مودی حکومت کا اب یہ معمول بن گیا ہے کہ وہ پیشگی اطلاع کے بغیر یا بہت کم وقت دے کر کوئی بل پیش کرتی ہے اور پھر اسے اپنی طاقت کے ذریعہ پاس کروا لیتی ہے۔ بل پر نہ تو بحث ہو پاتی ہے نہ ہی اسے متعلقہ کمیٹی کو بھیجا جاتا ہے۔
EPAPER
Updated: December 21, 2025, 10:38 AM IST | Aakar patel | Mumbai
مودی حکومت کا اب یہ معمول بن گیا ہے کہ وہ پیشگی اطلاع کے بغیر یا بہت کم وقت دے کر کوئی بل پیش کرتی ہے اور پھر اسے اپنی طاقت کے ذریعہ پاس کروا لیتی ہے۔ بل پر نہ تو بحث ہو پاتی ہے نہ ہی اسے متعلقہ کمیٹی کو بھیجا جاتا ہے۔
۱۷؍ دسمبرکو وائناڈ کی رکن پارلیمان پرینکا گاندھی واڈرا نے لوک سبھا میں مطالبہ کیا کہ’’وکست بھارت جی رام جی‘‘ بل کو مناسب مشوروں اور ترامیم کیلئے اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیجا جائے۔ اپوزیشن کے اراکین پارلیمان کا کہنا تھا کہ اس بل کو اراکین پارلیمان کے پورٹل پر۵؍ بجے اپ کوڈ کیا گیا اور ۵؍بج کر ۴۵؍ منٹ تک اپنے مشوروں سے آگاہ کیا جائے جبکہ اپوزیشن کے اراکین کا مطالبہ تھا کہ بل کے مسودے کو پڑھنے اور سمجھنے کیلئے کم از کم ایک دن کا وقت دیا جائے۔
اس مطالبے کو مسترد کر دیا گیا اور ۱۸؍ دسمبر کو بل صوتی ووٹ سے منظور کروا لیا گیا۔ منریگا، جو کہ نہایت اہم قوانین میں سے ایک تھا، ختم کر دیا گیا اور ہمیں علم نہیں کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ مودی کے دور اقتدار میں یہ معمول بن گیا ہے کہ بل اس عالم میں منظور کیا جاتا ہے کہ اراکین کو اطلاع ہی نہیں ہوتی کہ بل میں کیا ہے۔ خود حکمراں جماعت کے اراکین اس سے غافل رہتے ہیں۔ چودہویں لوک سبھا (۲۰۰۴ء تا ۲۰۰۹ء) میں۶۰؍فیصد بل جانچ کمیٹی کو بھیجے گئے۔ پندرہویں لوک سبھا(۲۰۰۹ء تا ۲۰۱۴ء ) میں ۷۱؍فیصد بل جانچ کمیٹی کے سپرد کئے گئے مگر اس کے بعد جب مودی کا اقتدار شروع ہوا تو بلوں کو متعلقہ کمیٹی کے سپرد کرنے کے رجحان میں کمی آئی اور صرف ۲۵؍ فیصد بل کمیٹی کو بھیجے گئے۔ یہ ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۹ء کے دوران ہوا۔ اس کے بعد بھی یہی کیفیت رہی لہٰذا ۲۰۱۹ءسے۲۰۲۴ء کے پانچ سالہ دور میں صرف ۱۶؍ فیصد بل جانچ کمیٹی کو بھیجے گئے۔ یہ عمداً کیا گیا۔ اس طرح کوئی بھی بل جس پر سوالات اٹھائے گئے ہوں، پارلیمنٹ کی متعلقہ کمیٹی کے حوالے کر ے کی مستحکم پارلیمانی روایت کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔
حق معلومات کا قانون (آر ٹی آئی) بھی اسی طرح بے اثر کیا گیا۔ اس میں ۲۰۱۹ء میں ترامیم کی گئیں اور ان کا جائزہ لینے کیلئے اسے پارلیمانی کمیٹی کو ارسال نہیں کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آر ٹی آئی کے باب میں عالمی درجہ بندی میں ہندوستان جو دوسرے نمبر پر تھا آٹھویں اور پھر نویں نمبر پر آگیا۔۲۰۱۹ء میں تیلگو دیشم کے اراکین پارلیمان نے کانگریس، سماج وادی، بہوجن سماج پارٹی اور سی پی ایم کے اراکین کے ساتھ مل کر’’آنا ًفاناً بل منظور کروانے‘‘کے طریق کار پر تشویش کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا تھا کہ کسی بل پر یا کسی خاص موضوع پر صلاح مشورے کیلئے صاحب الرائے افراد یا گروہوں کو مدعو کیا جاتا تھا مگر اب اس روایت سے بھی اجتناب کیا جا رہا ہے۔ اس کا فائدہ تھا۔ بل کے معیار اور معنویت میں اضافہ ہوتا تھا اور اسے زیادہ جانع بنانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ مودی کے دور حکومت میں ایسی تمام روایات کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ ۲۰۲۰ء میں ایک بھی بل جانچ کمیٹی کو نہیں بھیجا گیا۔
یہ طریق کار اس لئے درست نہیں ہے کہ عجلت اور نخوت کے ساتھ بل پاس کروانے سے ایسے نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں جن سے بجائے فائدہ، نقصان کا اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے۔
۲۰؍ستمبر۲۰۲۰ء کو ہاں میں کتنے ووٹ ہیں اور نہیں میں کتنے ہیں کو گنے بغیر آرڈی نینس، جو لوک سبھا میں منظور کئے جاچکے تھے، راجیہ سبھا میں بھی پاس کروا لئے گئے تھے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ نائب چیئرمین ہری ونش نارائن سنگھ ایوان کی ہنگامہ آرائی کے سبب مناسب فیصلہ نہیں کرسکے اس لئے اپوزیشن کے مطالبے کے باوجود یہ گنتی نہیں کروائی جا سکی کہ کتنے ووٹ ہاں میں تھے اور کتنے نہیں میں۔ جس وقت یہ سب ہوا، راجیہ سبھا ٹی وی نے اپنا نظریہ موقوف کردیا تھا اور اراکین پارلیمان کے مائیکروفون بند کر دیئے گئے تھے۔ (یہاں واضح رہنا چاہئے کہ بی جے پی نے اس طریق کار کو ریاستوں میں بھی اپنایا چنانچہ کرناٹک میں، جہاں اسے اکثریت حاصل نہیں تھی، بڑے جانور کے ذبیحہ پر پابندی کا بل صوتی ووٹوں سے منظور کروایا گیا)۔ اسی طریق کار پر قائم رہتے ہوئے دو زرعی بل، جنہیں کسان تنظیموں نے کالے قانون کا نام دیا تھا، صوتی ووٹ سے ہی پاس کروائے گئے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ۲۰۲۰ء کے کسان مخالف بلوں کی تعداد تین تھی جن کے خلاف کسان تنظیموں نے دہلی کی سرحد پر سال بھر سے زیادہ وقت دھرنا دیا تھا۔ اس وقت مودی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ (تین) بل کسانوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے لائے گئے ہیں اور ان کو یہ فائدہ بھی ہوگا کہ کسانوں کی آمدنی دوگنا ہوجائیگی۔ ان بلوں کے ساتھ ایک مسئلہ تو تھا ہی کہ غور و خوض کے بغیر عجلت میں پاس کروائے گئے تھے، دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ یہ آئین کی خلاف ورزی بھی تھی جس کے تحت زراعت سے متعلق قانون بنانے کا اختیار ریاستوں کو حاصل ہے مرکز کو نہیں۔ حکومت نے ریاستوں کے اختیار کو اس دعوے کے ساتھ نظر انداز کیا تھا کہ وہ زراعت سے متعلق تجارت کو منظم کرنا چاہتی ہے زراعتی امور میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔ان تین بلوں پر صدر جمہوریہ نے دستخط کر دیئے تھے اور پھر ان کی حیثیت قانون کی ہوگئی تھی۔کسان تنظیموں نے اس کے بعد ہی بڑی تحریک شروع کی تھی۔
منریگا کی طرح اور بھی کئی قوانین تھے جن سے کروڑوں ہندوستانیوں کی زندگی کا متاثر ہونا صاف نظر آرہا تھا مگر حکومت نے یہ نہیں سوچا کہ متاثر ہونے والے ہندوستانی شہری کیا سوچیں گے اور ان کا ردعمل کیا ہوگا۔جب ردعمل ہوا تب اس میں حیرت کا اظہار کیااور پھر یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اس پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔
جب حکومت نے محسوس کیا کہ زرعی قوانین کو نافذ کرنے سے بڑے مسائل پیدا ہو جائینگے تب اس نے اپنے قدم واپس لئے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ پہلے ہی غوروخوض اور صلاح مشورہ کا راستہ کیوں نہیں اپنایا گیا۔ قدم پیچھے لینے سے تو بہتر یہی تھا کہ ہر زاویئے سے سوچ بچار کیا جاتا اور متعلقہ افراد اور تنظیموں کو اعتماد میں لیا جاتا۔یہ کیوں نہیں ہوتا اور وہ کیوں ہوتا ہے جس کی جانب مضمون کے ابتدائی حصے میں اشارہ کیا گیا، اس کا جواب مضمون نگار کے پاس نہیں ہے البتہ کوئی جواب ہوسکتا ہے تو وہ یہی ہوگا کہ اس ملک میں صرف ایک شخص کے پاس اتنا ذہن اور سوچنے کی طاقت ہے۔ وہ جو مناسب اور ضروری سمجھتا ہے، کرتا ہے بھلے ہی ایک آدھ بار اسے فیصلہ بدلنا پڑا ہو جیسا کہ زرعی قوانین کے سلسلے میں ہوا تھا۔n