Inquilab Logo

غزہ کا درد اور فنکاروں کا احتجاج

Updated: April 18, 2024, 1:01 PM IST | Mumbai

یہ وہ شخصیات ہیں جن کے مداحوں میں چند ممالک کے نہیں، پوری دُنیا کے لوگ ہیں۔ اسکے باوجود اُنہوں نے مصلحت کو پیش نظر نہیں رکھا بلکہ انسانی ہمدردی کے اظہار کو اولیت دی اور بے ضمیری کے دور میں ضمیر کو زندہ رکھنا ضروری سمجھا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

’’بچوں کو مارنا بند کیجئے، ہمیں اب مزید جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔ اسرائیل پر حملہ خوفناک تھا مگر یہ، غزہ میں معصوموں کو ہلاک کرنے کا جواز نہیں فراہم کرتا، غزہ کے لوگ نہ تو کہیں جاسکتے ہیں نہ ہی اُن کے پاس پینے کا پانی ہے، اُنہیں وہاں سے نکالا بھی نہیں جاسکتا، اُن کے پاس سرحد پار کرکے اپنی جان بچانے کا بنیادی انسانی حق بھی نہیں ہے، غزہ جو دو دہائیوں سے کھلی جیل بنا رہا، اب اجتماعی قبر میں تبدیل ہوچکا ہے، مَیں اپنا یہ ایوارڈ غزہ کے لوگوں اور ہمارے اُن بھائی بہنوں کے نام کرنا چاہتی ہوں جو غزہ میں ہمارے لوگوں کیلئے لڑ رہے ہیں۔ ‘‘
یہ بیانات مغربی دُنیا کی اُن مشہور شخصیات کے ہیں جو غزہ کے درد کو دل کی گہرائی سے محسوس کررہے ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری کی طرح خاموشی اختیار کرنے یا چند علامتی اقدامات پر اکتفا کرنے کو ترجیح نہیں دی بلکہ غزہ میں پچھلے چھ ماہ سے ڈھائی جانے والی قیامت کے خلاف کھل کر احتجاج کیا۔ یہ وہ شخصیات ہیں جن کے مداحوں میں چند ممالک کے نہیں، پوری دُنیا کے لوگ ہیں۔ اسکے باوجود اُنہوں نے مصلحت کو پیش نظر نہیں رکھا بلکہ انسانی ہمدردی کے اظہار کو اولیت دی اور بے ضمیری کے دور میں ضمیر کو زندہ رکھنا ضروری سمجھا۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر متوجہ کیا تھا کہ غزہ میں جنگ کو روکئے کہ یہ خلاف ِ انسانیت جنگ ہے۔ جن شخصیات نے انفرادی طور پر بھی اپنی آواز بلند کی اُن میں سیلینا گومز، انجلینا جولی، مارک رَفیل، گِگی حدید، جو َن کوسک، سوسن سرانڈیم، بلی ایلش اور رمی یوسف کے نام جانے پہچانے ہیں۔ 
مذکورہ بالا بیان کہ ’’مَیں اپنا ایوارڈ-----‘‘ اوَنتیکا وندناپو نامی ہندوستانی نژاد امریکی اداکارہ کا ہے۔ اس اداکارہ کو ہارورڈ یونیورسٹی نے ساؤتھ ایشین پرسن آف دی ایئر جیسے گرانقدر ایوارڈ سے نوازا تو اُس نے ایوارڈ قبول کرنے کے بعد اہل غزہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ جس عمر (۱۹؍ سال) میں اَونتیکا نے اہل غزہ کے ساتھ کھڑے رہنے کا جرأتمندانہ فیصلہ کیا اُس میں ہمارے یہاں کے لڑکے لڑکیاں سوچتے ہیں کہ ابھی ان باتوں پر اظہار خیال کی اُن کی عمر نہیں ہے۔ 
مذکورہ شخصیات کا تعلق تفریحات کی دُنیا سے ہے یعنی وہ اداکار، گلوکار وغیرہ ہیں مگر سیاستدانوں اور اہم عہدوں پر فائز افراد کی بھی طویل فہرست ہے جنہوں نے صدائے احتجاج بلند کی اور اتنے پر اکتفا نہ کرتے ہوئے اپنے عہدوں سے استعفےٰ دے دیا۔ ان میں گزشتہ ماہ کے اواخر میں شامل ہونے والا نام حکومت امریکہ کی وزارت خارجہ کی افسر اینیل شیلائن کا ہے جنہوں نے بائیڈن کی اسرائیل پالیسی سے ناراض ہوکر اپنا عہدہ ترک کیا۔ اس جرأتمند افسر کا کہنا تھا کہ ’’میں اپنا کام کرنے کے قابل ہی نہیں رہ گئی تھی، (اتنی تباہی اور ہلاکتوں کے ماحول میں ) حقوق انسانی کی وکالت کرنا ممکن نہیں رہ گیا تھا۔ ‘‘ 
مسئلۂ فلسطین نیا نہیں ہے۔ جنگ بھی پہلی بار نہیں ہوئی ہے۔ مگراسرائیل کے ناجائز قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب فلسطین کے خلاف عالمی رائے عامہ بڑی حد تک تبدیل ہوئی اور الگ الگ ملکوں کے خاص اور عام شہریوں نے اسرائیل فلسطین تنازع کو بالتفصیل سمجھنے کی کوشش کی، اہل فلسطین کے جذبات و احساسات کو محسوس کیا اور اُن کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا۔ اس سے قبل اہل غزہ کو اتنی حمایت کبھی نہیں ملی ہوگی۔ اُنہیں قربانیاں تو بہت دینی پڑیں مگر فتح اُنہی کو میسر آئی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK