Inquilab Logo

جمہوریت میں ہمارا اور یورپی اقوام کا طرزِ فکرو عمل

Updated: April 02, 2023, 12:45 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

یورپی اقوام غیر یورپی باشندوں کو، جو نسل اور شہریت کی بنیاد پر اُن سے الگ ہیں، اپنا سربراہ منتخب کرلیتے ہیں۔ ہم نہیں کرتے۔ اس کے کیا اسباب ہیں؟ اس مضمون میں یہی نکتہ زیر بحث ہے۔

European nations elect non-Europeans, who are separated from them on the basis of race and citizenship, as their leaders.
یورپی اقوام غیر یورپی باشندوں کو، جو نسل اور شہریت کی بنیاد پر اُن سے الگ ہیں، اپنا سربراہ منتخب کرلیتے ہیں

نظریاتی سیاست کا ایک ہدف ہوتا ہے۔ اس کے تحت یہ طے کیا جاتا ہے کہ کہاں پہنچنا ہے یا کیا حاصل کرنا ہے۔ اصرار اس بات پر ہوتا ہے کہ طرز حکومت بدلے۔ مارکس داوی سوچتے رہے کہ حکومت ملک کے اقتدار پر عوام (کمیونٹی) قابض ہوں۔ جنوبی ایشیاء میں کوشش ہوئی تھی کہ حکومت کے عمل دخل سے روحانیت کو جدیدیت سے ہم آہنگ کیا جائے۔ اس کی کوشش پاکستان کے اُس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے کی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ آئین میں مذہب کو شامل کیا جائے اور پارلیمنٹ کی جگہ پر خدائی حکمرانی ہو۔ 
 یہ تجربہ ناکام رہا کیونکہ یہ طے کرنا مشکل تھا کہ پاکستانی کون ہے، کیا وہ ہے جو روحانی طور پر بلند و بالا ہوچکا ہے اور جو ملکی قوانین کے ذریعہ سائنسی جدت کو اپنی شناخت بنا چکا ہے؟ یورپ میں حکومت عوامی فلاح و بہبود کو مرکوز توجہ بناتی ہیں (ویلفیئر اسٹیٹ کا نظریہ) اور عوام کو صحت اور تعلیم کے بہتر اور معیاری مواقع فراہم کرتی ہے، اُنہیں اچھی پنشن دیتی ہے اور بے روزگاروں کی فلاح و بہبود کو ہمہ وقت سامنے رکھتی ہے۔ یہ بھی ایسا ہدف ہے جسے پانے کی کوشش حکومتیں کرتی ہیں۔ ان میں کئی ممالک ایسے ہیں جنہوں نے فوجی طاقت کے ہدف کو بالائے طاق رکھ دیا۔ کئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے سیاست میں مذہب کی آمیزش سےپہلو تہی کرلیا۔ اب یورپ کے شہریوں کی بڑی تعداد تکثیریت کی قائل ہے یعنی چاہتی ہے کہ ملک میں رنگا رنگی ہو، الگ الگ فرقوں کے لوگ رہتے بستے ہوں۔ ہمارے عہد کے یورپ کی یہ اہم خصوصیت ہے۔
 آج یورپ کے کئی سیاستداں اور لیڈر جنہیں عوام نے اہم عہدوں کیلئے منتخب کیا، ہمارے سامنے ہیں اور تکثیریت کی مثال بنے ہوئے ہیں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ہندوستانی نژاد ہندو ہیں۔ اسکاٹ لینڈ کی سربراہ پاکستانی نژاد مسلمان ہیں، آئرلینڈ کے اعلیٰ لیڈر ہندوستانی نژاد عیسائی اور پرتگال کے لیڈر ہندوستانی نژاد عیسائی ہیں۔ ان شخصیات پر ہم فخر کرتے ہیں مگر، ان لیڈروں کے انتخاب کو یورپی رائے دہندگان کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو گھبرا جائینگے۔ ہم ایسی مثالوں کی دُہرانے کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے۔ فخر کرنا الگ بات ہے، ویسا کرکے دکھانا بالکل الگ بات۔کیا ۲۰۲۳ء کے ہندوستان میں ہم سوچ بھی سکتے ہیں کہ اپنے ملک کے اقلیتی طبقات کے کسی نمائندے کو وزیر اعظم بنائیں گے؟ (ماضی میں ایسا ہوچکا ہے مگر آج؟) 
 جن ملکوں کا اوپر ذکر کیا گیا ، وہ محض ظاہری زندگی میں جدید (ماڈرن) نہیں ہیں بلکہ جدید لفظ کے حقیقی معنوںمیں جدید ہیں۔ وہ فرقہ وارانہ یا مذہبی بنیادوں پر ووٹ نہیں دیتے۔ بہ الفاظ دیگر، یورپ کے مختلف ملکوں میں یہ دیسی لیڈر اگر لیڈر منتخب ہوئے اور اب اپنی آئینی ذمہ داری نبھا رہے ہیں تو اس کی وجہ صرف اتنی نہیں کہ وہ رائے دہندگان میں مقبول ہیں بلکہ اس لئے وہ الگ برادری اور فرقہ نیز الگ نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہاں الگ برادری یا الگ نسل کا ہونا باعث فخر ہے۔ وہاں کا ووٹر سمجھتا ہے کہ ایسے لیڈروں کے انتخاب کے ذریعہ وہ اپنے ملک کی تکثیریت یا اس کے تنوع اور رنگا رنگی میں اضافہ کرتے ہیں یا اُسے مستحکم کرتے ہیں۔
 اس پس منظر میں آئیے مادرِ جمہوریت (مدر آف ڈیموکریسی) کا جائزہ لیں۔ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مادرِ جمہوریت سے مراد ہمارا عظیم الشان ملک ہندوستان ہے۔ایک بیرونی شخص ہماری جمہوریت کو فعال اور پُرجوش مگر نوعیت کے اعتبار سے قبائلی سمجھتا ہے کیونکہ یہاں کسی فرقے یا ذات سے وفاداری کافی مضبوط اور طاقتور ہے۔ کسی دوسرے فرقے یا ذات کے شخص کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ ایک فطری رجحان ہے اور تقریباً تمام ملکوں میں پایا جاتا ہے مگر جدید ملکوں نے، جو جدیدیت پسندی کے دل سے قائل ہیں، اس فطری رجحان سے باہر آکر سوچتے ہیں۔ وہ ممالک جو روایت پسند ہیں اور جدیدیت کا نعرہ بلند کرنے کے باوجود جدید رجحانات سے دور ہیں، وہ اب بھی فطری رجحان کے اسیر ہیں کہ اپنا لیڈر وہ ہو جو ’’اپنا آدمی ‘‘ ہو۔ 
 روایت پسندی (قبائلیت یا ٹرائبل ازم) نے ہندوستانی جمہوریت کو ذات پات یا جاتی کے نظریات تک محدود رکھا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج بھی ٹکٹوں کی تقسیم میں ذات پات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ہمارے ملک میں ریاستوں کی تشکیل لسانی بنیادوں پر کیوں ہوئی؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ باگ لسانی بنیادوں پر متحد ہوں اور ذات پات کو فراموش کردیں مگر لسانی اتحاد کے باوجود ذات پات کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا میلان ختم نہیں ہوا۔ ہندوتوا کی اُٹھان اور ملک کی جمہوریت میں اس کی اثر پزیری کی وجہ سے یہ ہوا کہ روایت پسندی دوبارہ جمہوریت میں داخل ہوگئی۔ یہاں دوبارہ اس لئے لکھا گیا ہے کہ ہندوتوا کا رجحان ملک کی آزادی سے قبل بھی موجود تھا جو آزادی کے ساتھ ہی ملک کی تقسیم پر منتج ہوا۔ مگر، اب یعنی ملک کی آزادی اور تقسیم کے ۷۵؍ سال بعد کی کیفیت یہ ہے کہ حکومت، اس کی پالیسیاں، زبان اور لب و لہجہ نیز اس کا طرز عمل ویسا نہیں ہے جیسا ایک جدید طرز فکر کے حامل ملک کا ہونا چاہئے۔ہندوستانی عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کا ہماری جمہوریت پر کیا اثر پڑرہا ہے۔ ہمارا ہدف وہ نہیں ہوسکتا جو نیپال کا ہے اور جسے عہد حاضر کا واحد ہندو راشٹر کہا جاسکتا ہے۔ یہ ملک ہندو ضرور ہے مگر اس نے اقلیتوں کو مرکز نگاہ نہیں بنا رکھا ہے۔ اس نے اقلیتی طبقات کو حاشئے پر لانے کی پالیسی نہیں بنائی ہے۔ ہم نے ایسا کیا ہے چنانچہ شہریت، غذا، طلاق، شادی، عبادات اور لباس وغیرہ کے تعلق سے ہمارا طرز عمل متعصبانہ اور جانبدارانہ ہے۔ یورپی ملکو ںمیں ہندوستانی شخصیات کے تئیں جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، ہم ہندوستان میں ایسا نہیں کرتے۔ 
 چند طبقات کو حاشئے پر لانے کے کچھ وقتی سیاسی فوائد تو ہوسکتے ہیں بلکہ ہیں مگر اس سے جمہوریت کو کیا فائدہ ملے گا اور ملک کو کیا فیض حاصل ہوگا یہ وہی بتاسکتے ہیں جنہوں نے یہ سعی کی۔ جب وہ اپنی کوشش میں سو فیصد کامیاب ہوجائینگے تب سوال ہوگا کہ اب کون سا ہدف؟ تب کیا ایک کے بعد ددوسرا طبقہ ہدف نہیں بنے گا؟ نئے ہندوستان میں یہ سوال بہت اہم ہے ۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK