Inquilab Logo

یارسولؐ اللہ! میں اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانے کیلئے یہاں آیا ہوں

Updated: June 26, 2020, 4:00 AM IST | Maolana Nadeemul Wajidi

گزشتہ ہفتے ان کالموں میں نجاشی کی مسلمانوں سے محبت اور ان کے تئیں فکرمندی ، اس کا اسلام قبول کرنا ، مسلمانوں کی حبشہ سے مدینہ منورہ واپسی ، نجاشی کے انتقال کی خبر اور نبی کریم ﷺ کا نجاشی کے لئے دعائے مغفرت کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا تھا۔ آپؐ کی اس دُعا کا بھی تذکرہ تھا جو آپؐ نے حضرت عمرؓ یا ابوجہل کے قبولِ اسلام کے لئے مانگی تھی۔ یہ سعادت حضرت عمرؓ کو حاصل ہوئی لہٰذا آج کی قسط میں پڑھئے حضرت عمر ؓ بن الخطاب کا قبول اسلام خود انہی کی زبانی

Makkah Sharif - PIC : INN
مکہ شریف ۔ تصویر : آئی این این

حدیث کی کتابوں میں متعدد روایتیں ملتی ہیں جن میں حضرت عمر بن الخطابؓ نے اپنے قبول اسلام کا قصہ بیان کیا ہے، ایک طویل حدیث جو حضرت انس بن مالکؓ، حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ اورحضرت طلحہؓ سے مروی ہے، اس میں بھی حضرت عمر کے اسلام لانے کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ پہلے حضرت عمرؓ کی دو روایتیں دیکھتے ہیں:
حضرت عمر بن الخطابؓ فرماتے ہیں کہ میں اسلام سے سخت متنفر تھا، دور جاہلیت میں شراب نوشی کا رسیا تھا، جَزْوَرَۃ (مسجد حرام میں ایک جگہ) میں ہماری ایک محفل بھی جما کرتی تھی جس میں قریش کے لوگ جمع ہوا کرتے تھے۔ ایک روز میں دوستوں سے ملاقات کے لئے گھر سے نکلا، جہاں ہم لوگ بیٹھا کرتے تھے وہاں پہنچا، کوئی موجود نہیں تھا، میں نے دل میں سوچا چلو فلاں جگہ چلتے ہیں، وہاں ایک شخص رہتا تھا جو شراب فروخت کیا کرتا تھا، مقصد یہ تھا کہ یہاں تو شراب ملی نہیں وہاں جاکر شراب خریدوں گا، اور پی کر آجاؤں گا، اس کی دکان پر پہنچا وہ بھی بند تھی، خیال آیا کعبے کی طرف چلا جائے، شراب تو ملی نہیں طواف ہی کرلیا جائے، کعبے میں پہنچا تو وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، اس وقت شام کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھی جاتی تھی، اور کعبہ شام کے اور نمازی کے بیچ میں رہا کرتا تھا، آپؐ اس وقت رکن یمانی اور رکن اسود کے درمیان کھڑے ہوئے تھے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھ کر دل میں کہا کہ چلو آج رات محمدؐ کی تلاوت ہی سُن لیں۔ یہ سوچ کر میں آگے بڑھا، اور رکن اسود کی طرف سے آکر غلاف کعبہ کے اندر چھپ کر آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔ آپؐ اسی طرح نماز میں مشغول رہے، میں آپؐ کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوگیا، میرے اور آپ ؐکے درمیان کعبے کا غلاف تھا، جب میں نے قرآن سنا تو میرا دل بھر آیا اور میری آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے، یہ پہلا موقع تھا کہ میرے دل میں اسلام داخل ہوا، آپ ؐجب تک نماز پڑھتے رہے میں وہاں کھڑا رہا، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپؐ اپنے گھر کی طرف چلے۔ آپؐ کی رہائش اس وقت دار ارقطاء میں معاویہ بن أبی سفیان کے مکان کے پاس تھی۔ پہلے آپ دار ابن أبی حسین کی طرف گئے، وہاں سے مسعی عبور کیا، پھر دار عباس بن عبد المطلب اور دار ابن ازہر بن عبد عوف الزہری کے درمیان سے نکل کر دار اخنس بن شریق تک پہنچے تاکہ اپنے گھر کے اندر تشریف لے جائیں۔ میں آپؐ کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا، آپ نے میری آہٹ محسوس کی، پیچھے مڑ کر مجھے دیکھا، آپؐ  کو یہ گمان ہوا کہ شاید میں تکلیف پہنچانے کے ارادے سے یہاں آیا ہوں، آپؐ نے ڈانٹتے ہوئے مجھ سے پوچھا! اے عمر بن الخطاب! تم اس وقت یہاں کیا کررہے ہو، میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول اور اس کی لائی ہوئی کتاب پر ایمان لانے کے لئے حاضر ہوا ہوں، آپ نے میری یہ بات سن کر اللہ کا شکر ادا فرمایا اور ارشاد فرمایا: اے عمرؓ! اللہ تمہیں ہدایت دے، اس کے بعد میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر میرے لئے ثابت قدمی کی دعا فرمائی، پھر میں لوٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ (البدایہ والنہایہ:۳/۱۰۱، سیرت ابن ہشام: ۱/۲۴۱)
دوسری روایت میں قبول اسلام کے لئے دل کی زمین ہموار ہونے کا واقعہ حضرت عمرؓ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ میں ابتداء میں اسلام سے سخت بیزار، متنفر اور اس کا شدید مخالف تھا، ابوجہل نے یہ اعلان کیا کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ) قتل کردے میں اس کے لئے سو اونٹوں کا کفیل اور ضامن ہوں، میں نے ابوجہل سے براہ راست دریافت کیا کہ کیا یہ کفالت اور ضمانت والی بات درست ہے؟ اس نے کہا: ہاں! عمرؓ کہتے ہیں کہ میں آپ کو قتل کرنے کے ارادے سے تلوار لے کر روانہ ہوا، راستے میں ایک بچھڑا نظر آیا جسے لوگ ذبح کرنا چاہتے تھے، میں بھی ذبح کا منظر دیکھنے کے لیے کھڑا ہوگیا، اچانک مجھے ایسا لگا جیسے بچھڑے کے پیٹ میں سے کوئی شخص پکار پکار کر یہ کہہ رہا ہو: ’’اے آل ذریح، ایک کامیاب بات ہے، ایک شخص فصیح زبان میں چیخ چیخ کر کلمۂ شہادت کی طرف بلا رہا ہے‘‘ یہ آواز سن کر مجھے ایسا لگا کہ یہ آواز مجھے ہی دی جارہی ہے اور میں ہی اس کا مخاطب ہوں، (سیرتِ حلبیہ: ۱/۲۹۱، روایت کا آخری حصہ بخاری میں بھی ہے باب اسلام عمر بن الخطاب: ۷/۲۱۵۶، رقم الحدیث: ۳۶۵۰) 
حالانکہ حضرت عمر نے صاف آواز سنی، اور یہ بات محسوس بھی کی، کہنے والے نے جو کچھ کہا ہے وہ ان ہی کے لئے کہا ہے، اور ان جملوں کا رُخ انہی کی طرف ہے ، لیکن ابھی ہدایت کا لمحہ آیا نہیں تھا، اس لئے وہ اس آواز کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے، ابھی چند قدم ہی چلے تھے کہ ایک صاحب سے ملاقات ہوگئی جن کا نام نعیم بن عبداللہ نحّامؓ تھا، ان کا تعلق قبیلۂ بنو عدی سے تھا، حضرت عمرؓ بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے،  نحّام  اگرچہ مسلمان ہوچکے تھے مگر انہوں نے اپنا اسلام چھپا رکھا تھا۔ حضرت عمرؓ کو تلوار لے کر جاتے ہوئے دیکھا تو فکر مند ہوگئے، پوچھا: اے عمرؓ اس وقت اس بھری دوپہر میں کہاں جارہے ہو، حضرت عمرؓ اس وقت دار الارقم کی طرف بڑھ رہے تھے جہاں مسلمان جمع رہتے ہیں، اس وقت بھی وہاں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ سمیت چالیس مسلمان موجود تھے، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکّے ہی میں مقیم تھے، بہر حال حضرت عمرؓ کی ملاقات نعیم بن عبد اللہ نحّام  سے ہوگئی تو انہوں نے پوچھا اے عمر کہاں کا ارادہ ہے، کہاں جارہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: میرا ارادہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ) قتل کرنے کا ہے، وہ بد دین ہوگیا ہے، اپنے مذہب کو چھوڑ بیٹھا ہے، اس نے قریش کے درمیان تفریق پیدا کردی ہے، وہ ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کررہا ہے، ہمارے دین کو برا کہتا ہے، ہمارے معبودوں پر تنقید کرتا ہے۔ نعیمؓ نے کہا: تم غلط فہمی کا شکار ہو، بھلا تمہارے اس اقدام کے بعد بنی عبد مناف تمہیں زندہ چھوڑ دیں گے، ویسے بھی تمہیں اپنے گھر والوں کی خبر پہلے لینی چاہئے۔
 حضرت عمرؓ چونک کر کہنے لگے میرے گھر والوں کو کیا ہوا؟ نعیم نے جواب دیا تمہاری بہن فاطمہؓ بنت الخطاب اور تمہارے بہنوئی اور چچا زاد بھائی سعیدؓ بن زید دونوں بد دین ہوچکے ہیں، دونوں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور اب وہ دونوں محمدؐ کی بات مانتے ہیں، پہلے تم ان کی خبر لو!
یہ سن کر حضرت عمرؓ وہیں سے لوٹ گئے، بہن کے گھر پہنچے، وہاں خباب بن الارَت بہن اور بہنوئی کو سورۂ طٰہٰ پڑھا رہے تھے، حضرت عمر کے قدموںکی آہٹ سن کر خباب تو اندر کسی کمرے میں جا چھپے، اور بہن فاطمہ اس صحیفے کو جسے وہ پڑھ رہی تھیں چھپانے کی کوشش کرنے لگیں، حضرت عمرؓ دروازے میں داخل ہونے سے پہلے ہی خباب کی آواز سن چکے تھے، اندر پہنچ کر انہوں نے پوچھا یہ کیسی آواز آرہی تھی، جیسے کوئی کچھ پڑھ رہا ہو، کچھ ناقابل فہم الفاظ سے تھے، دونوں نے کہا کیسی آواز؟ یہاں تو کسی طرح کی کوئی آواز نہیں تھی، نہ کوئی بول رہا تھا، حضرت عمرؓ نے فرمایا: خدا کی قسم! مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم دونوں نے محمد کا دین قبول کرلیا ہے، عمر نے یہ کہتے ہی اپنے بہنوئی کا گریبان پکڑ لیا، بہن فاطمہ اپنے شوہر کو ان کی گرفت سے چھڑانے کے لئے آگے بڑھیں تو ان کو اس قدر مارا کہ ان کا چہرہ لہولہان ہوگیا، بہن نے دیکھا کہ اب عذر معذرت سے کچھ ہونے والا نہیں ہے، اس لئے جرأت سے بولیں کہ ہاں! ہم نے اسلام قبول کرلیا ہے، ہم اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لے آئے ہیں، تمہاری جو مرضی ہو وہ کرلو، اب ہم یہ دین چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ حضرت عمرؓ نے بہن کی یہ جرأت دیکھی اور ان کا زخمی چہرا دیکھا تو کچھ نرم پڑ گئے، کہنے لگے اچھا مجھے وہ کتاب دکھاؤ جو تم لوگ ابھی پڑھ رہے تھے، دیکھوں تو سہی محمد کیا لے کر آئے ہیں۔‘‘
 یہاں ہم یہ بتلادیں کہ حضرت عمرؓ پڑھے لکھے انسان تھے، دور جاہلیت میں سفارت جیسی اہم ذمہ داری انہیں کے سپرد رہتی تھی، حضرت عمرؓ نے کتاب دیکھنے کی فرمائش کی تو بہن نے یہ کہہ کر وہ صحیفہ دینے سے منع کردیا کہ آپ لے کر واپس نہیں کریں گے، حضرت عمرؓ نے لات وعزیٰ کی قسم کھاکر یقین دلایا کہ وہ پڑھ کر واپس کردیں گے، حضرت فاطمہؓ کے دل میں خیال آیا کہ شاید عمرؓ اسلام قبول کرلیں، ان کے دل میں بھی ایمان کی شمع روشن ہوجائے، کہنے لگیں بھائی! یہ کتاب آپ کے ہاتھوں میں نہیں دی جاسکتی، آپ اپنے شرک کی وجہ سے ناپاک ہیں، اس کتاب کو صرف پاک صاف لوگ ہی چھو سکتے ہیں، عمرؓ گئے اور غسل کرکے واپس آئے تب بہن نے ان کے ہاتھوں میں صحیفہ تھما یا۔
حضرت عمرؓ نے صحیفہ ہاتھوں میں لیا، اس میں سورۂ طٰہ لکھی ہوئی تھی، شروع کی چند آیات پڑھیں، بولے یہ کلام کتنا اچھا اور کتنا عظیم ہے، حضرت عمرؓ کی زبان سے قرآن سن کر اور اس پر ان کا تبصرہ سن کر حضرت خبابؓ جو گھر کے اندر عمرؓ کے خوف سے چھپے ہوئے تھے باہر نکل آئے اور کہنے لگے! اے عمر! مجھے امید ہے اللہ نے تمہیں اپنے نبی کی دعوت قبول کرنے لئے منتخب کرلیا ہے، میں نے کل ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ دعا سنی ہے کہ اے اللہ! ابوالحکم ابن ہشام یا عمر بن الخطاب میں سے کسی ایک کے ذریعے اس دین کی نصرت فرما، شاید اللہ نے یہ دعا قبول فرمالی ہے۔ 
حضرت عمرؓ نے حضرت خبابؓ سے کہا مجھے بتلاؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے بتلایا کہ وہ صفا کے پاس ایک مکان میں تشریف رکھتے ہیں، حضرت خبابؓ انہیں لے کر دار ارقم کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا، بے وقت دروازے پر دستک سن کر اندر موجود لوگوں کا ماتھا ٹھنکا، کسی نے کواڑوں کی درزوں سے دیکھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ باہر عمر کھڑے ہوئے ہیں، ان کے ہاتھ میں تلوار بھی ہے۔
 حضرت حمزہؓ نے فرمایا، یارسول اللہ! انہیں اندر بلا لیجئے، اگر وہ اچھے ارادے سے آئے ہیں تو ہم ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے، اور غلط نیت سے آئے ہیں تو ہم انہی کی تلوار سے انہیں قتل کردیں گے۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطلاع دینے والے سے فرمایا، دروازہ کھول دو، حضرت عمرؓ کہتے ہیں انہوں نے دروازہ کھول دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر ان کی طرف بڑھے، اور ان کی قمیص پکڑ کر ان کو اپنی طرف کھینچا اور فرمایا: اے عمر بن الخطاب یہاں کس ارادے سے آئے ہو؟ خدا کی قسم اگر تم کسی غلط ارادے سے یہاں آئے ہو تو وہ کام تم کر بھی نہیں پاؤگے کہ اللہ کا عذاب تم پر نازل ہوجائیگا، حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کیلئے یہاں آیا ہوں۔  راوی کہتے ہیں، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعرۂ تکبیر بلند کیا، اس وقت جو صحابہؓ اس مکان میں موجود تھے وہ سمجھ گئے کہ عمر نے اسلام قبول کرلیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK