اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ خواتین کا حصہ ملک کی معیشت میں ۲۶؍ فیصد ہے۔ ان میں زیادہ تر غیر رسمی شعبوں میں سرگرم ہیں۔ لیکن ان کی محنت کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔
محنت کش خواتین کو مناسب اجرت اور پہچان دونوں ملنی چاہئے۔ اسی کے ساتھ ہی اُن کی قدر بھی کی جائے۔ تصویر: آئی این این
دنیا کی معیشت میں غیر رسمی شعبے (Informal Economy) کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں تقریباً ۶۰؍ فیصد روزگار غیر رسمی شعبے سے جڑا ہوا ہے۔ اس شعبے میں خواتین کی شمولیت نمایاں ہے۔ ہندوستان کے تناظر میں نیشنل سیمپل سروے آفس (NSSO) کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ خواتین کا حصہ ملک کی معیشت میں ۲۶؍ فیصد ہے۔ جبکہ خواتین کی اکثریت باضابطہ معیشت کے بجائے غیر رسمی شعبوں میں سرگرم ہے، مگر ان کی محنت کا اعتراف اور معاوضہ مردوں کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے۔
غیر رسمی شعبہ ایسی سرگرمیاں ہیں جو باضابطہ حکومتی قوانین، رجسٹریشن، ٹیکس اور سرکاری نگرانی کے دائرے میں شامل نہیں ہوتیں۔ یا ایسا کاروبار جو حکومت کے حساب کتاب یا اعداد و شمار میں شامل نہیں ہوتا۔
اس قسم کی سرگرمیاں اور کاروبار خواتین بڑے پیمانے پر انجام دیتی ہیں۔ جن کا اندراج نہیں کیا جاتا۔ غیر رسمی شعبوں میں خواتین جن طریقوں میں حصہ لیتی ہیں وہ اس طرح ہیں:
گھریلو صنعتیں: جیسے کپڑے سلائی کرنا، کڑھائی بنائی، دستکاری، ڈبہ سروس، دری سلنا اور گھریلو اشیاء تیار کرکے فروخت کرنا (جن میں پاپڑ، چٹنی، اچار، چکلی وغیرہ شامل ہیں)۔
خدماتی شعبہ: گھریلو ملازمائیں، آیا، باورچن یا کپڑے دھونے جیسی خدمات فراہم کرتی ہیں۔
چھوٹے کاروبار: ریڑھی لگانا، دکان پر سبزی ترکاری، پھل یا دیگر اشیاء فروخت کرنا۔
زرعی شعبہ: کھیتوں میں بیج بونا، فصل کاٹنا،مویشی پالنا، متسیہ پالن (فش فارمنگ)، اپلے تھوپنا وغیرہ۔
ہوم بیسڈ ورک: بڑی صنعتوں کے لئے خام مال گھروں میں تیار کرنا جیسے گارمنٹس یا دستکاری، کپڑوں پر کندن چپکانا وغیرہ۔
اس کے علاوہ بانس سے جھاڑو مختلف قسم کی ٹوکریاں اور ٹٹی (بانس کا ٹھاٹر جس پر چراغ رکھ کر روشنی کی جاتی ہے) وغیرہ بنانے کا کام بھی خواتین بڑے پیمانے پر کرتی ہیں۔ جہاں کھجور کی کاشت ہوتی ہیں وہاں کھجور کے پتوں سے تڈے بنائے جاتے ہیں، ناریل سے رسّی اور دیگر اشیاء بنائی جاتی ہے جس میں خواتین سرگرم رہتی ہیں۔
ان سب کے ذریعے خواتین اس معیشت کو سہارا دیتی ہیں۔ خواتین کا غیر رسمی شعبوں میں کردار محض ’معاون‘ نہیں بلکہ ’معاشی ستون‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سرگرمیاں نہ صرف گھریلو آمدنی میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ غربت کے خاتمے اور بچوں کی صحت و تعلیم میں بھی مثبت اثر ڈالتی ہیں۔
ان کی غیر رسمی شراکت سے معاشرہ خود کفیل ہوتا ہے۔ مختلف ہنر سامنے آتے ہیں، اور کچھ حد تک خواتین بھی بااختیار ہو جاتی ہے۔ تاہم، مختلف معاشرتی، تعلیمی اور معاشی رکاوٹوں کے پیش نظر خواتین کی بڑی تعداد غیر فعال یا غیر رسمی شعبوں تک ہی محدود ہے۔ اور جن خواتین نے ان پیشوں کو اختیار کیا ہے ان کی بڑی تعداد اب بھی کئی رکاوٹوں کا سامنا کرتی ہے، وہ رکاوٹیں یہ ہیں:
کم اجرت اور عدم مساوات:
کارخانوں، کھیتوں اور دیگر مقامات پر خواتین کا معاوضہ مردوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔
قانونی و سماجی تحفظ کی کمی:
غیر رسمی شعبے میں خواتین مزدور کسی قانونی تحفظ یا سماجی فلاحی اسکیموں سے محروم رہتی ہیں۔ ان کی محنت کو ’معاشی حصہ داری‘ سمجھنے کے بجائے محض گھریلو کام سمجھا جاتا ہے۔
مارکیٹ تک محدود رسائی:
خواتین براہ راست مارکیٹ سے جڑنے کے بجائے درمیانی سوداگر پر انحصار کرتی ہیں، جو ان کی محنت کا بڑا حصہ خود ہڑپ کر لیتے ہیں۔ نتیجتاً خواتین کو کم آمدنی پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔
امکانات اور تجاویز:
خواتین کی غیر رسمی معیشت کو باضابطہ تسلیم کرنا نہ صرف ان کے وقار بلکہ قومی ترقی کے لئے بھی ضروری ہے۔
اس ضمن میں چند اقدامات اہم ہیں:
خواتین کو قانونی شناخت اور رجسٹریشن فراہم کی جانا چاہئے۔
مساوی اجرت کو یقینی بنایا جائے۔
مائیکرو فنانس اور سیلف ہیلپ گروپس کے ذریعے خواتین کو سرمایہ کاری اور مارکیٹ تک براہِ راست رسائی دی جانی چاہئے۔
بہتر ہنر مندی اور کاروباری تربیت کے پروگرام شروع کئے جانے چاہئیں۔
غیر رسمی شعبوں میں خواتین کی شمولیت کو نظرانداز کرنا کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ اگر ان کی محنت کو قانونی، سماجی اور معاشی سطح پر تسلیم کرکے مساوات فراہم کی جائے تو خواتین نہ صرف بااختیار بن سکتی ہیں بلکہ قومی معیشت کے استحکام میں بھی کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں خواتین کے غیر رسمی کام کو عزت، تحفظ اور مواقع ملیں، وہ حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن معاشرہ کہلانے کا حقدار ہے۔