انتیسویں پارے کی پہلی سورہ الملک ہے۔ اس کی ابتدائی آیات میں کائنات کے نظام کے متعلق بتلایا گیا ہے کہ یہ انتہائی محکم نظام ہے
EPAPER
Updated: April 29, 2022, 12:48 PM IST | Maulana Nadeem Alwajidi | Mumbai
انتیسویں پارے کی پہلی سورہ الملک ہے۔ اس کی ابتدائی آیات میں کائنات کے نظام کے متعلق بتلایا گیا ہے کہ یہ انتہائی محکم نظام ہے
انتیسویں پارے کی پہلی سورہ الملک ہے۔ اس کی ابتدائی آیات میں کائنات کے نظام کے متعلق بتلایا گیا ہے کہ یہ انتہائی محکم نظام ہے، اس میں نہ کسی طرح کا کوئی عیب ہے اور نہ کوئی نقص، اس نظام کا ہر عنصر اپنی جگہ مکمل اور مستحکم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پورا نظام خدا ہی کا پیدا کردہ ہے اورو ہی اس کا مدبر اور نگراں ہے، اس کائنات میں انسان بلامقصد پیدا نہیں کیا گیا، یہ اس کے لئے دارالامتحان ہے حسن عمل ہی سے وہ اس امتحان میں کامیاب ہوسکتا ہے، اس کے باوجود بھی اگر انسان کفر پر آمادہ ہے تو وہ خود آخرت میں اس کے ہول ناک نتائج کامشاہدہ کرلے گا۔ اگلی تین آیتوں میں انسان کو اس حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے کہ خدا سے تمہاری کوئی چھپی یا کھلی بات پوشیدہ نہیں ہے، وہ تمہارے دل کے خیالات سے بھی آگاہ ہے، اس لئے انسان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس باخبر اورعلیم ہستی سے ڈرے۔ آنے والی سات آیتوں میں کائنات کے بعض ایسے حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے جو آنکھوں کے سامنے ہیں، لیکن دلوں پر غفلت کا پردہ پڑا ہوا ہے، اس لئے ہم ان حقائق کا صحیح ادراک نہیں کر پاتے، مثال کے طور پر یہ زمین ہی ہے، اس پر ہم اطمینان کے ساتھ چل پھر بھی رہے ہیں اور اس میں سے اپنا رزق بھی حاصل کررہے ہیں، یہ زمین ہمارے تابع فرمان ہے، کس کے حکم سے؟ خدا کے حکم سے، ورنہ اسے کوئی زلزلہ تباہ وبرباد بھی کرسکتا ہے اور کوئی طوفان تہس نہس بھی کرسکتا ہے، یہ حقائق تمہارے لئے ہیں، لیکن تم ان کو جانوروں کی طرح دیکھتے ہو جو حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس کے بعد چند آیات میں یہ بتلایا گیا ہے کہ نبی کا کام یہ نہیں کہ تمہیں دن اور تاریخ بتلائے، اس کا کام تمہیں آنے والے خطرے سے آگاہ کرنا ہے، آخر میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ ان ریگ زاروں میں اور پہاڑی علاقوں میں تمہاری زندگی کا انحصار پانی پر ہے جو کسی جگہ سے نکل آتا ہے، اگر یہ پانی زمین میں اتر جائے تو تمہیں یہ آب حیات دینے والا اللہ کے سوا کون ہے۔ سورۂ القلم کا آغاز قلم کی قسم سے ہوتا ہے۔اس کے تین بنیادی موضوع ہیں، مخالفین کے اعتراضات کا جواب، ان کو پند ونصیحت اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کرنے اور ثابت قدم رہنے کی تلقین۔ فرمایا گیا کہ یہ لوگ آپ کو دیوانہ کہتے ہیں حالاں کہ جو کتاب عظیم آپ ان لوگوں کے سامنے پیش کررہے ہیں اور آپ کی زندگی کا ہر پہلو جس خلق عظیم کا نمونہ ہے وہ خود ان کی تردید کے لئے کافی ہے، عنقریب ہی یہ فیصلہ ہوجائے گا کہ دیوانہ کون ہے اور عقل مند کون ہے۔ اس سورہ میں ایک باغ کی بھی مثال پیش کی گئی ہے، باغ والوں نے اللہ کی عطا کردہ نعمت کی ناقدری کی اور یہ سمجھے کہ یہ سب کچھ ان کی محنت کا ثمرہ ہے۔ ایک رات انہوں نے قسم کھائی کہ ہم صبح کو باغ کے پھل توڑیں گے، لیکن رات کو جب وہ سوئے تو آپ کے رب کی طرف سے ایک بلا باغ پر آئی اور اسے ویران کرگئی اور اس کا حال ایسا ہوگیا جیسی کٹی ہوئی فصل ہو۔ صبح سویرے جب وہ باغ کی طرف گئے تو وہاں کچھ بھی نہ تھا، آپس میں کہنے لگے شاید ہم راستہ بھول گئے ہیں۔ ان میں سے ایک نیک شخص نے کہا میں نے پہلے ہی تم سے کہا تھا کہ ہم اللہ کی تسبیح نہیں کرتے ہیں ، تب جاکر وہ توبہ استغفار کرنے لگے اور ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔ عذاب اور آخرت کا عذاب اس سے بھی بڑا ہے، کاش وہ اس بات کو سمجھتے۔ اگلے رکوع میں براہ راست خطاب اہل مکہ سے ہے کہ آخرت کی بھلائی لازمی طور پر ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا۔ آخر میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نصیحت فرمائی گئی کہ صبر سے کام لیجئے، اس راہ میں جو سختی پیش آئے اس کو برداشت کیجئے اور اس بے صبری میں نہ پڑیں جس کی وجہ سے حضرت یونس علیہ السلام آزمائش میں مبتلا ہوگئے تھے۔
سورۂ الحاقہ کے پہلے رکوع میں بتلایا گیا ہے کہ قیامت ایک ایسی حقیقت ہے جو سامنے ضرور آئے گی، قوم ثمود اور قوم عاد نے اس کو جھٹلایا تو قوم ثمود ایک سخت حادثے میں ہلاک کردی گئی اور قوم عاد طوفانی آندھی میں برباد ہوگئی۔ دوسری قوموں پر آنے والے عذاب کا بھی ذکر ہے۔ پھر قیامت کے بیان کی طرف واپسی ہے اور بتلایا گیا ہے کہ اس روز تم سب اللہ کی عدالت میں پیش کئے جاؤ گے، اور تمہارا کوئی راز ایسا نہ ہوگا جو چھپا ہوا ہو۔ جن کے دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال ہوگا وہ جنت میں دائمی راحت پائیں گے، اور جس کے بائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال ہوگا وہ پچھتائے گا اور کہے گا کاش میرا نامۂ اعمال میرے ہاتھ میں نہ دیا گیا ہوتا۔ حکم ہوگا کہ اسے پکڑو اور اس کی گردن میں طوق ڈال کر اس کو جہنم کے حوالے ۔سورہ کے آخر میں اللہ رب العزت نے قسم کھا کر کہا کہ یہ قرآن نہ کسی شاعر کا قول ہے اور نہ کسی کاہن کا قول ہے۔ سورۂ المعارج کا موضوع بھی قیامت، آخرت، جنت اور دوزخ ہی ہے۔ سورہ کے آغاز میں فرمایا کہ مانگنے والے نے (بہ طور چیلنج) عذاب مانگا ہے جو ضرور واقع ہونے والا ہے اور یہ عذاب کافروں کے لئے ہے، اسے کوئی دفع کرنے والا نہیں ہے، آپ صبر جمیل سے کام لیں۔ جس عذاب کو یہ بہت دور سمجھ رہے ہیں ہم اسے بہت قریب دیکھ رہے ہیں، وہ دن جلد آنے والا ہے، جس روز آسمان پگھلی ہوئی چاندی کی طرح ہوجائے گا۔ آگے قیامت کی منظر کشی کی گئی ہے اور بتلایاگیا ہے کہ قیامت کے عذاب اور جہنم کی آگ کے مستحق وہ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں حق سے اعراض کیا۔ لیکن جن لوگوں کے دلوں میںخدا کا خوف تھا، جو آخرت کو مانتے تھے، نماز پڑھتے تھے، اپنے مال میں سے خدا کے محتاج بندوں کا حق نکالتے تھے اور بدکاریوں سے دور تھے، امانت میں خیانت نہیں کرتے تھے، قول وقرار کے پابند تھے، سچی گواہی دیا کرتے تھے وہ جنت میں باعزت زندگی گزاریں گے۔ اس سورہ کے اگلے رکوع میں ان کفار مکہ کو تنبیہ کی گئی ہے جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ تلقین کی گئی ہے وہ ان مذاق اڑانے والوں کی پروا نہ کریں۔ سورۂ نوح میں حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ تفصیلاً بیان کیا گیا ہے، اور مقصود کفار مکہ کو یہ بتلانا ہے کہ باز آجاؤ ورنہ تمہارا حشربھی حضرت نوحؑ کی قوم جیسا ہوجائے گا۔ یہ قصہ پہلے بھی گزر چکا ہے ۔ اس سورہ کا اختتام حضرت نوحؑ کی ایک پر اثر دُعا پر ہوتا ہے: اے میرے رب ان کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ، اگر آپ نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ آپ کے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل میں جو بھی پیدا ہوگا وہ بدکار اور انتہائی کافر ہی ہوگا۔اے میرے رب مجھے اور میرے والدین کو اور اس شخص کو جو میرے گھر میں مومن کی حیثیت سے داخل ہوا ہے اور سب مومن مردوں اور عورتوں کی مغفرت فرما دیجئے۔
سورۂ جن میں ایک خاص واقعے کی طرف اشارہ ہے ایک مرتبہ سرکار دو عالم ﷺ بازار عکاظ تشریف لے جارہے تھے ، راستے میں نخلہ کے مقام پر آپؐ نے صبح کی نماز پڑھائی ، کچھ جنات ادھر سے گزر رہے تھے وہ تلاوت کی آواز سن کر کھڑے ہوگئے اور غور سے سننے لگے۔ واپسی پر انہوں نے اپنی قوم سے اس واقعے کا ذکر کیا اور کہا کہ ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سنا ہے جو راہِ راست کی طرف رہ نمائی کرتا ہے، اسلئے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، اور اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرینگے، چند آیات میں کفار سے کہا گیا ہے کہ وہ شرک سے باز آجائیں اور راہِ راست پر رہیں تو ان پر انعامات کی بارش ہوگی۔
سورۂ مزمل کے پہلے رکوع میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین باتیں کہی گئی ہیں، ایک تو یہ کہ آپ رات میں اٹھ کر اللہ کی عبادت کیا کریں ، دوسری یہ کہ اس میں قرآن کریم کی تلاوت کیا کریں اور تیسری یہ ہے کہ کفار کی اذیتوں پر صبر سے کام لیا کریں۔ دوسرے رکوع میں فرمایا گیا کہ آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ کبھی دو تہائی رات کے قریب، کبھی آدھی رات کے وقت اور کبھی ایک تہائی رات کے وقت عبادت میں کھڑے رہتے ہیں اور آپ کے رفیقوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے۔ اللہ ہی رات دن کا حساب رکھتا ہے، اسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات کا صحیح حساب نہیں رکھ سکتے۔ لہٰذا اللہ نے تم پر مہربانی فرمائی اب تم جتنا قرآن آسانی کے ساتھ پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ کو قرض حسنہ دیا کرو (بندگان خدا کی مدد کیا کرو) ۔
سورۂ مدثر کی ابتدائی آیات اچانک اس وقت نازل ہوئیں جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کا سلسلہ مدت دراز تک رُکا رہا، اس وقفے کو فترۃ الوحی کہتے ہیں، اس زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نہ آنے کی وجہ سے غم واندوہ کی شدید کیفیت طاری رہا کرتی تھی، ایک دن آپ راستے سے گزر رہے تھے کہ اچانک آسمان سے آوازآئی، سر اٹھایا تو دیکھا کہ غار حرا والا فرشتہ آسمان وزمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ آپؐ یہ منظر دیکھ کر ڈر گئے اور گھر پہنچ کر گھر والوں سے کہا کہ مجھے اوڑھادو، گھر والوں نے کمبل اوڑھا دیا، اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں کہ اے اوڑھ کر لیٹنے والے اٹھو اور خبر دار کرو اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو، اپنے کپڑے صاف رکھو، اور گندگی سے دور رہو، اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لئے اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔ اس کے بعد سورۂ قیامہ ہے جس میں قیامت کا ذکر ہے اور بعث بعد الموت نیز اسلام کے بنیادی عقائد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اگلی سورہ الدھر کا موضوع انسان کو دنیا میں اس کی حیثیت بتلانا ہے کہ پہلے وہ کچھ نہ تھا، پھر ایک بوند پانی سے اس کی تخلیق عمل میں آئی، پھر اسے یہ بتلایا گیاکہ تو دنیا میں آزمائش اور امتحان کے لئے ہے، اسی لئے تجھے دوسری مخلوقات کے برعکس عقل وخرد اور ہوش گوش والا بنایا گیا ہے۔ اس پارے کی آخری سورہ المرسلات کا موضوع بھی قیامت اور آخرت ہے۔ شروع کی آیات میں تو بتلایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس قیامت کی خبر دے رہے ہیں وہ آکررہے گی، اسی طرح آخرت بھی ضرور ہوگی، ہم نے یہ کار خانۂ ہستی فضول نہیں بنایا ہے، اگرآخرت نہ ہو تو یہ ساری کائنات ہی بے مقصد دکھلائی دیتی ہے ۔ اس سورہ کا اختتام اس آیت پر کیا گیا ہے کہ اب اس (قرآن) کے بعد کون سا کلام ہے جس پر وہ ایمان لائیں گے؟