اور اگلے روز پھر آئے۔ اس دن وہ ماتوشری کے مین گیٹ تک پہنچ سکے۔ شام کو ملاقات کا وقت ملا۔ دہائی دی کہ گجرات فسادات میں ہندوتوا کی خاطر کاموں کی سزا آج میں اور میرے اہل خانہ بھگت رہے ہیں۔ مدد کی درخواست کی۔ بال ٹھاکرے نے پائپ کا ایک کش لگایا اور کسی کو فون کیا۔ اس فون کال نے امیت شاہ کے سیاسی سفر کے بہت سارے روڑے دور کردیئے۔ گنبد نیلوفری نے رنگ بدلا۔ دہلی کا افق زعفرانی ہوا۔ بعد کے دور میں امیت شاہ نے جو کیا وہ ساری دنیا نے دیکھا۔ مراٹھی مانوس کی شیو سینا دولخت ہوئی۔
کٹھ پتلیاں ہیں ہم
راؤت لکھتے ہیں کہ ای ڈی جیسےاداروں کو تفویض کئے گئے جابرانہ حقوق کی وجہ سے ملک کی معیشت پرگہن لگا۔ کانگریس کے زمانے بھی سی بی آئی کو لے کر الزامات لگے تھے لیکن بہرحال معاملات ایک حد میں رہے۔ کانگریسی دور میں جب چدمبرم نے ’ پی ایم ایل اے‘ نامی قانون کی تیاری شروع کی تو لوگ انہیں متنبہ کر چکے تھے کہ وہ قانون ایک دن بھسما سُر یعنی آگ اگلنے والے دیو کی شکل اختیار کرلے گا لیکن چدمبرم رکے نہیں۔ پھر ایک دن ای ڈی والےخود چدمبرم کے گھر کی کمپاؤنڈ وال پھلانگ کر اندر گُھسے اور انھیں گرفتار کرلیا۔ سنجے کو بھی ای ڈی نے خوب ہلایا ڈُلایا۔ انھیں گورے گاؤں ممبئی میں واقع پترا چال کی تعمیر نو سے متعلق ایک معاملے میں بار بار تفتیش کیلئے بلایا گیا۔ ان کی اہلیہ ورشا کو بھی۔ گھر پر چھاپہ مارا گیا۔ بالآخر انھیں یکم اگست ۲۰۲۲ء کو باقاعدہ گرفتار کر لیا گیا۔ انھوں نے۸؍ دن ای ڈی کی تحویل میں اور ۱۰۱؍ دن آرتھر روڈ جیل میں گزارے۔ دورانِ تفتیش سنجے نے متعلقہ افسروں سے کہا کہ خیال رہے، انسان مرتے ہیں، سرکاریں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں ۔ تو ایک افسر نے جواب دیا کہ سر جب آپ کی سرکار آئے گی تو ہم آپ کیلئے کام کریں گے۔ اِس وقت تو ہم بس کٹھ پتلیاں ہیں !
’’میرا مزاج جد وجہد کا ہے۔ نا انصافی ہوتے دیکھ میں بے چین ہو جاتا ہوں۔ بی جے پی کے سیاستدان انتقام کے جذبے کے تحت کام کرتے ہیں، ای ڈی، سی بی آئی کا استعمال کرتے ہیں ۔ سوال صرف یہ ہے کہ ایسا کرتے وقت کسی کے خاندان، دوستوں اور کنبے پر ہاتھ ڈالنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟‘‘ راؤت لکھتے ہیں کہ میں تجربہ کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ (ایکناتھ) شندے بُرا آدمی نہ تھا۔ شندے ای ڈی سے گھبرا کر بی جے پی کے ساتھ گئے جبکہ میں صورتحال کا مقابلہ کرتے ہوئے جدو جہد میں مصروف رہا۔ زنداں کے خوف سے انسان جھینگر بن جاتا ہے اور شیرایک گربہء مِسکین !
پسِ دیوارِ زنداں
آرتھر روڈ جیل میں گزارے ان تکلیف دہ دنوں کے احوال وہ ڈرامائی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ عام قیدیوں کی مشکلات و دردناک حالت بھی بے لاگ و لپیٹ بیان کرتے ہیں۔ وہاں زندگی بڑی بھیانک ہے۔ قیدیوں کو رات میں پوری روشنی میں ہی سونا پڑنا ہے۔ نیند آئے تو ٹھیک نہ آئے تو کسی کو پروا نہیں۔ کتنے غریب قیدی ایسے ہیں جنھیں آٹھ دس سال بھی تاریخوں پر عدالت نہیں لے جایا جاتا کیونکہ گارڈ کی تعداد کم ہے۔ معمولی جرائم کیلئے بڑی سزائیں۔ رشوت کا چلن عام ہے۔ قیدی کے خطوط کا باہر جانا جیل انتظامیہ کی مرضی پر منحصرہے۔ اقل و شرب کے اوقات مقرر ہیں۔ کھانے کی کیفیت نا گفتہ بہ ہے۔ اتوار اور تعطیل کے دن دوپہر۲؍ بجے قیدیوں کو بیرک میں بند ہو جانا پڑتا ہے۔ اتوار کورات کا کھانا بھی دوپہر کو دیا جاتا ہے جواکثر شام تک خراب ہو جاتا ہے۔ راؤت کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے انھوں نے کئی قیدیوں کو روٹی یا پاؤ پانی میں ڈبو کر کھاتے دیکھا۔ جیل کے اپنے قاعدے قوانین ہیں۔ یہاں برٹش راج اب بھی صحیح سلامت جاری ہے۔ جیل ایسا شمشان ہے جس میں ایک ساتھ سو چتائیں جلتی ہیں اور اس آگ میں گھرے قیدی باہر جانے کیلئے چیخ و پکار مچائے رہتے ہیں، لیکن یہ آہ و بقا جیل کی دیواروں کے باہر نہیں پہنچ پاتی۔
آرتھر روڈ جیل میں اجمل قصاب نے بھی کچھ عرصہ گزارا۔ سنجے لکھتے ہیں کہ کسی دہشت گرد کو بہتر سہولیات میسر ہوتی ہیں کیونکہ اُس پر دنیا کی نظریں ہوتی ہیں جبکہ عام قیدی کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ قصاب کے متعلق قیدیوں میں یہ مشہور ہوگیا تھا کہ اُس کا بھوت جیل میں گشت کرتا ہے۔ ’’میں نے راتوں کو قصاب کا بھوت تلاش کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ یارڈ میں بلب کبھی بجھائے نہیں جاتے اور اتنی روشنی میں بھوت کیوں کر نکلے گا؟ ہاں البتہ ہم جیسے لوگ سرکار کو بھوت جیسے لگے لہٰذا قصاب کی بیرک میں ہم کو محصور کیا گیا۔ ‘‘
کتاب اپنی رو میں بہتی ہے۔ جلدی ختم ہو جاتی ہے۔ اُردو کے الفاظ مراٹھی میں پڑھ کر لطف آتا ہے، مقرر، ملیدہ اور پراگندہ وغیرہ۔ سنجے راؤت سے ہمیں یہ کہنا ہے کہ جیل کے مسائل کو وہ پارلیمنٹ میں ضرور اٹھائیں۔ ہم وِشو گرو ہیں، گلوبل ساؤتھ کے لیڈر ہیں، دنیا کی پانچویں معیشت ہیں۔ امرت کال میں ہماری جیلوں کے حالات بدلنے چاہئیں۔