• Mon, 07 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کئی مسائل کا ایک مسئلہ

Updated: September 12, 2024, 12:26 PM IST | Mumbai

یہ لازم و ملزوم ہیں لہٰذا فیصلہ سماج کو کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ اگر وہ (سماج) خواتین کے خلاف تشدد اور آبروریزی کے واقعات کو سنگین نوعیت کا جرم سمجھتے ہوئے اس کیخلاف جزوی بیداری سے بالاتر ہوکر مکمل بیداری کی راہ پر گامزن نہیں ہوا تو، ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ، اس سنگین جرم کے واقعات کم نہیں ہونگے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

کولکاتا کے آر جی کر اسپتال کاآبرو ریزی سانحہ اب تک سرخیوں میں ہے کیونکہ اسے سیاسی طور پر زندہ رکھا گیا ہے۔ ورنہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اُس کے بعد رونما ہونے والا بدلا پور سانحہ سرخیوں سے ہٹ چکا ہے۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ سماج اس نوع کے واقعات کے تئیں بے حسی کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ اس موضوع پر گفتگو کرنے والے جب آر جی کر اسپتال سانحہ کا ذکر کرتے ہیں تو براہ راست نربھیا کیس ۲۰۱۲ء پر پہنچ جاتے ہیں۔ درمیان کی لرزہ خیز وارداتیں اُن کے ذہن سے یا تو محو ہوچکی ہیں یا یاد دِلانے پر یاد آتی ہیں۔ اِن میں کٹھوعہ، اُناؤ اور ہاتھرس کے سانحات نے پورے ملک کو دہلا دیا تھا۔ دہل جانے کے بعد بہل جانا اور روزمرہ کے کاموں میں آسانی سے گم ہوجانا اور یہ سمجھنا کہ سب ٹھیک ہے اور سب ٹھیک رہے گا، سوائے بے حسی کے اور کچھ نہیں ہے۔ جیسے جیسے اس قسم کے واقعات بڑھیں گے بے حسی بڑھے گی اور جیسے جیسے بے حسی بڑھے گی اس نوع کے واقعات میں اضافہ ہوگا، خدانخواستہ۔ یہ لازم و ملزوم ہیں لہٰذا فیصلہ سماج کو کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ اگر وہ (سماج) خواتین کے خلاف تشدد اور آبروریزی کے واقعات کو سنگین نوعیت کا جرم سمجھتے ہوئے اس کیخلاف جزوی بیداری سے بالاتر ہوکر مکمل بیداری کی راہ پر گامزن نہیں ہوا تو، ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ، اس سنگین جرم کے واقعات کم نہیں ہونگے۔ 
یہ واقعات اس لئے بھی کم نہیں ہونگے کہ جنسی بے راہ روی کے محرکات کو روکنے کی طرف سماج کی توجہ ہے ہی نہیں، چنانچہ نہ فحاشی کم ہورہی ہے نہ ہی فحاشی کو فروغ دینے والے رجحانات کی حوصلہ شکنی ہورہی ہے، نہ مذہبی تعلیمات کو اہمیت دی جارہی ہے نہ مادیت کم ہورہی ہے، نہ گھروں میں اخلاقی تربیت کا ٹھوس نظم ہے نہ اسکولوں اور کالجوں میں اقدار کی تعلیم کو مرکزیت حاصل ہے۔ اس پر سیاسی ماحول کا ایسا ستم کہ خدا کی پناہ! بلقیس بانو کے سزا یافتہ مجرموں کا مدتِ سزا ختم ہونے سے پہلے رہا کردیا جانا اور رِہا ہونے پر اُن کا پھول ہار سے سواگت کرنا جرم کی پزیرائی اور مجرموں کی حوصلہ افزائی تو ہےہی، یہ عمل اُتنا ہی شرمناک بھی ہے جتنا شرمناک متعلقہ جرم ہے۔ اس جرم کی پشت پناہی بھی کسی جرم سے کم نہیں۔ جب یہ ہوگا تو کس بنیاد پر اُمید کی جاسکتی ہے کہ آج نہیں تو کل سب ٹھیک ہوجائیگا؟
ہم جانتے ہیں کہ قانون اہم ہے اور سخت تر قانون اس سے زیادہ اہم ہے مگر دونوں سے زیادہ اہم وہ ماحول ہے جس میں قانون کو کم سے کم یعنی کبھی کبھار ہی حرکت میں آنا پڑے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ کئی ملکوں میں پولیس اسٹیشنوں میں زیادہ کام نہیں ہوتا کیونکہ قانون کو بار بار حرکت میں نہیں آنا پڑتا۔ اس کی وجہ وہاں کے عوام کا وہ اسلوب ِ زندگی ہے جس میں جرم کی طرف مائل ہونے کا امکان کم سے کم رہتا ہے۔ صحافتی زبان میں کہا جائیگا کہ وہاں کرائم ریٹ کم ہے، کئی ملکوں میں تو بہت ہی کم ہے۔ اس کی کوئی نہ کوئی وجہ (بلکہ وجوہات) تو ہوگی! کیا ہم اُن سے کچھ سیکھ سکتے ہیں ؟ یہ اہم سوال ہے۔ اگر اُن سے نہ سیکھنا چاہیں تو خود اپنے سماج کا محاسبہ کریں اور جانیں کہ ہمارا سماج جرائم کی پناہ گاہ اور پرورش گاہ کیوں بن گیا ہے، اسکے کیا اسباب ہیں اور اُنہیں کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ صرف لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ کئی مسائل کا ایک مسئلہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK