Inquilab Logo

این آئی اے کے انکشافات اور سچن وازے

Updated: April 02, 2021, 4:59 PM IST

سچن وازے کیس کی جتنی پرتیں کھل رہی ہیں، اُتنا ہی اس خیال کو تقویت مل رہی ہے کہ بعض اعلیٰ افسران اپنےآپ میں ایک غیر معمولی طاقت بن جاتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کا اثرورسوخ بھی غیرمعمولی ہوجاتا ہے۔ اسی کے ذریعہ وہ اپنے لئے ’’موافق حالات‘‘ پیدا کرتے رہتے ہیں تاکہ پولیس فورس میں رہتے ہوئے اُن منفعتوں کو حاصل کرسکیں جو اُن کا ہدف ہوتی ہیں۔

Sachin Vaze. Picture:INN
سچن وازے۔تصویر :آئی این این

  سچن وازے کیس کی جتنی پرتیں کھل رہی ہیں، اُتنا ہی اس خیال کو تقویت مل رہی ہے کہ بعض اعلیٰ افسران اپنےآپ میں ایک غیر معمولی طاقت بن جاتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کا اثرورسوخ بھی غیرمعمولی ہوجاتا ہے۔ اسی کے ذریعہ وہ اپنے لئے’’موافق حالات‘‘ پیدا کرتے رہتے ہیں تاکہ پولیس فورس میں رہتے ہوئے  اُن منفعتوں کو حاصل کرسکیں جو اُن کا ہدف ہوتی ہیں۔ سچن وازے کی داستان ایک ایسے افسر کی داستان کے طور پر کھلتی جارہی ہے جس نے اپنے لئے غیر معمولی اہداف مقرر کررکھے تھے ۔ اُسے ان اہداف کو پانے میں کئی چیلنجوں سے گزرنا پڑا حتیٰ کہ معطلی کا دھبہ بھی دامن پر لگا مگر اس نے اپنا ’’مشن‘‘ جاری رکھا۔ یہ مشن ازسرنو جاری نہ ہوتا اگر اس پولیس افسر کی معطلی ختم کرکے اُسے فورس میں دوبارہ شامل نہ کیا گیا ہوتا۔ یہ سوال ارباب سیاست سے بھی پوچھا جارہا ہے اور پولیس کے اُس وقت کے سربراہ سے بھی کہ سچن وازے کی بحالی کی ایسی کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ اُن کیلئے ضابطے کو بالائے طاق رکھ دیا گیا؟ ممبئی کے سابق پولیس کمشنر اور مہاراشٹر کےسابق ڈی آئی جی شری ڈی شیوانندن نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اس ضابطے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’بااختیار افسر (کامپیٹنٹ اتھاریٹی) کے ذریعہ تمام معطل شدہ افسران کے کیس پر غور کرنا ایک طریقۂ کار ہے مگر کسی اور افسر کے کیس پر غور نہ کرنا اور صرف سچن وازے کو بحال کرنا ایسا عمل ہے کہ جس سے دال میں کچھ کالا ہونے کا احساس ہوتا ہے۔‘‘ شیوانندن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ان کا بحال کیا جانا ستم تھا تو بالائے ستم ہوا یہ کہ اُنہیں کلیدی عہدے پر فائز کیا گیا۔ ممکن ہے سیاستدانوں نے اُنہیں بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہو مگر اہم معاملات تو افسر اعلیٰ نے اُن کے سپرد کئے، وزیر اعلیٰ یا وزیر داخلہ نے ایسا کرنے کی ہدایت تو نہیں دی ہوگی!‘‘ 
 سچن وازے کے کیس سے ایک اور بات مستحکم ہورہی ہے۔ جب تفتیشی ایجنسیاں چاہتی ہیں کہ کیس کی تحقیقات میں کوئی کسر باقی نہ رکھی جائے تو ان کی فعالیت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، جیسا کہ اِس وقت این آئی اے کی سرگرمی ہر خاص و عام کے سامنے ہے۔ اس کے برخلاف کیا ہوتا ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ جب ایک قانونی ذمہ داری ایسے دُہرے معیار کے ساتھ انجام دی جاتی ہو تو انصاف کس معیار پر قائم رہ سکتا ہے اور اس کے تقاضے کیونکر پورے ہوسکتے ہیں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ یہی سچن وازے خواجہ یونس قتل کیس کے ملزم ہیں۔ خواجہ یونس کے والدین کو ۱۱۔۱۲؍ سال بعد بھی انصاف نہیں مل سکا ہے۔ 
  یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سچن وازے کی بحالی سے بھی ممبئی پولیس کی ساکھ متاثر ہوئی اور اب این آئی اے کے ذریعہ آئے دن کے انکشافات سے بھی ہورہی ہے جبکہ ممبئی پولیس کی اپنی تاریخ ہے ، اسے اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کے بعد پوری دُنیا میں سب سے بہتر فورس تصور کیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں بامبے ہائی کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران یہ بات دُہرائی تھی۔ بہرکیف، ساکھ اور شبیہ کا جتنا نقصان ہوچکا ہے اُس کے پیش نظر لازم ہے کہ یہ محکمہ اور اس کی سربراہی کرنے والی وزارت و حکومت پیش آنے والے واقعات کا احتسابی نقطۂ نظر سے جائزہ لیں اور یہ عزم کریں کہ جو غفلت، تساہلی اور چشم پوشی ماضی میں ہوئی ہے اُس کا سایہ مستقبل میں دوبارہ دراز نہیں ہوگا۔ ریاست مہاراشٹر کی اپنی شان اور ممبئی پولیس کا اپنا وقار ہے۔ یہ محنت سے کمایاہوا اثاثہ اپنی آب و تاب نہ کھودے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK