Inquilab Logo Happiest Places to Work

فلسطینی مزاحمت، جاری تھی، ہے اور رہے گی!

Updated: April 05, 2024, 3:59 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

آج یوم القدس ہے۔ ہر سال یہ دن رمضان کے آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع کو منایا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ ۱۹۷۹ء سے جاری ہے جب علامہ امام خمینیؒ نے اس کا اعلان کیا تھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

آج یوم القدس ہے۔ ہر سال یہ دن رمضان کے آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع کو منایا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ ۱۹۷۹ء سے جاری ہے جب علامہ امام خمینیؒ نے اس کا اعلان کیا تھا۔ اس دن پوری دُنیا میں فلسطین پر اسرائیل کے مظالم کے خلاف صداءِ  احتجاج بلند کی جاتی ہے اور اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا جاتا ہے۔ تب سے لے کر اب تک پینتالیس سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے اور یہ دن تمام عالم میں کسی تعطل کے بغیر منایا جارہا ہے۔ غور کیجئے اتنی بڑی مزاحمت نہ ہوتی تو اسرائیل کی جارحیت کا کیا عالم ہوتا۔ اِس میں شک نہیں کہ اسرائیلی حکومت بے لگام ہے اور کسی کی نہیں سننا چاہتی مگر اس پر دباؤ تو پڑتا ہے۔ یوم القدس بھی اس کی بے لگامی کو لگام دینے کا ایک طریقہ ہے۔ ویسے ۷؍ اکتوبر کے بعد سے گزشتہ کم و بیش ۱۸۰؍ دنوں میں جو کچھ ہوا ہے اُسے اب تک کی سب بڑی جنگ کا نام دیا جاسکتا ہے کیونکہ ایک خاص علاقے (غزہ) میں اسرائیلی حکومت نے جارحیت کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اگر یہ جنگ تھی تو جنگ کے بھی کچھ اُصول ہوتے ہیں۔ نیتن یاہو کی حکومت نے جنگی اُصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ عالمی برادری حد درجہ مصلحت اندیش اور ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کرنے کے بجائے مظلوم کے خلاف ظالم کی علانیہ یا غیر علانیہ مدد کرنے والی نہ ہوتی تو اس کی دھاندلیوں اور خلاف ورزیوں کا سخت نوٹس لے کر عالمی قوانین کے مطابق اس کے خلاف سزا تجویز کی جاسکتی تھی۔ معاشی ناکہ بندی تو بہت آسانی سے شروع کی جاسکتی تھی مگر اِس برادری نے اہل غزہ کے ساتھ ہمدردی تو جتائی، اسرائیل کے خلاف کارروائی کے بارے میں نہیں سوچا۔ بعض اطلاعات میں ہمیں بے شرمی کی یہ اطلاع بھی پڑھنے کو ملی کہ جو بائیڈن نے منگل کو وہائٹ ہاؤس میں چند مسلم کمیونٹی لیڈروں سے کہا کہ اِن دِنوں، اُن کی بیوی جِل بائیڈن بھی اصرار کررہی ہیں کہ اسرائیل فلسطین ’’جنگ کو بند کرو، اب اسے بند کرو۔‘‘ جو بائیڈن میں احساس ذمہ داری ہوتا ، اُنہیں اہل غزہ کی آہیں اور کراہیں پریشان کررہی ہوتیں، بچوں کی ہلاکتوں پر اُن کا دل خون کے آنسو روتا اور اُنہیں حقوق انسانی کی پروا ہوتی تو وہ مسلمانوں کو یہ نہ بتاتے کہ اُن کی بیوی کیا کہہ رہی ہے بلکہ جو کچھ کہہ رہی ہے اُس پر عمل کرچکے ہوتے۔
 مگر افسوس، ایسا لگتا ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کر تمام ممالک درِ پردہ اسرائیل ہی کی مدد کررہے ہیں اور اُن خبروں سے چشم پوشی کررہے ہیں جن میں صحافیوں اور  امدادی کارکنان کی موت کی تفصیل فراہم کی گئی ہے۔ ان اموات پر امریکہ کیا سوچتا ہے یہ بتانے کے بجائے عالمی میڈیا بھی غیر اہم خبرو ںکو اہمیت دینے کا اپنا  طرز عمل جاری رکھتا ہے چنانچہ اس کی جانب سے غزہ کی زمینی صورتحال کی تفصیل نہیں ملتی البتہ یہ ضروری بتایا جاتا ہے کہ بائیڈن اور یاہو میں آج کل فون پر رابطہ نہیں ہے۔ اسکائی نیوز کے ایک صحافی کے بقول کئی ہفتے گزر گئے جب اُن کے درمیان بات چیت نہیں ہوئی۔ یہ مصلحت ہے، ڈراما ہے، تماشا ہے، ناراضگی ظاہر کرنے کی کوشش ہے، کیا ہے، یہ سمجھنا مشکل ہے مگر، ہمارے خیال میں، جب گفتگو ہوگی تو یہ دونوں لیڈران اہل غزہ کی مزاحمت پر اظہار ِ حیرت و تاسف کرینگے کہ اہل غزہ تو اب بھی سر اونچا کئے ہوئے ہیں، اتنی بڑی طاقت ایک چھوٹی سی پٹی اور آبادی کو زیر نہیں کرپائی، حالانکہ تباہی و بربادی کا کوئی موقع نہیں چھوڑا گیا اور عورتوں، بچوں ، ضعیفوں اور اسپتالوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ یہ اسرائیل کی ہار ہے! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK