• Mon, 01 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

فطرت ایک بے آواز امتحان گاہ ہے جہاں صرف وہی مخلوق آگے بڑھتی ہے جو خود کو ماحول کے مطابق ڈھال سکے

Updated: November 30, 2025, 4:17 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai

امریکی ماہر فلکیات ’کارل ساگان ‘کی شہرہ آفاق تصنیف ’کاسموس ‘کا ایک جائزہ ۔ یہ کتاب ہمیں کائنات کی سیر کراتی ہے، جس کی وسعت کا خیال ہی انگشت بدنداں کرتا ہے۔ ۸۰ء کی دہائی میں شائع ہونے والی اس کتاب کو ۵۰؍ لاکھ سے زیادہ افراد نے پڑھا ہے۔

Picture: INN
تصویر:آئی این این
۱۹۸۰ء میں امریکی ٹی وی پر‘ کاسموس۔ اے پرسنل ویئیج‘ نامی سیرئیل نے غیرمعمولی مقبولیت حاصل کی تھی۔ لیکن اس سے قبل ہی اس کو پیش کرنےوالے ماہر فلکیات کارل ساگان سے لوگ خوب متعارف تھے۔ پاپولر سائنس پر ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی تھیں۔ اس ٹی وی شو کے بعد کارل نے اس کو کتابی شکل میں کاسموس یعنی کون و مکاں کے عنوان سے شائع کروایا۔۵۰؍ لاکھ سے زیادہ افراد نے اسے پڑھا۔
کارل ساگان (۱۹۹۶ء ۔ ۱۹۳۴ء)  کی کاسموس، محض ایک سائنسی کتاب نہیں بلکہ انسان کے استعجاب، اس کی جستجو اور سفرِعلم کی داستان ہے۔ یہ ہم کو کائنات کی سیر کراتی ہے جس کی وسعت  کا خیال ہی انگشت بدنداں کرتا ہے۔ تصور کیجئے کہ ہم ایک کائناتی سمندر کے ساحل پر ٹخنوں تک پانی میں کھڑے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ سمندر کی گہرائی کتنی ہے۔ ساگان احساس دلاتے ہیں کہ انسان، کائناتی نقشے کا بس ایک باریک سا نقطہ ہے۔ دھرتی، جو ہمیں مرکزعالم محسوس ہوتی ہے، حقیقت میں کائنات کے سمندر میں تیرتی ہوئی ایک چھوٹی سی کشتی ہے۔ یعنی پوری کائنات کی ۱۳ء۸؍ ارب سالہ تاریخ کو ایک سال میں سمیٹ دیا جائے تو انسان کا ظہور صرف آخری چند سکینڈوں میں ہوتا ہے۔ ہمارا تمدن کتنا نوخیز ہے اور ہم علم کی راہ میں ابھی کتنے ناتجربہ کار مسافر ہیں۔ ساگان مشاہدات کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔  پالومر آبزرویٹری جیسی رصدگاہوں کی بڑی بڑی طاقتور دوربینیں معلوم کراتی ہیں کہ اجرامِ فلکی کتنے پیچیدہ نظام میں وجود رکھتے ہیں۔ اس طرح کی خلائی دوربینوں نے کہکشاؤں، نیبولا اور سپرنووا کی تصاویر کے ذریعے کائنات کی وسعت واضح کی ہے۔
آرہی ہے دمادم صدائےکن فیکون۔ کائنات کی تشکیل اور توسیع کا عمل مسلسل جاری ہے۔ ستارے  پیدا ہوتے ہیں، جوان ہوتے ہیں اور مرتے ہیں۔ ان کی پیدائش گیس اور گرد کے ان بادلوں میں ہوتی ہے جنہیں نیبولا کہتے ہیں۔ اورین نبیولا، جو زمین سے تقریباً۱۳۴۴؍ نوری سال  دور ہے، نئے ستاروں کی پیدائش کا معروف مرکز ہے۔ کروڑوں اربوں سال بعد جب ستارے ختم ہونے لگتے  ہیں تو کبھی سپرنووا بن کر پھٹ جاتے ہیں اور کبھی نیوٹران ستارہ یا بلیک ہول کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ جب بڑا ستارہ اپنی زندگی کے اختتام پر سپرنووا کی صورت پھٹتا ہے تو ایک لمحے میں اتنی توانائی خارج ہوتی ہے جتنی ہمارا سورج اپنی پوری زندگی میں پیدا کرے گا۔ سپرنووا کے دھماکے سے نکلنے والے نیوٹران ستارے یا بلیک ہولز ہمارے کائناتی ہم آہنگی کے بنیادی ستون ہیں کیونکہ وہ گرد و نواح میں مادہ، توانائی اور عناصر فراہم کرتے ہیں۔
روشنی تقریباً ۳؍ لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اس رفتار کو بنیاد بنا کر ہم کائنات کی پیمائش کرتے ہیں۔ یہ رفتار ہی نوری سال کی اکائی بناتی ہے۔ ہماری کہکشاں میں ستاروں کی تعداد کا تخمینہ تقریباً ۱۰۰؍ اور ۴۰۰؍ ارب کے درمیان ہے۔ اگر ہم روشنی کی رفتار سے بھی چلیں تب بھی ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچنے میں ایک لاکھ سال لگ جائیں گے۔ یہ بات صرف ہماری کہکشاں کی تھی۔ کائنات میں کم از کم ۱۰۰؍ ارب کہکشائیں موجود ہیں۔ ہرکہکشاں میں کھربوں ستارے ہیں اور ہر ستارے کے گرد ممکن ہے کئی سیارے ہوں۔ تو پھر زندگی صرف ہماری زمین ہی پر کیوں ہے ؟ ساگان کے مطابق اگر ہم تنہا ہوں تو یہ جگہ کا بہت وسیع ضیاع ہے۔ ہمارے لئے شاید یہ ایک خوبصورت جملہ ہو لیکن سائنسداں مسلسل زمین کے علاوہ حیات کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔
زمین تقریباً ساڑھے چار ارب سال پرانی ہے۔ زندگی کی ابتدائی شکلیں تقریباً ساڑھے تین ارب سال قبل نمودار ہوئیں۔ کیڑے مکوڑوں، مچھلیوں، اور دیگر ابتدائی جانوروں نے زمین کی تاریخ میں اپنی جگہ بنائی۔ جانداروں کی ابتدا سمندر کے بے زرہ خلیوں سے ہوئی اور پھر لاکھوں کروڑوں برسوں میں زندگی نے اپنے پر پھیلائے۔ انسان تقریباً ۲؍ لاکھ سال پہلے نمودار ہوا، یعنی کائناتی کیلنڈر کی تاریخ میں صرف آخری کچھ سیکنڈوں میں! ساگان زمین کو ایک نایاب نعمت قراردیتے ہیں۔ نہ اس جیسی ساخت، نہ ایسا ماحول، نہ پانی کی اتنی فراوانی کہیں آسانی سے ملتی ہے۔ زمین کی ساری رنگا رنگی، جنگلات، صحرا، سمندر، پرندے، انسان سب لاکھوں سالوں پر محیط سمئے کی تپسیا  کے بعد وجود میں آئے۔ فطرت ایک بے آواز امتحان گاہ ہے جہاں صرف وہی مخلوق آگے بڑھتی ہے جو خود کو ماحول کے مطابق ڈھال سکے۔ فی الحال اس ارتقائی دوڑ کا چمپئن انسان ہے، لیکن ساگان یاد دلاتے ہیں کہ یہ برتری قائم رہ بھی سکتی ہے اور ختم بھی ہو سکتی ہے۔
ساگان انسانی دماغ کو کائنات کا سب سے پیچیدہ آلہ کہتے ہیں۔ یہ ڈیڑھ کلوگرام کا چھوٹا سا عضو کروڑوں اربوں اعصابی روابط  بنائے رکھتا ہے۔ سیکھنے، سوچنے اور سوال اٹھانے کی قوت نے ہی انسان کو جانوروں کی قطار سے اٹھا کر تہذیب کی سطح پر پہنچایا ہے۔ ساگان بتاتے ہیں کہ زبان، ادب، موسیقی اورعلم کی بنیادیں انسان کو فطرت کے سادہ جانداروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ یہ دماغی صلاحیتیں انسانی تخلیقی آواز کو ممکن بناتی ہیں۔
ساگان ہمیں بطلیموس، ارشمیدس اور ارسطو جیسے یونانی فلسفیوں کے درمیان لے جاتے ہیں۔ ہندوستان کے قدیم علم، پھر مسلم سائنسدانوں کا ذکر آتا ہے ابنِ الہیثم، البیرونی، ابنِ سینا۔ ساگان کہتے ہیں کہ علم ایک مشعل ہے جسے ہر تہذیب نے اگلی تہذیب تک پہنچایا۔ وہ کوپرنیکس، کیپلر اور گلیلیو کا تفصیلی تذکرہ کرتا ہے، جنہوں نے آسمان کی خاموشی میں صداقت کی وہ آواز سنی جسے مذہبی جبر نے دبائے رکھا تھا۔
ساگان بڑے پُرامید لہجے میں خلائی سفر کی اہمیت بتاتے ہیں۔ سمجھاتے ہیں کہ زمین محدود ہے، وسائل محدود ہیں اور انسان کی بقا طویل مدت میں ممکن ہی تب ہے جب وہ دوسرے سیاروں پر قدم رکھے۔ مریخ، زہرہ، مشتری کے چاند، زحل کے حلقے، ایک ایک کرکے ساگان سب دنیاؤں کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح انسان اگلے سو سال میں چاند اورمریخ پر بستیاں بسا سکتا ہے۔
ساگان زندگی کی تلاش کو نہ صرف سائنسی جستجو بلکہ انسانی فطرت کی بنیادی پیاس قرار دیتے ہیں۔ وہ سائنس کو خشک حقیقت نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک سائنس حیرت کا احساس ہے، تجسس کی غذا ہے، اور انسانی وحدت کا فلسفہ ہے۔ وہ کہتے ہیں سائنس ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم نسل، قوم یا مذہب کی دیواروں میں بند لوگ نہیں بلکہ کائنات کے ایک ہی سلسلے کےوارث ہیں۔ ہم سب ستاروں کی خاک سے بنے ہوئے ہیں، اس لئے ہمیں مل کر جینا چاہئے۔
ساگان خلا سے کھینچی گئی زمین کی ایک مشہور تصویر پیل بلو ڈاٹ کا ذکر کرتے ہیں۔ اس میں زمین بس روشنی کا ایک ہلکا سا نقطہ نظر آتی ہے۔ یہی ہمارا گھر ہے۔ یہاں ہماری ہر محبت، ہر جنگ، ہر تہذیب، ہرخواب آباد ہے۔ اگر ہم اسی چھوٹے سے نقطے کو تباہ کر دیں تو ہمارا متبادل کہیں نہیں۔ بقا، امن اورترقی صرف اسی وقت ممکن ہے جب انسان عقل، سائنسی سوچ اور باہمی احترام کو اپنائے۔
یہ کتاب، ۳۳۱؍ قبل مسیح میں قائم اسکندریہ مصر کی قدیم لائبریری کی معلومات فراہم کرتی ہے جو انسانیت کا پہلا منظم کتب خانہ تھا۔ ساگان علم کی ترسیل میں کتابوں کی اہمیت پر بڑے خوبصورت الفاظ تحریر کرتے ہیں۔ تحریر اور کتابیں انسان کو اپنے تجربات کو نسلوں تک منتقل کرنے کی طاقت دیتی ہیں۔ کتاب ہی کے ذریعہ ہم آج سےسیکڑوں سال پہلے کسی لکھنے والے کے ذہن میں  پہنچ جاتے ہیں۔ کتابوں، خطوط اور دیگر تحریری ذخائر نے انسانی تاریخ اورعلم کو محفوظ رکھا ہے۔
 کاسموس ہمیں کبھی فلسفے کی گہری وادیوں میں لے جاتی ہے، کبھی سائنس کی چمکتی چوٹیوں پر، اور کبھی انسانی تاریخ کے پیچ و خم میں۔ ایک ماڈرن سائنسداں ہونے کے باوجود ساگان  مذہبی صحیفوں سے اقتباسات نقل کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ ایک  باب کے آغاز میں قرآن مجید کا یہ پیغام درج ہے:’’مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں تمام جہانوں کے رب کے سامنے سر تسلیم  جُھکا دوں۔ یہ وہی ہے جس نے تم کو خاک سے پیدا کیا۔‘‘ کاسموس میں ایک اور مقام پر بھگود گیتا کہتی ہوئی نظرآتی ہے’’میں خود موت بن جاتا ہوں، تمام جہانوں کو تہس نہس کرنے والا۔‘‘ 
ساگان کا انداز یوں ہے جیسے کوئی دانا، بزرگ مسافر صدیوں کی مسافت طے کرکے گھر آئے اور چراغ کی لو ہلکی کرکے کہانی سنانے لگے۔ عالم افلاک کی مسحور کن تصویریں  کتاب کے حسن میں چار ہزارچاند لگا دیتی ہیں۔ کتاب کا پی ڈی ایف، انٹرنیٹ پرعموماً دستیاب ہے۔ آڈیو بک بھی مل جائیگی۔ شہر کی بڑی لائبریروں میں اسکا نسخہ ضرور ملے گا۔ پوری نہ پڑھ سکیں تو دلچسپی کے مطابق جستہ جستہ دیکھیں۔ ساگان تو خیر ٹھیٹھ یعنی اگزیکٹ سائنس کے پروفیسر تھے۔ علامہ اقبال خوب غور کرکے فرما گئے کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ سچ پوچھئے تو جب ساگان، کتاب کے اختتام پرہمیں اپنی ذمے داریاں یاد دلاتے ہیں تو عشق کے امتحانوں کے تذکرے کے علاوہ اور کیا کرتے ہیں ؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK