Inquilab Logo

کیا سزائے موت جنسی جرائم میں مانع ہوگی؟

Updated: March 26, 2020, 12:01 PM IST | Khalid Shaikh

انیس مارچ کو عدالتی حکم کی تعمیل نے نربھیا کے چاروں ملزمین کو بیک وقت پھانسی دی گئی ۔ پورے ملک میں اس پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا گیا لیکن سب سے زیادہ خوشی نربھیا کے والدین کو ہوئی۔

Nirbhaya Case Justice - Pic : INN
نربھیا کیس ۔ تصویر : آئی این این

 کورونا کی وبا نے ساری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے ۔ ہندوستان میں یہ وبا دیر سے آئی لیکن جب سے آئی ہے کوئی دن اس کی ہلاکت خیزی ، تباہ کاری اور سماج پر پڑنے والے برے اثرات کی خبروں سے خالی نہیں جاتا ہے ۔ ۲۲؍ مارچ سے مکمل یا جزوی کرفیو سے زندگی گزار رہا ہے ۔ ۲۴؍ مارچ کو قوم کے نام خطاب میں اگلے تین ہفتوں تک پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کرے مودی نے لوگوں میں دہشت پھیلا دی یہ اعلان نوٹ بندی کی طرح بغیر کسی تیاری اور منصوبے کے عجلت میں کیاجانے والا اعلان تھاجس کا فوری اثر یہ ہوا کہ اسٹورس اور دکانوں پر روز مرہ کی ضروریات ذخیر ہ کرنے کے لئے بھیڑ امڈ آئی ۔ اشیاء خوردنی کے دام آسمان کو جھونے لگے ۔ ایک دوسرا اثر یہ ہوا کہ ملک لاحق حقیقی مسائل اور اہم واقعات پس پشت چلے گئے ۔ نربھیا کے قاتلوں کو دی جانے والی پھانسی ایسا ہی ایک واقعہ ہے جس پر سیر حاصل بحث کے ذریعے حکومت اور پولیس عدالتی نظام کی خامیوں کو اجاگر کرنا چاہئےتھا ایسا نہیں ہوا لیکن اسے ایک با ر پھر اس اندوہناک سانحہ کی یاد تازہ کردی۔
 ۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۲ء کو چند اوباش نے پیرامیڈیکل کی ۲۳؍ سالہ طالبہ کے ساتھ جسے نربھیا کا نام دیا گیا جس جنسی درندگی اور سفاکی کا مظاہرہ کیا اس سے پورے ملک سکتے میں آگیا۔ جب جرم کی تفصیلات سامنے آئی اتو انسانیت کراہ اٹھی، عوام بپھر اٹھے اور سڑکوں پر اتر آئے، ہر کوئی ملزمین موت کا مطالبہ کررہا تھا خواتین مصر تھیں کہ ملزموں کو ان کے حوالے کیاجائےتا کہ وہ انہیں اپنے طریقے سے سزا دیں عوامی برہمی کو دیکھتے ہوئے حکومت حرکت میں آئی اوراپنے خرچ پر نربھیا کو مزید علاج کیلئے  سنگاپور کے اسپتال منتقل کیا۔ جہاں زندگی اور موت سے جوجھتی بہادر طالبہ نے ۲۹؍ دسمبر ۲۰۱۲ء کو موت کے آگے سپر ڈال دی وہ تو ہمیشہ کیلئے سو گئی لیکن پورے ملک کو ایک بار پھر بیدار اور سواگوار کردیا۔مظاہروں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا ، عورتوں کے تحفظ اور ملزمین کی موت کا مطالبہ پھر زور پکڑگیا۔ مجبوراً اسے آبرویزی کے نادر ترین جرائم میںقانون میں ترمیم کے ذریعے سزائے موت ، پولیس گشت میں اضافہ، روزمرہ سماعت کی بنیاد پر فاسٹ ٹریک کورٹ کا قیام اور خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے عدالتی کمیشن کی تشکیل کا اعلان کرنا پڑا ۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آنجہانی جے ۔ ایس ورما کی سربراہی میں قائم کی گئی سہ نفری کمیٹی نے خواتین کے خلاف مظالم اور جرائم کے ہرپہلو کا جائزہ لیا، جنسی نقطہ ٔ نظر سے ہر قابل اعتراض رویے پر گرفت کی ، سنگین معاملات میں سزا کی میعاد بڑھائی لیکن موت اور خصّی بنانے کی سزا اور سنِ بلوغت کی عمر ۱۸؍ سے گھٹا کر ۱۶؍ سال کرنے کی تجاویز کو مسترد کردیا اور سیاست میں جرائم پیشہ افراد کی شمولیت پر نکیر کی اور سیاست کو ان عناصر سے پاک کرنےکیلئے انتخابی قوانین میں مناسب ترمیم کا مشورہ  دیا۔
 کمیٹی کے چند سفارشات سے اتفاق کرنے کے باوجود اس کی رپورٹ کو بڑی حد تک جامع قرار دیاجاسکتا ہے لیکن اس کا حشر بھی دیگر کمیشنوں کی رپورٹوں جیسا ہوا کیونکہ کوئی بھی حکومت ان کی سفارشات کو سنجیدگی سے نہیں لیتی ہے ۔ کمیشن کے قیام کا مقصد عوام اور اپوزیشن کے غصے کو ٹھنڈا کرنا اوراپنی پسند کے سابق ججوں اور افسر شاہوںکیلئےفاضل آمدنی اور دیگر سہولتیں مہیا کرنا ہوتا ہے۔ ماہرین قانون، کمیشنوں کے قیام اور ان کی میعاد میں توسیع پر توسیعکو وقت اور عوامی سرمائے کا زیاں قراردیتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال بابری مسجد کی مسمار ی کے ٹھیک دس دن بعد تشکیل دیاجانے والا لبرہن کمیشن ہے جس نے اپنی میعاد میں ۴۸؍ توسیعات اور ۳۹۹؍ نشستوں اور سماعتوں کے ساتھ رپورٹ داخل کرنے میں ۱۷؍ سال لگادیئے ۔لیکن ہوا کیا؟ مسماری کی سازش رچنے اور مسمار کرنے والوں میں سے کچھ تو مرکھپ گئے ، جو زندہ ہیں ان کا معاملہ تاریخ پر تاریخ کی روایت کے ساتھ آج بھی لنگڑی لولی رفتار سے عدالتوں میں چل رہا ہے ۔ یہی حال نربھیا کے انتقال کے بعد کئے جانے والے سرکاری اعلانات کا ہوا ۔حکومت نے ریپ معاملات کو جلد فیصل کرنے کیلئے ۱۰۲۳؍فاسٹ ٹریکس کورٹس ( ایف ٹی سی ) قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ۲؍ جنوری ۲۰۱۳ء سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس التمش کبیر نے تمام ہائی کورٹس کو اس ضمن میں ہدایت جاری کی لیکن اب تک صرف ۳۶۶؍ ایف ٹی سی قائم ہوئے ہیں جبکہ خواتین اور کمسن بچیوں اور نابالغات کے خلاف کے جنسی جرائم میں ۴۶؍ فیصد اضافہ ہوا اور تعداد ۲۰۱۸ء کے ۱ء۶۶؍ لاکھ سے بڑھ کر ۲ء۴۴؍ لاکھ ہوگئی جس میں posco act کے تحت بچوںاور نابالغات کے خلاف جرائم میں گرفتار ملزمین کی اکثریت ہے۔ جرائم کی تعداد کے مقابلے عدالتوں اور ججوں کی تعداد اور اثبات جرم کی شرح بے حد کم ہے۔ ماہرین قانون اور تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ ثبوت وشوہد اکٹھا کرنے میں پولیس عملہ کی ناتجربہ کاری ،ناقص تفتیش، عدالتی تاخیر ، چشم دید گواہوں کی کمی فورینسک رپورٹ اور چارج شیٹ داخل کرنے میں تاخیر اور سیاسی مداخلت وہ عناصر ہیں جو معاملات فیصل کرنے اور انصاف کے حصول میں مانع ہوتے ہیں ۔ 
 نربھیا معاملے میں فیصلہ فاسٹ ٹریک کورٹ کے ذریعے نومہینے کے اندر یعنی ۱۳؍ ستمبر ۲۰۱۳ء کو آیا جسے ہندوستانی میعار کے حساب سےتیز رفتاری سے تعبیر کیاجاسکتا ہے۔ کورٹ نے چاروں ملزمین کو سزائے موت سنائی لیکن ذیلی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک اپیل در اپیل ،کیوریٹیوپٹیشن اور صدر جمہوریہ سے رحم کی درخواستوں کے چلتے سزا کو عملی جامہ پہنانے میں ساڑھے چھ سال لگ گئے جو فوجداری معاملات عدالتی نظام کی خامیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ۱۹؍ مارچ کو عدالتی حکم کی تعمیل نے نربھیا کے چاروں ملزمین کو بیک وقت پھانسی دی گئی ۔ پورے ملک میں اس پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا گیا لیکن سب سے زیادہ خوشی نربھیا کے والدین کو ہوئی جو گزشتہ۷؍ سال سے اپنی بیٹی کی یاد سینوں میں لئے انصاف کے حصول میں امید وبیم کی اذیتوں سے گزررہے تھے۔ نربھیا کو انصاف مل گیا لیکن کیا اس جیسی ہزاروں مظلومین کو انصاف ملے گا؟ کیا سزائے موت جنسی جرائم کے مانع ہوگی؟ ہمارا جواب وہی ہے جو آپ سوچ رہے ہیں۔کیونکہ خرابی سسٹم میں ہے اور آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK