صحابہ کرام ؓ کے عمل کرنے کیلئے یہ بات کافی ہوتی تھی کہ رسولؐ اﷲ نے عمل کیا ہو۔ لیکن آج مسلمانوں کی صورتِ حال کیا ہے ؟ زندگی کے ہر شعبہ میں سنت ِرسولؐ کا دامن ہمارے ہاتھوں سے چھوٹا ہوا ہے ، ہماری زبان حب نبیؐ کے دعوے سے سرشار ہے؛ مگر ہماری عملی زندگی رسولؐ اﷲ کی طاعت و اتباع سے خالی ہے ، ہماری عبادتیں بے روح ہیں غرض ہمارا دین کتابوں میں ہے نہ کہ ہماری عملی زندگی میں !
نبی کریم ؐ سے محبت کا حق اسی وقت ادا ہوسکتا ہے جب ہر قدم آپؐ کی اتباع کے لئے اٹھے۔ تصویر:آئی این این
اﷲ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت و رہنمائی کیلئے جہاں اپنی کتاب نازل فرمائی ، وہیں اس کی تشریح و توضیح بھی فرمائی ، اور اس کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لئے اپنے پیغمبروں اوررسولوں کوبھیجا ، انبیاء کی حیثیت مرضیاتِ خداوندی کے ترجمان کی ہے ، اور ان کا حق ہے کہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری اور اتباع و پیروی کی جائے۔ رسول کی نسبت سے اُمت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے۔ رسول بھیجے ہی اس لئے جاتے ہیں کہ ان کی اطاعت کی جائے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن مجید نے صاف طورپر کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی اہل ایمان کے لئے سراپا نمونہ ہے۔( الاحزاب : ۲۱) ، نیز آپ ﷺکی اتباع ہی اﷲ کو محبوب رکھنے کا معیار اور خو د اﷲ کے محبوب بننے کا ذریعہ و وسیلہ بھی ہے:’’آپ فرما دیں : اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔ ( آلِ عمران : ۳۱)
رسول اﷲ ﷺ کی اتباع اور پیروی کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا : اگر آج حضرت موسیٰ علیہ السلام حیات ہوتے تو ان کو بھی ہماری اتباع سے چارہ نہ ہوتا ’’لو أن موسیٰ کان حیا ماوسعہ إلا أن یتبعنی ‘‘ ( مسند احمد : ۳؍۳۸۷)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت جنت میں داخل ہونے اور نافرمانی اس سے محروم ہونے کی بنیاد ہے؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : میری پوری اُمت جنت میں داخل ہوگی، سوائے انکار کرنے والوں کے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ انکار کرنے والے کون ہیں ؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا اور جس نے نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔ ( بخاری مع الفتح ، حدیث نمبر : ۷۲۸۰ ) ؛ کیوں کہ آپ ؐ کی اطاعت دراصل اﷲ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور آپؐ کی نافرمانی خود اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔
رسولؐ اﷲ نے اپنا ایک خواب ذکر کرتے ہوئے اس کی تعبیر بیان فرمائی اور اس تعبیر میں واضح طورپر بتایا کہ آپؐ کی اطاعت اﷲ کی اطاعت اور آپ ؐ کی نافرمانی اﷲ کی نافرمانی ہے۔ (بخاری مع الفتح ، حدیث نمبر : ۷۲۸۱)
اتباعِ نبوی ؐ کا ایک پہلو فکری اعتبار سے ’’حدیث ‘‘ کو حجت و دلیل تسلیم کرنا ہے۔ قرآن کو ہدایت کیلئے کافی سمجھنا اور اتباع قرآن کے نام پر حدیث کا انکار کر جانا نہایت ہی سنگین قسم کی گمراہی ہے۔ حضرت ابورافع ؓسے روایت ہے، رسول ؐ اﷲ نے ارشاد فرمایا: ایسا نہ ہو کہ میں تم میں سے کسی کو اپنی مسہری پر ٹیک لیا ہوا دیکھوں کہ جب اس کے پاس میرا کوئی حکم یا میری کوئی ممانعت آئے تو کہے کہ مجھے یہ نہیں معلوم، ہم تو اس کی پیروی کرتے ہیں جو کتاب اﷲ میں ہے ۔ ( ابوداؤد حدیث نمبر : ۴۰۶۵ ) اسی طرح حدیث کو قبول کرنے یا نہ کرنے کیلئے انسان اپنی عقل کوتاہ کو پیمانہ بنائے؛ بلکہ جب بھی کوئی بات حدیث کے ذریعہ پہنچے اسے سرمۂ چشم بنائے۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کیلئے سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ دین کی بنیاد رائے پر ہوتی تو موزے کے نیچے کے حصہ کا مسح قابل ترجیح ہوتا بمقابلہ اوپر کے حصہ کے ؛ لیکن میں نے رسول ؐ اﷲ کو موزوں کے اوپری حصہ پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ( ابوداؤد ، حدیث نمبر : ۱۶۲ ) ، کیوں کہ انسان کا علم اور اس کی عقل کوتاہ ہے اور رسول کے علم کا ماخذ اور سرچشمہ علم الٰہی ہے ، جس میں نقص اور کوتاہی کا کوئی امکان نہیں !
اتباع نبوی ؐ کا ایک پہلو یہ ہے کہ زندگی کے تمام مسائل میں رسول اﷲ ﷺ کے طور و طریق کے مطابق عمل کیا جائے۔ رسولؐ اﷲ نے اُصولی طورپر بھی اس کی ترغیب دی کہ میرے طریقہ کو اختیار کرو۔ ( ابوداؤد ، حدیث نمبر : ۴۰۶۷)، اور مختلف مسائل کے بارے میں بھی اس کی تلقین فرمائی؛ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جیسے تم مجھے نماز پڑھتے دیکھو اسی طرح نماز پڑھو۔ ( بخاری مع الفتح ، حدیث نمبر : ۶۰۰۸ ) یا جیسے حج کے بارے میں فرمایا کہ شاید پھر اس کے بعد میں حج نہ کرسکوں ، اس لئے مجھ سے طریقۂ حج سیکھ لو۔ ( مسلم ، حدیث نمبر : ۱۲۹۷)
ائمہ مجتہدین اور فقہاء و محدثین نے جو محنتیں کی ہیں ، ان کا ماحصل یہی ہے کہ انہوں نے اپنی جستجو و تحقیق کے مطابق سنت ِنبویؐ کو دریافت کرنے اور حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے، اور جو اختلاف رائے واقع ہوا ہے، وہ سنت کے مقابلہ اپنی رائے کی اتباع نہیں ہے، بلکہ بعض افعال میں حضور ؐسے ایک سے زیادہ طریقے منقول ہیں ، فقہاء نے اپنے ذوق اور تحقیق کے مطابق ان میں سے کسی ایک طریقہ کو اختیار کیا ہے اس لئے یہ اختلاف بھی اتباعِ سنت کے دائرہ میں ہی ہے نہ کہ اس سے باہر ۔
اتباعِ سنت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ معاملات و اخلاق اور زندگی کے دوسرے مسائل میں بھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو اختیار کیا جائے۔ صحابہ کے جذبۂ اتباع کا حال یہ تھا کہ آپ ؐ سے اگر کوئی فعل طبعی طورپر ثابت ہوتا تو اس کی بھی اتباع کرنے کی کوشش کرتے۔ حضرت علی ؓنے سواری پر سوار ہونے کے بعد سواری کی دُعاء پڑھی اور دُعا پوری ہونے کے بعد تبسم فرمانے لگے، دریافت کیا گیا کہ آپؓ کے تبسم کا باعث کیا ہوا ، حضرت علی ؓ کے جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ اس موقع سے آپ ؐ بھی تبسم فرماتے تھے۔ (ترمذی ، حدیث نمبر : ۳۱۴۶)۔ حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ سے بخاری میں طویل روایت منقول ہے ، اس کا حاصل یہ ہے کہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے ان تما م مقامات پر اُتر اُتر کر نماز ادا کرتے تھے، جہاں رسولؐ اﷲ نے دورانِ سفر نماز ادا فرمائی تھی۔
گو سنت ِنبویؐ کی مخالفت مقصود نہ ہوتی؛ لیکن بظاہر احترام سنت کے خلاف کوئی عمل محسوس ہوتا تو یہ بات بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برداشت نہ ہوتی۔ عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے آپ ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے، کہ اگر تمہاری عورتیں مسجد جانا چاہیں تو تم انہیں نہ روکو۔ ان کے صاحبزادے بلال ؓ کہنے لگے کہ لیکن ہم تو انہیں روکیں گے ، بلال کا مقصد حدیث نبویؐ کی مخالفت نہیں تھی ؛ بلکہ مقصود یہ تھا کہ اخلاقی حالات میں جو تبدیلی پیدا ہوتی ہے ، اس کے پیش نظر مَیں مسجد جانے سے منع کروں گا؛ اِس پر حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سخت ناراض ہوئے اور راوی کہتے ہیں کہ اس بات پر انہیں کافی سخت کہا، ایسا کہتے ہوئے انھیں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ( مسلم ، حدیث نمبر : ۱۲۵۹)۔ رسولؐ اﷲ کو کدو بہت پسند تھا، امام ابویوسفؒ نے اپنے صاحبزادہ سے نقل کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے کدو زیادہ پسند نہیں ہے؛ حالانکہ اس کا تعلق طبعی پسند و ناپسند سے تھا؛ اس کے باوجود امام ابویوسفؒ کو یہ بات پسند نہ آئی۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے عمل کرنے کیلئے یہ بات کافی ہوتی تھی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عمل کیا ہو۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ آپ ؐنے ابتداء میں سونے کی انگوٹھی بنائی، لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنائیں ، پھر جب آپ ؐنے اس کے حرام ہونے کا اعلان فرمایا اور اپنی انگوٹھی پھینک دی تو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی انگوٹھیاں اُتار پھینکیں ( بخاری مع الفتح ، حدیث نمبر : ۷۲۹۸)۔
اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع سے صحابہ کرام ؓ کو احساس تھا کہ یہ صلح اہل مکہ کے حق میں ہورہی ہے اور مسلمانوں کو گر کر صلح کرنی پڑ رہی ہے، اس لئے صحابہؓ احرام کھولنے اور سر منڈانے کو تیار نہیں تھے، ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ کے مشورے پر آپ ؐ خیمہ سے باہر نکلے، قربانی فرمائی اور بال منڈایا، یہ دیکھتے ہی صحابہؓ نے بھی اپنے بال منڈا لئے۔ ( بخاری مع الفتح ، حدیث نمبر : ۲۷۳۱)
صحابہ کرام ؓ کو آپؐ کی اطاعت و اتباع کااس قدر لحاظ تھا کہ آپ ؐ کی معمولی سی ناگواری ان کو متنبہ کرنے کیلئے کافی ہوتی تھی۔ حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص ؓ کے جسم پر کسم کے رنگ کی ایک چادر تھی، حضور ؐ نے اس پر کسی قدر ناگواری کا اظہار فرمایا، گھر واپس آئے تو چولہا سلگا ہوا تھا؛ چنانچہ اسی چولہے میں چادر ڈال دی۔ دوسرے روز حضور ؐ سے اس کا ذکر کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عورتوں کو دے دیا ہوتا ، کیوں کہ ان کے (خواتین کے) پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ( ابوداؤد : کتاب اللباس ، حدیث نمبر : ۴۰۶۸)۔
ایک انصاری کے مکان کے پاس گزر ہوا جنہوں نے اونچا گنبد نما حجرہ بنا رکھا تھا ، آپ ؐ نے دریافت فرمایا کہ یہ مکان کس کا ہے؟ لوگوں نے ان انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کیا، پھر جب وہ صحابی ؓ حضورؐ کی خدمت میں آئے تو آپ ؐ نے یک گونہ بے رخی برتی، انصاری صحابی نے دیگر صحابہؓسے وجہ دریافت کی ، معلوم ہوا کہ آپ ؐکو اسی گنبد نما تعمیر کی وجہ سے گرانی ہوئی ہے۔
وہ گھر گئے، اس عمارت کو ڈھاکر زمین کے برابر کردیا اور حضور ؐ سے اس کا ذکر بھی نہیں کیا۔ اتفاق سے چند دنوں بعد پھر وہاں سے آپ ؐ کا گزر ہوا ، آپ ؐ نے جب وہ گنبد والی تعمیر نہیں دیکھی تو وجہ دریافت کی، صحابہؓ نے صورتِ حال عرض کردی، آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ضرورت اور مجبوری کی تعمیر کے علاوہ ہر تعمیر آدمی کیلئے وبال ہے۔ ( ابن ماجہ : ابواب الزہد، باب فی البناء والخراب، حدیث نمبر : ۴۱۶۱)
اس طرح کی کتنی ہی مثالیں صحابہ کرامؓ کی زندگی میں موجود ہیں لیکن آج مسلمانوں کی صورتِ حال کیا ہے ؟ زندگی کے ہر شعبہ میں سنت ِرسولؐ کا دامن ہمارے ہاتھوں سے چھوٹا ہوا ہے، ہماری زبان حب نبیؐ کے دعویٰ سے سرشار ہے مگر ہماری عملی زندگی رسولؐ اﷲ کی طاعت و اتباع سے خالی ہے ، ہماری عبادتیں بے روح ہیں، ہماری اخلاقی پستی غیر مسلم معاشرہ کو بھی شرمندہ کرتی ہے، معاملات میں ہم اس قدر کھوئے اور حلال و حرام کی سرحدوں سے بے پروا ہیں کہ دوسری قومیں ہم سے معاملات کرنے میں تأمل کرتی ہیں، غرض ہمارا دین کتابوں میں ہے نہ کہ ہماری زندگی میں، قول و فعل کا یہی تضاد دوسری قوموں کے دامن اسلام میں آنے سے رکاوٹ بنا ہوا ہے، اس لئے اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہی ہے کہ ہم عملی طورپر رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت و اتباع کا راستہ اختیار کریں اور دوسری قوموں کی اتباع اور ان کی نقل سے اپنے آپ کو بچائیں !