Inquilab Logo

دنیاسے الگ تھلگ رہ کر ہماری معاشی بقا ممکن نہیں

Updated: November 24, 2020, 5:06 PM IST | Hasan Kamal

یاد ہوگا کہ اس ماہ کے آغاز میں ، بلکہ اس سے بھی کئی دنوں قبل تک اس خبر کا بڑا غلغلہ تھا کہ انڈومان نکوبار جزائر کے قریب جنوبی بحرالکاہل میں ایک زبردست جنگی مشق ہونے جا رہی ہے، جس میں چار بڑے ممالک کے جنگی بحری بیڑے حصہ لیں گے۔

Modi and Xi - Pic : INN
چین اور انڈیا ۔ تصویر : آئی این این

 یہ چار بڑے ملک امریکہ، جاپان ، آسٹریلیا اورہندوستان ہیں۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ آسٹریلیا نے ۱۳ ؍برس کے طویل عرصہ کے بعد ان مشقوں میں شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ یہ مشقیں ایک طرح سے چین کویہ پیغام دینےکیلئے ہورہی تھیں کہ جنوبی بحرالکاہل میں چین کی ’’دادا گیری‘‘ نہیںبرداشت کی جائے گی۔ یہ جنگی مشق ۴ ؍نومبر سے ۷؍ نومبر تک ہو بھی گئیں۔ لیکن اتنی بڑی مشقوں کا میڈیا پر جو ہنگامہ آرائی ہونی چاہئے تھی، وہ نظر نہیں آئی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ ۴؍ نومبر سے ہی امریکی صدارتی انتخابات کے بیحد سسپنس فل نتائج آنے شروع ہو گئے تھے۔ دنیا بھر کی توجہ ان نتائج پر لگی ہوئی تھی ، کسی اور خبر سے کسی کو دلچسپی نہیں تھی۔ ایک اور وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اگر ٹرمپ کامیاب ہوتے دکھائی دئے ہوتے تو اس مشق کی اہمیت اتنی زیادہ بڑھ جاتی کہ چین کو بھی احساس ہو جاتا کہ اس کے اچھے دن ختم ہونے والے ہیں اور دنیا کو بھی خبر ہو جاتی کہ اب امریکہ کی قیادت میں چین کے خلاف ایک بیحد مضبوط بلاک وجود میں آرہا ہے۔ لیکن یہ مشق ہو ہی رہی تھی کہ یہ معلوم ہونے لگا کہ ٹرمپ کی شکست یقینی ہے۔ اس لئے اس مشق کا غلغلہ بھی اس شکست کی نذر ہو گیا۔ اس مشق سے جو مقاصد حاصل کئے جانے تھے، وہ حاصل بھی ہو سکتے تھے یا نہیں ، اس بحث کو ہم کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔
 فی الوقت تمام تر تشویش یہ ہے کہ آج کل بر اعظم ایشیا میں جو سرگرمیاں برپا ہیں،خواہ ان کی نوعیت معاشی ہو ، یا ان کا تعلق اس حکمت عملی سے ہو جو مستقبل قریب میں نہ صرف ایشیا بلکہ تمام دنیا میں ایک نئے دور کے آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا، ہندوستان ان سرگرمیوں میں کہیں شامل نظر نہیں آتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موجودہ سرکار یا تو ان سرگرمیوں میں شامل ہونا ہی نہیں چاہتی، یا پھر ہو نہیں پارہی ہے۔ برکس آپسی معاشی تعاون کا وہ واحد بلاک ہے ، ہندوستان جس کا ممبر ہے۔اس کا گزشتہ ہفتہ ایک اجلاس بھی ہوا، جس کی میزبانی روسی صدر پوتن نے کی تھی۔ لیکن اجلاس محض وقت گزاری ثابت ہوا۔ اس میں کوئی کام کی بات سامنے نہیں آئی۔ اس کی ایک وجہ بھی ہے۔ برکس میں شامل ممالک یعنی برازیل، روس، انڈیا، چین اور سائوتھ افریقہ میں چین وہ واحد ملک ہے جس کی جی ڈی پی مثبت ہے۔ باقی چاروں ممالک کی شرح نمو منفی ہو چکی ہے۔ آپسی معاشی تعاون کا ایک اور بلاک ہے، جسے ASEANکے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایسیان اسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ نیشن  کا مخفف ہے۔ لیکن ہندوستان اس میں پوری طرح شامل نہیں ہے۔ اس کی حیثیت ایک مہمان رکن کی ہے۔ گزشتہ تقریباََ دوہفتہ قبل پندرہ ممالک نے آپسی معاشی تعاون کے ایک ایسے تاریخی معاہدے پر دستخط کئے ہیں، جس کے بارے میں یہ یقین کیا جاتا ہے کہ یہ مستقبل قریب میں ایک ایسے معاشی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتاہے، جو معاشی اعتبار سے بر اعظم ایشیا کو دنیا میں وہی مقام دلا ئے گا، جو گزشتہ کئی صدیوں سے یورپ کو اور بیسویں صدی میں امریکہ کو حاصل تھا۔ اس معاہدے کو Regional Comprehensive Economic Cooperation Partnershipکانام دیا گیا ہے ، جس کا مخففRcep(رسیپ)ہے۔ یہ پندرہ ممالک چین، میانمار، بنگلہ دیش،تھائی لینڈ، فلپائن، کمبوڈیا، ویت نام، جنوبی کوریا، انڈونیشیا، برونئی، ملیشیا، جنوبی کوریا، جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ہیں۔ ہندوستان کو اس بلاک میں شامل ہونے کی کئی بار دعوت دی گئی، لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر مودی سرکار نے اس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔کہا جاتا ہے کہ چین نے اس معاہدہ کے تحت اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ دس برسوں میں اس بلاک میں شامل ممالک میں ۲۴؍کھرب ڈالر یعنی ہر سال ۲ء۴ ؍کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ خیال رہے کہ ان پندرہ ممالک کی قومی آمدنی یا جی ڈی پی ساری دنیا کی جی ڈی پی کی ایک تہائی ہے۔
 اگر ہندوستان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت چین سے اس کا سرحدی تنازع چل رہا ہے، تو یہ کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔ کیونکہ معاہدے میں شامل کئی ممالک سے چین کے چھوٹے یا بڑے سرحدی تنازعات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر انڈونیشیا، ملیشیا،  فلپائن سے جنوبی بحرالکاہل کے چند جزائر پر چین سے اختلافات ہیں۔ جاپان اور ویت نام سے تو بہت پرانے اور بڑے بڑے اختلافات ہیں۔ لیکن اس معاہدے کے لئے ان ممالک نے اپنے تمام تراختلافات بالائے طاق رکھ دئے۔ عوام کی معاشی صحت کی بہتری کے لئے ان ممالک نے اس معاہدے کو ترجیح دی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی طے پایا ہے کہ جو تنازعات ہیں ،وہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا عمل جاری رکھا جائے گا۔ ہندوستان بھی یہی کر سکتا تھا، لیکن اس نے نہیں کیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس معاہدے سے الگ رہناہندوستان کے لئے آگے چل کر غیر سود مند ثابت ہوگا۔ یہاں یہ بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہئے کہ ’رسیپ‘ معاہدہ میں جاپان اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں۔ یہ وہ دو ممالک ہیں جن کی افواج نے ہندوستان کے ساتھ حالیہ جنگی مشق میں حصہ لیا تھا۔کیا اس کا سیدھا سادا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دونوں ممالک اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس سے کس قسم کی اور کس حد تک دوستی رکھنی اور نبھانی چاہئے؟ 
 ہماری خارجہ پالیسی بنانے والے باتیں چاہے جتنی بڑی بڑی کر لیں ، لیکن سچائی سے رو گردانی نہیں کی جا سکتی اورسچائی یہ ہے کہ اس وقت ایشیا میں ہمارا ایک بھی دوست نظرنہیں آتا۔ اس سے زیادہ تشویشناک بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ کل تک سارک کے جو ممالک قیادت کے لئے ہندوستان کی طرف تکتے تھے، آج وہ سب اپنی اپنی راہ لے رہے ہیں۔ انہیں اس کی بھی فکر نہیں کہ سارک کا اجلاس ہوتا ہے یا نہیں۔ یہ ممالک اس نئے بلاک کو سارک کا متبادل سمجھ رہے ہیں۔سنگاپور کے عالمی شہرت یافتہ عالم معاشیات ڈاکٹر کشور مہبوبانی کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۴ ءسے پہلے اکیسویں صدی کے ایشیا کی دو معیشتیں چین اور ہندوستان تھیں، لیکن ہندوستان کی غلط اور بے سروپا معاشی پالیسی کی وجہ سے چین نے ہمیں بالکل پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس طرح دنیا سے الگ تھلگ رہ کر تو ہماری معاشی بقا کسی طور ممکن نہ ہوگی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK