Inquilab Logo

نئی تعلیمی پالیسی اور ہم اُردو والے

Updated: March 17, 2023, 10:08 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

ہندوستان کی نئی تعلیمی پالیسی کے بارے میں جو ۳۴؍ سال بعد نافذ کی جا رہی ہے راقم الحروف اسی کالم میں کئی مضامین لکھ چکا ہے اور چند تقریریں بھی کی ہیں جو یوٹیوب پر اب بھی سنی جاسکتی ہیں۔ اس نئی تعلیمی پالیسی کے نافذ کئے جانے کا مطلب ہے کہ اب دسویں کے بورڈ امتحان اور ایم فل کا خاتمہ ہو جائے گا اور بورڈ امتحان صرف ۱۲؍ ویں کا ہوگا۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

یہ خبر تو تھی ہی کہ ہماری مرکزی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کو منظوری دیدی ہے یہ خبر بھی موصول ہوئی ہے کہ امریکہ میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے ہندوستانی طلبہ کو اس منصوبے کا فائدہ پہنچے گا جس کے تحت پڑھائی اور ملازمت کو بیک وقت جاری رکھا جاسکتا ہے۔ یہ دونوں ہی خبریں مسرت بخش ہیں۔ ہندوستان کی نئی تعلیمی پالیسی کے بارے میں جو ۳۴؍ سال بعد نافذ کی جا رہی ہے راقم الحروف اسی کالم میں کئی مضامین لکھ چکا ہے اور چند تقریریں بھی کی ہیں جو یوٹیوب پر اب بھی سنی جاسکتی ہیں۔ اس نئی تعلیمی پالیسی کے نافذ کئے جانے کا مطلب ہے کہ اب دسویں کے بورڈ امتحان اور ایم فل کا خاتمہ ہو جائے گا اور بورڈ امتحان صرف ۱۲؍ ویں کا ہوگا۔ گریجویشن کی ڈگری ان طلبہ کو تین سال بعد ہی دیدی جائے گی جو اعلیٰ تعلیم نہیں حاصل کرنا چاہتے۔ جو طلبہ چار سال کا ڈگری کورس کرتے ہیں وہ ایک سال میں ہی ایم اے کرسکیں گے۔ نئی تعلیمی پالیسی کے تحت یہ کوشش بھی کی جائے گی ۲۰۳۵ء تک اعلیٰ تعلیم کا تناسب ۵۰؍ فیصد ہو جائے۔ اس پالیسی میں یوں تو کئی مفید باتیں ہیں لیکن تین باتیں خاص طور سے عام لوگوں کے فائدے کی ہیں۔ پہلی یہ کہ گریجویشن میں پہلے، دوسرے، تیسرے سال کی تعلیم حاصل کرنے والوں کو بھی سرٹیفکیٹ، ڈپلومہ اور ڈگری دیدی جائے گی یعنی کسی ایک سال ناکام ہونے کا اثر دوسرے سال پر نہیں ہوگا۔ دوسری یہ کہ ملک میں تقریباً ۴۵؍ ہزار ڈگری کالج ہیں ان کے ہوتے علاقائی زبانوں میں ای کورسیز بھی شروع کئے جائیں گے اور تیسری یہ کہ اب پانچویں تک کی تعلیم مادری زبان، مقامی زبان یا قومی زبان میں دی جائے گی۔ قومی سے مراد شاید سرکاری زبان ہندی ہے ورنہ قومی زبانیں تو وہ سبھی ہیں جنہیں دستور ہند کے آٹھویں شیڈول میں شامل کیا گیا ہے۔
 ہم اُردو والوں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہی فیصلہ کرنا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں جو سہولتیں دی گئی ہیں ان سے فائدہ اٹھا کر ہم کس طرح اپنے بچوں کو پانچویں تک اُردو کے ذریعہ تعلیم دلاسکیں۔ مثال سے سمجھیں کہ بنگال، مہاراشٹر، کرناٹک، آندھرا اور تلنگانہ ریاستوں میں ایسے طلبہ کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو بنگالی، مراٹھی، کنڑ، تیلگو بولتے اور سمجھتے ہیں اور اسی زبان میں اپنا تعلیمی سلسلہ بھی شروع کرنا چاہتے ہیں مگر ایسے طلبہ کی تعداد بھی کم نہیں ہے جو ان ریاستوں میں رہتے ہیں مگر اُردو ہی بولتے، لکھتے اور سمجھتے ہیں۔ یوپی، بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان وغیرہ ریاستوں میں ہندی کا بول بالا ہے اور اُردو والوں کو ہندی یا کسی دوسری زبان سے کوئی بیر بھی نہیں ہے مگر ان طلبہ کے لئے ان کی مادری زبان میں تعلیم کا کیا انتظام ہوگا اس کی وضاحت بہت ضروری ہے۔ راقم الحروف کے پرانے مضامین میں بھی درخواست کی گئی تھی کہ خود اُردو والے لائحہ عمل تیار کریں کہ ان کے بچوں کی پانچویں تک کی تعلیم اُردو یعنی مادری زبان میں دی جائے۔ مرکزی حکومت نے جو پالیسی مرتب کی ہے اسی کی روشنی میں ریاستیں بھی اپنی پالیسیاں مرتب کریں گی، افسوس ہوتا ہے کہ ریاستی سطح پر بھی اُردو انجمنیں، اُردو اساتذہ یا محبان اُردو نے کوئی ایسی پہل نہیں کی ہے جس کے بارآور ہونے کی توقع کی جاسکے۔ یہاں یہ یاددہانی ضروری ہے کہ لندن میں بشمول اُردو ۱۰؍ ہندوستانی زبانوں کو نظام تعلیم کا حصہ بنانے کے مطالبے کو تحریک کی شکل دیدی گئی ہے مگر ہندوستان میں سناٹا ہے۔ اُردو داں حلقوں میں بھی اُردو تعلیم کے فروغ یا کم سے کم خرچ میں اعلیٰ تعلیم دینے کی کوشش کے بجائے زیادہ سے زیادہ انگریزی میڈیم اسکول کھولنے، فیس و عطیات جمع کرنے اور ’’ثانی ٔسرسید‘‘ کہلانے کا فیشن بڑھتا جا رہا ہے۔ اُردو کو نقصان پہنچانے والے اُردو اداروں کے سر براہوں کو اُردو کی خدمت کی سند عطا کی جا رہی ہے۔ اقلیتی تعلیمی ادارے خاص طور سے مسلم اقلیتی تعلیمی ادارے ملت کے لئے اپنی خدمات کے اعتبار سے مشتبہ ہوتے جا رہے ہیں۔ جی ہاں، جی حضور کہنے والوں نے ہر طرف عفونت پھیلا رکھی ہے۔ ایسے میں نئی تعلیمی پالیسی کے تحت حکومت کا یہ فیصلہ مستحسن ہے کہ سرکاری، غیر سرکاری اور ڈیمڈ اداروں میں یکساں قانون نافذ ہوں گے۔ حکومت کو یہ موقع کس نے عطا کیا ہے؟ اقلیتی تعلیمی اداروں کے قیام کا مقصد کیا ہے؟ اگر لسانی، مذہبی تشخص کے ساتھ کم سے کم خرچ میں اعلیٰ تعلیم ان اداروں میں یا ان اداروں کے توسط سے اقلیت کے طلبہ نہیں حاصل کر سکیں گے تو ان کے قیام کا مقصد ہی کیا ہے۔ ایک نظر دوڑانے سے بھی یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ اقلیتی تعلیمی اداروں کو سب سے زیادہ نقصان وہ پہنچا رہے ہیں جن کا کوئی علمی ذوق یا تعلیمی مزاج نہیں ہے مگر وہ اپنی اکڑ، گروہ بندی یا سیاسی رسوخ کی وجہ سے تعلیمی اداروں پر غالب ہیں۔ نقصان پہنچانے والوں میں دوسرے نمبر پر وہ ہیں جنہوں نے اپنے مفاد کے لئے جھوٹ بولنا یا جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرنا اپنا مزاج یا وظیفۂ زندگی بنا رکھا ہے۔
 اس پر طرہ یہ کہ اگر کوئی حقیقی صورتحال بیان کرتا ہے تو منتظمین اس کو اپنا دشمن سمجھ لیتے ہیں، بھروسہ اس پر کرتے ہیں جس کی صورت صحیح ہے نہ سیرت صحیح اور جو سیاہی پر سیاہی پھیرنے کے لئے دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔ اس طرز عمل کے سبب کتنے ہی اقلیتی ادارے تباہ ہوچکے ہیں اور حکومت و انتظامیہ کی مداخلت بڑھتی جا رہی ہے۔
 نئی تعلیمی پالیسی کا مسودہ پیش ہوئے تو کافی عرصہ ہوچکا ہے اب اس کے نافذ ہونے کی بھی خبر ہے تو ملی تعلیمی اداروں کو خاص طور سے تین پہلوؤں پر نظر رکھنا چاہئے۔ پہلی یہ کہ ہمارے بچے کم سے کم روپیوں میں بہتر سے بہتر تعلیم حاصل کریں۔ دوسری یہ کہ مادری زبان میں پانچویں تک ایسی معیاری تعلیم حاصل کریں کہ آگے انہیں کوئی مشکل نہ پیش آئے اور تیسری یہ کہ ملی تعلیمی اداروں کے طلبہ کے طرز عمل اور طرز گفتگو سے معلوم ہوسکے کہ وہ ایسے اداروں کے سنوارے ہوئے ہیں جن کے اقلیتی یا ملی کردار کی ضمانت خود دستور نے دی ہے مگر آج ہو کیا رہا ہے اس کا فیصلہ قارئین خود کرسکتے ہیں۔ خیر ماضی کو چھوڑیئے، موجودہ تعلیمی پالیسی کے تناظر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں حاصل کرنے کی پہل تو کی ہی جاسکتی ہے نہ کی جائے تو کس کا قصور ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK