Inquilab Logo

کام کتنا ہوچکا ہے وقت کتنا رہ گیا!

Updated: January 05, 2024, 1:29 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

نظیر اکبر آبادی کی ایک نظم کے ایک مصرع سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی طبقے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مالی حیثیت دیکھ کر ایصال ثواب یا فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ راقم کا مشاہدہ یہ ہے کہ مسلم بستیوں اور محلوں میں کم کم سہی مگر اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو بغیر کسی غرض کے مراسم تجہیز و تکفین میں شرکت اور بیماروں کی عیادت کرتے ہیں۔

Photo:INN
تصویر:آئی این این

بدلتا کلینڈر یا گزرتا وقت آنے والی موت کا اشاریہ ہے۔ یہاں  موت کا لفظ ڈرانے کے لئے نہیں  یہ یاددہانی کے لئے استعمال ہوا ہے کہ ’موت تجدید مذاق زندگی کا نام ہے‘۔ اس زندگی میں  یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کارگاہِ عمل میں  کیا کیا، کتنا کیا، بے غرض کیا یا نمود و نمائش کے لئے کیا اور آنے والی زندگی میں  جب اس کارگاہ عمل میں  گزاری ہوئی زندگی کے بارے میں  سوال ہوں  گے تو کیا جواب دیں  گے؟ حسن نعیم مرحوم نے جن کی زندگی کے آخری آٹھ نو برس اسی شہر میں  گزرے اپنے ایک شعر میں  یہ احتساب کرتے رہنے کی تلقین کی ہے کہ زندگی کے ایام بے عملی میں  تو نہیں  گزر رہے ہیں :
کون مجھ سے پوچھتا ہے روز اتنے پیار سے
کام کتنا ہوچکا ہے وقت کتنا رہ گیا
 آخری رسوم بھی اسی لئے ادا کی جاتی ہیں  کہ بزم ہستی سے کوچ کرنے والے کو سکون و راحت اور بزم ہستی کی رونق بڑھاتے رہنے والوں  کو کم سے کم وقت میں  زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر انداز میں  کام کرتے رہنے کی تلقین ہوتی رہے مگر برا ہو رسم پرستی کا کہ پیدا ہونے والے کے استقبال کے لئے ایجاد کی گئی تقریبات کا ہی نہیں  مر جانے والوں  کا سوگ منانے کیلئے منعقد کی جانے والی تقریبات بھی بے روح اور بے مقصد ہوتی جا رہی ہیں  اور ایسا صرف کسی ایک مذہب کے ماننے والوں  میں  نہیں  بیشتر مذاہب کے ماننے والوں  حتیٰ کہ کسی مذہب کے نہ ماننے والوں  میں  بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔
 حال ہی میں  میناکشی دیوان کی ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے جس کا نام دی فائنل فیئرویل ہے۔ اس نام کے کئی ترجمے ہوسکتے ہیں  مگر مجھ کو اس نام کا ترجمہ کرنا ہو تو ’آخرت کے مسافر کو الوداع‘ کروں  گا۔ اس کے مختلف طریقے ہیں ۔ بچپن میں  راقم الحروف نے ایسی کئی ارتھیاں  دیکھی ہیں  جو گاجے باجے کے ساتھ شمشان لے جائی جا رہی تھیں ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا تھا کہ یہ اس شخص کی ارتھی ہے جس نے بھری پری زندگی گزاری، پوتے پوتیوں  کو صاحب اولاد ہوتے دیکھا یعنی ان کی زندگی کی کوئی خواہش باقی نہ رہی۔ ایسا کرنے والوں  کے مذہب میں  سوگ کی مدت بھی نسبتاً طویل ہوتی ہے۔ مسلمانوں  میں  بھی عملاً جو رائج ہے اس کی ترجمانی کرتے ہوئے اکبر نے کہا تھا کہ
بتاؤں  آپ کو مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاؤ کھائیں  گے احباب فاتحہ ہوگا
 پارسیوں  میں  انار کا پانی منہ میں  ڈالنے اور مذہبی صحیفہ پڑھنے کا رواج ہے۔ اسی طرح دوسرے مذاہب کے ماننے والوں  میں  بھی مرنے والے کو راحت پہنچانے اور جس کے گھر میت ہوئی ہو اس سے اظہار تعزیت کرنے کے الگ الگ طریقے رائج ہیں ۔ دہریوں  یا کسی مذہب کو نہ ماننے والوں  کے ساتھ بھی عموماً وہی سلوک کیا جاتا ہے جس جماعت سے ان کا تعلق ہوتا ہے۔ کسی کی نظم ہے کہ رام کو نہ ماننے والوں  کو بھی ہندوستان میں  ’رام نام ستیہ ہے‘ کا ورد کرتے ہوئے رام رام یعنی الوداع کہا جاتا ہے۔ سنیاسیوں  کو جلانے کے بجائے پانی میں  بہا دیا جاتا ہے کہ ان کا ’پنڈ دان‘ پہلے ہی ہوچکا ہوتا ہے۔ دنیا سے وہ پہلے ہی لاتعلق ہوچکے ہوتے ہیں  اس لئے آگ کے سپرد بھی نہیں  کئے جاتے۔
 آخری مراسم کی ادائیگی کے الگ الگ مذاہب اور علاقوں  میں  الگ الگ طریقے ہیں ۔ یہی نہیں  مراسم کی ادائیگی یا ادائیگی میں  مدد دینے والوں  میں  ہر جگہ کچھ بے غرض لوگ بھی مل جاتے ہیں ۔ مسلمانوں  میں  خاص طور سے بغیر کسی صلے کے مراسم تجہیز و تکفین ادا کرنے والے اب تک تو موجود رہے ہیں  مگر کچھ عرصے سے ایسے لوگوں  کو سرگرم دیکھا جا رہا ہے جو تھوڑی سی کمائی یا خود نمائی کے لئے ہٹو بچو کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں ۔ چونکہ ان کا مقصد کمائی ہوتا ہے یہ صرف دولتمندوں  کے گھروں  میں  اور ایسے ہی موقعوں  پر اچھل کود کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ میرے ذہن میں  ایک ایسا رشتہ دار ہے جو میرے والد یا والدہ کے جنازے یا ایصال ثواب کی مجلسوں  میں  تو نہیں  دکھائی دیا تھا مگر یہ شکایت کرتے نہیں  تھکتا تھا کہ وہ حج کرنے گیا تو راقم نے اس کی دعوت نہیں  کی تھی۔ ایک اور واقعہ تکلیف کا باعث ہے کہ ایک بزرگ کے مرنے پر جب مَیں  نے کھانا بھیجا تو وہ کھانا دوسروں  کو دیدیا گیا کہ کچھ دولتمند لوگوں  نے کھانا بھجوا دیا تھا۔ کیا دولت آنے یا جانے سے رشتہ داریاں  بدل جاتی ہیں ۔ مَیں  ایسے رشتوں  کو سپرد خاک کرنے میں  یقین رکھتا ہوں ۔
 پیشہ وروں  کی روزی کا تو انحصار ہی میت کے گھر کی عطا پر ہے۔ میراثین نہ صرف مراسم تجہیز و تکفین ادا کرتیں  بلکہ دوسرے کام بھی کرتیں  اور صلہ پاتی ہیں ۔ راجستھان میں  ’ردالیوں ‘ کو مرنے والے پر رونے کی اجرت دی جاتی ہے۔ جنوبی ہند کی کچھ برادریوں  یا جماعتوں  میں  میت کے نام پر گانے بجانے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اور اس کی انہیں  اجرت ملتی ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی ایک نظم کے ایک مصرع سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی طبقے میں  ایسے لوگ بھی ہیں  جو مالی حیثیت دیکھ کر ایصال ثواب یا فاتحہ خوانی کرتے ہیں ۔ راقم کا مشاہدہ یہ ہے کہ مسلم بستیوں  اور محلوں  میں  کم کم سہی مگر اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں  جو بغیر کسی غرض کے مراسم تجہیز و تکفین میں  شرکت اور بیماروں  کی عیادت کرتے ہیں  لیکن بڑے شہروں  میں  وقت کی قلت، روزگار اور ملازمت کی نزاکت یا مراسم کی ادائیگی کے لئے زر نقد کی ضرورت سے مجبور ایسے لوگوں  کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو آخری مراسم بھی جلد از جلد اور کم سے کم خرچ میں  پورا کرنا چاہتے ہیں ۔ مَیں  اکثر سوچتا ہوں  کہ جائے پیدائش چھوٹے ۵۲؍ سال گزر چکے ہیں  اور جس شہر میں  ہوں  وہاں  سب اپنے ہیں  مگر اپنوں  کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں  ہے۔ آخری علاج یہی سمجھ میں  آتا ہے کہ آخری سانس تک فیض رسانی کی دعا کرتا رہوں  اور جب سانسوں  کی دوڑ ٹوٹے تو کچھ لوگ سنت کا لحاظ کرتے ہوئے سپرد خاک کر دیں ۔ جو لوگ دعاؤں  میں  یاد رکھیں  گے ان کا پیشگی شکریہ۔ جن کے پاس دعا خوانی کا وقت نہیں  ان سے بھی کوئی شکایت نہیں ۔ مَیں  ایصال ثواب اور دعا خوانی کا قائل ہوں  مگر معاوضہ دے کر دعا کروانے یا دعا خوانی کے لالچ میں  کسی سے تعلق رکھنے کے حق میں  نہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK