Inquilab Logo

قرطاس ابیض و اسود ایک سیاسی داؤ

Updated: February 26, 2024, 1:20 PM IST | P Chidambaram | Mumbai

بی جے پی کا قرطاس ابیض اور کانگریس کا قرطاس اسود، ان کے سیاسی داؤ پیج کا حصہ ہیں۔ بہتر ہوتا کہ پارلیمنٹ میں ان پر بحث ہوتی اور معیشت کے استحکام کیلئے اقدامات کئے جاتے مگر ایسا نہیں ہوا۔ تاہم، عوام کے پاس موقع ہے کہ وہ ان کے مشمولات پر بحث کرکے سچ اور جھوٹ کو بے نقاب کریں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

جنونی کیفیت اکثر ہمیں  صحیح طریقۂ کار کے انتخاب سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ عموماً، انتخابات سے قبل حکومت عبوری بجٹ پیش کرتی ہے اور پارلیمنٹ سے اپریل تا آئندہ سال جولائی کے عرصہ کیلئے اعتماد کا ووٹ حاصل کرتی ہے۔ اس ضمن میں  وزیر مالیات کی تقریر اہمیت کی حامل ہوتی ہے جس سے ہمیں  سالِ گزشتہ میں  حکومت کی کامیابیاں  اور مستقبل کی حکمت عملی سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ اس سال عبوری بجٹ پیش کرتے وقت وزیر مالیات نرملا سیتارمن کی تقریر میں  مذکورہ بالا دونوں  نکات موجود تھے لیکن۸؍ فروری کو حکومت کے ’’قرطاسِ ابیض‘‘ اور کانگریس کے ’’قرطاسِ اسود‘‘ پیش کرنے کے بعد وزیر مالیات کی تقریر کی اہمیت کم ہوگئی ہے۔
 اگر بی جے پی اپنے دس سالہ دورحکومت پر قرطاس ابیض پیش کرتی تو شاید اتنا ہنگامہ نہ ہوتا لیکن حیرت انگیز طور پر حکومت نے یو پی اے کے دورحکومت(۲۰۰۴ء تا ۲۰۱۴ء) پر قرطاس ابیض پیش کیا۔ دراصل، اس کا مقصد یوپی اے کے دورحکومت کو ہندوستانی تاریخ کا سیاہ باب قرار دینا تھا لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ اس اقدام کے چلتے یوپی اے کی کامیابیاں  بھی زیر بحث آگئی ہیں ۔ اگر این ڈی اے اور یوپی اے حکومتوں  میں  موازنہ کیا جائے تو یوپی اے نے کئی پیمانوں  پر این ڈی اے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسی لئے مَیں  نے حکومت کے اس اقدام کو جنونی قرار دیا لیکن بی جے پی کی حکمت عملی کو نظر انداز نہیں  کیا جاسکتا جو بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں  ماہر ہے۔ سیاہ و سفید کی اس بحث میں  مستقل قیمتوں  پر ملک کی اوسط شرحِ نمو توجہ کا مرکز بنی۔ 
 اس پیمانے پر یوپی اے کا اسکور بہتر رہا۔ ۰۵۔۲۰۰۴ء کے بنیادی سال کے مطابق یوپی اے کے دس برسوں  میں  اوسط شرح نمو ۷ء۵؍ فیصد تھی۔ ۲۰۱۵ء میں  بی جے پی حکومت نے اپنی شبیہ بہتر بنانے کیلئے ۱۲۔۲۰۱۱ء کو بنیادی سال بنایا۔ اس کے باوجود یوپی اے کے دس سال کی اوسط شرح نمو ۶ء۷؍ فیصد رہی۔ اس کے بالمقابل بی جے پی حکومت کے دس سالہ دور میں  اوسط شرح نمو ۵ء۹؍ فیصد سے آگے نہ بڑھ پائی۔۰ء۸؍ یا ۱ء۶؍ فیصد فی سال کا یہ فرق معمولی اور غیر اہم نہیں  ہے۔ اس معمولی نمبر سے معیشت کی جسامت، فی کس آمدنی، اشیا و خدمات کے حجم، کل برآمدات، حکومت کی آمدنی اور مالیاتی خسارہ اور دیگر کئی پیمانوں  پر غیر معمولی فرق پڑتا ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ بات سے بات نکلتی ہے۔ ابھی موازنہ کا یہ کھیل شروع ہوا ہے۔ آپ ان اعدادوشمار پر بھی نظر ڈالئے۔ 
 یوپی اے حکومت کے آخری سال میں  مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا ۴ء۵؍ فیصد تھا جبکہ این ڈی اے کے آخری سال خسارہ بڑھ کر ۵ء۸؍ فیصد ہوگیا۔ یوپی اے حکومت میں  قومی قرض ۵۸؍ لاکھ کروڑ روپے یعنی جی ڈی پی کا ۵۲؍ فیصد تھا جبکہ این ڈی اے کے دور حکومت میں  قرض ۷۳؍ لاکھ کروڑ روپے تک جاپہنچا ہے جو جی ڈی پی کا ۵۸؍ فیصد ہے۔ اسی طرح یو پی اے کے دور میں  گھریلو بچت کی شرح، مزدوروں  کی آمدنی میں  اضافہ کی شرح، طبی نظام اور شعبہ تعلیم پر خرچہ بالترتیب۲۳؍ فیصد،۴؍ فیصد، جی ڈی پی کا ۱ء۷؍ فیصد اور ۴ء۶؍ فیصد تھی جبکہ این ڈی اے کے دور میں  یہ نمبر بالترتیب ۱۹؍ فیصد ، ۱ء۳؍ فیصد، ۱ء۷؍ اور ۲ء۹؍ فیصد ہیں ۔ یوپی اے نے مجموعی طور پر ۲؍ لاکھ کروڑ روپے معاف کئے جبکہ این ڈی اے نے دس سال میں  ۱۴ء۵؍ لاکھ کروڑ روپے کا قرض معاف کردیا۔ 
 کچھ پیمانے ایسے ہیں  جن میں  این ڈی اے کی کارکردگی اچھی ہے۔ لیکن دیگر کئی پیمانوں  پر این ڈی اے کی کارکردگی کافی خراب ہے۔ میرا خیال ہے کہ کل قومی قرضہ میں  اضافہ، گھریلو بچت میں  زبردست کمی، غیرمعمولی بینک لون کی معافی، صحت اور تعلیم کے شعبوں  پر کم لاگت اور مرکزی حکومت کے افسران کی تعداد میں  کمی جیسے پیمانوں  پر میسر اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی نے ملک کی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اور اس کی غلط پالیسیاں ، ہندوستانی معیشت کیلئے سوہان روح بن گئی ہیں ۔
 دوسری جانب حکومت کا قرطاس ابیض خوب سفید تھا جس کی چمک کے سامنے یوپی اے حکومت کی کامیابیوں  کی روشنی ماند پڑ گئی، وہیں  اس نے این ڈی اے کی ناکامیوں  مثلاً نوٹ بندی اور چھوٹی صنعتوں  کی بربادی کو بڑی صفائی سے ڈھکنے کا فریضہ بھی انجام دیا۔ دراصل، قرطاس ابیض سفید جھوٹوں  کا پلندہ ہے جس کے ذریعہ بی جے پی نے کانگریس حکومت کی کامیاب پالیسیوں  مثلاً جن دھن یوجنا، آدھار اور موبائل انقلاب کا سہرا ، اپنی حکومت کے سر باندھ لیا۔ قارئین جانتے ہیں  کہ یہ اسکیمیں  کانگریس کی ہیں ۔ 
 یوپی اے کے دور میں  معیشت کی مبینہ بدانتظامی، جس کا تذکرہ قرطاس ابیض میں  بھی ملتا ہے، ۲۰۰۸ء تا ۲۰۱۲ء کے عرصہ میں  ہوئی۔ ستمبر ۲۰۰۸ء میں  عالمی مالیاتی بازار میں  مندی چھا گئی تھی اور ہر ملک مندی کی لپیٹ میں  آیا تھا۔ بڑی معیشتوں  کے قرض اور خرچ میں  اضافہ کی وجہ سے مہنگائی آسمان چھونے لگی تھی۔ جنوری ۲۰۰۹ء سے جولائی ۲۰۱۲ء تک ہندوستان کا مالیاتی خسارہ اور مہنگائی عروج پر تھی اور اس دوران پرنب مکھرجی وزیر مالیات تھے۔ 
 میرا خیال ہے کہ انہوں  نے منطق کا سہارا لیتے ہوئے نمو اور روزگار پر توجہ دی جس کی قیمت مہنگائی اور مالیاتی خسارہ کی صورت میں  چکانی پڑی۔ 
 کانگریس کا قرطاس اسود بھی یکطرفہ تھا جس میں  زرعی شعبہ پر شدید دباؤ، مسلسل بڑھتی مہنگائی، بیروزگاری کی بے قابو شرح اور دوست پروری کے مسائل شامل تھے۔ اس میں  تفتیشی ایجنسیوں  کو ہتھیار بنانا، ہندوستانی علاقوں  میں  چینی دراندازی اور منی پور سانحہ جیسے موضوعات پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی۔ اس طرح، قرطاس اسود اپنے عنوان کی مطابق بی جے پی کی ناکامیوں  کا مسودہ تھا۔
 سیاہ و سفید کے پس منظر میں  معاشی فکرمندی کم اور سیاست زیادہ تھی حالانکہ معاشی حقائق جگ ظاہر ہیں ۔ ان مسودوں  میں  اٹھائے گئے مسائل پر پارلیمنٹ کے دونوں  ایوانوں  میں  بحث ہوسکتی تھی لیکن یہ حکومت کی منشا کے خلاف ہے جسے ہر طرح کی بحث سے سخت الرجی ہے۔ بہرحال، قرطاس ابیض و اسود نے ملک کے انتخابی موسم میں  بحث کیلئے موضوعات فراہم کردیئے ہیں ۔ اب وقت ہی بتائے گا کہ کیا عوام ان موضوعات پر گفتگو میں  دلچسپی دکھائیں  گے یا دولت، مذہب، نفرت پر مبنی تقاریر اور طاقت کا غلط استعمال جیسے ہتھکنڈے انتخابات پر غالب رہیں  گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK