Inquilab Logo

پنڈت نہرو کے ساتھ اندرا گاندھی اور وجے لکشمی پنڈت بھی تھیں

Updated: May 22, 2023, 5:32 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

ممبرا کوسہ میں مقیم اعجاز احمد خان کا تعلق اُترپردیش کے اُناؤ ضلع سے ہے۔ ان کی زندگی جدوجہد سے بھری ہوئی ہے۔ وہ عمر کے اس مرحلے میں بھی پوری طرح فعال ہیں اور تکیہ مسجد پریل، ممبئی کے پاس گزشتہ ۲۰؍سال سے ہرجمعہ کو عطرفروخت کرنے کیلئے آتےہیں

photo;INN
تصویر :آئی این این

اعجاز احمد خان کو بچپن ہی سے سیر وتفریح کا شوق رہا ہے۔ ایک مرتبہ کسی بات پر والدہ کی سرزنش سے دل برداشتہ ہوکر ۱۷؍سال کی عمر میں بغیر بتائے گھر سے فرارہو گئے تھے۔ اس  واقعے کو بیان کرتے ہوئے انہوں نےکہاکہ ’’ اپنی مزدوری سے بچائے ۱۰۰؍روپے جیب میں رکھ کر میں پہلے دہلی گیاتھا۔ اس وقت دہلی کیلئے ریلوے ٹکٹ کا کرایہ ۶؍ روپے تھا۔ دہلی میں لال قلعہ، قطب مینار اور جامع مسجد وغیرہ دیکھ کر اور شاہی امام کی تقریر سن کر وہاں سے لکھنؤ ، پھر اُنائو  اور کانپورہوتاہوا اپنے گائوں ’پوروا‘ پہنچا تھا۔ سستائی کا ایسا دور تھاکہ مذکورہ رقم میں ان  تمام جگہوں کا دورہ کرنے اور کھانے پینے کی ضروریات پوری کرنے کےباوجود ایک معقول رقم بچ گئی تھی۔ ٹرین میں ڈیڑھ روپے کا عمدہ قسم کا کھانا ملتاتھا جس میں ۳؍روٹی، چاول، دال ، سبزی، دہی اور گلاب جامن  ہوتا تھا۔ پوروا پہنچنے سے پہلے میرے گھروالوں تک میرے آنے کی اطلاع پہنچ گئی تھی۔ میرے عزیزوںنے گائوں پہنچنے کی اطلاع تار کے ذریعے والدین کو دی تھی۔ اس زمانےمیں خط اور تار ہی ترسیل کا ذریعہ تھے۔ سستا ہونے سے عموماً لوگ پوسٹ کارڈ استعمال کرتےتھے۔پوسٹ کارڈ کو  دیکھ کر ہی اس میں درج پیغام کا اندازہ لگالیاجاتاتھا۔ پوسٹ کارڈ کا مخصوص سرا اگر کٹا ہوتو اس سے کسی کی موت اور یہی سرا اگر سرخ ہوتو کسی کے بیمار ہونے کاگمان کیاجاتاتھا۔جو لوگ تار کاخرچ برادشت نہیں کر سکتے  تھے ۔وہ پوسٹ کارڈ پر ان علامات سے اطلاع دیتےتھے۔‘‘  
وزیراعظم کی کوئی خاص سیکوریٹی نہیں تھی
  پنڈت جواہرلال نہرو کی ممبئی آمد سےمتعلق انہوںنے بتایاکہ ’’ڈونگری چلڈرنس ہوم میں قائم کئے گئے ’نونہال اسٹڈی سینٹر‘ کاافتتاح کرنےکیلئے  وزیراعظم آئےتھے۔ ان کی آمدکی وجہ سے پورے علاقے کی صفائی کی گئی تھی۔ ان کی موٹرکار کھڈےکی باڑی کے پاس آکر رکی تھی۔ کار میں ان کے ساتھ اندار گاندھی اور وجے لکشمی پنڈت بھی تھیں۔ یہ تینوں لوگ کار میں بیٹھے تھے۔انہیں کار میں بیٹھےقریب سے دیکھنے کا موقع ملاتھا۔ اس وقت پولیس پہرہ نہیں تھا۔ بڑے آرام سے لوگ انہیں دیکھ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد پنڈت نہرو اوران کے ہمراہ اندرا گاندھی اور وجے لکشمی پنڈت کار سے اُتریں ، یہ لوگ کھڈے کی باڑی سے ڈونگری چلڈرنس ہوم تک پیدل ہی چلتے ہوئےگئےتھے لیکن ان کے لئے پولیس بندوبست کے نام پر کوئی خاص اہتمام نہیں تھا۔ آج کوئی بڑا لیڈر کہیں جاتاہے تو پورے علاقے کو پولیس چھائونی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔‘‘
 اسے خوش دیکھ کرمیرے ضمیر کو کچھ سکون ملا تھا
       اعجاز احمد کو بچپن  ہی سے سیر وتفریح کا شوق رہاہے۔ ملک کے متعدد صوبو ں کے کئی اہم شہروںکا دورہ کرنے کے علاوہ وہاں کی تہذیب و ثقافت سے بھی واقفیت رکھتےہیں۔ کلکتہ کے دورے سےمتعلق انہوں نے بتایاکہ’’ پتنگ کے کام کے سلسلے میں اپنے ساتھی جان عالم کےہمراہ ۱۹۶۷ءمیں کچھ دنوں کیلئے کلکتہ گیاتھا۔ ہاوڑہ اسٹیشن پر اُترکرکیلا  بگان جانےکیلئے ہم نے انسانی رکشہ کیاتھا۔میں بیٹھنے کوتو رکشے پر بیٹھ گیالیکن ہمیں سیٹ پر بٹھا نے کےبعدجیسے ہی رکشے والے نے گھوڑے کی طرح دوڑنا شروع کیا ، اس کی محنت ، اس کا پسینے میں شرابور ہونا اوراس کی ہانپتے کانپتے  دوڑنے کی سعی دیکھ کر میرا کلیجہ منہ کو آنے لگاتھا۔ میرا ضمیر مجھ پر ملامت کررہاتھا۔ میں خود کو مجرم سمجھ رہا۔ میری کیفیت ایسی ہوگئی تھی کہ جیسے میں کسی پر ظلم کا پہاڑ توڑرہاہوں۔ چند ہی لمحوں میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔ جان عالم میری حالت دیکھ کر حیرت زدہ تھا۔میری سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ میں کیاکروں ، کسی طرح ہم اپنی منزل پر پہنچے ، جان عالم نے اسے ۵۰؍پیسہ نکال کردیا، اس نے بلاتامل پیسہ لے لیا، لیکن اس کی بے بسی سے میں پانی پانی ہوگیاتھا۔ میں نے اپنی جیب سے مزید ۵۰؍ پیسہ نکال کراسے دیا۔ اضافی پیسہ ملنے سے اس کے چہرہ کی تھکاوٹ دور ہوگئی تھی۔ اس کی وہ خوشی دیکھ کرمیرے ضمیر کو کچھ سکون ملا تھا لیکن اس کے بعد جب تک میںکلکتہ میں رہا ،میں نے انسانی رکشہ پر سواری نہیں کی۔‘‘         
اُس طرح کا جلوس میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا
 بیت المقدس پر قبضے کے خلاف اُس وقت کے مقبول ترین سیاسی لیڈر عبدالقادر حافظ کا کی آواز پر جھولا میدان سے ایک جلوس نکالاگیاتھا جس میں مسلمانوں کا جم غفیر تھا۔بڑی ڈسپلن سے جلوس نکالاگیاتھا ۔ ہزاروںکامجمع تھا ۔ جلوس کےشرکاء نے جس صبر وتحمل کا مظاہرہ کیاتھا ، وہ اپنی مثال آپ تھی۔خاموشی سے نکلنے والے جلو س کاایک سراجھولا میدان کے پاس تھا تو دوسرا سرا آزاد میدان پرتھا۔ ہم ۵؍دوست جلوس کہاں تک گیاہے یہ معلوم کرنےکیلئے جھولا میدان سے پیدل روانہ ہوئے تھے۔ وی ٹی اسٹیشن پہنچنے پر بھی بھیڑ کا وہی عالم تھاجو جھولامیدان پر چھوڑآئے تھے۔ اس طرح کا جلوس میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ہے۔‘‘
 وہ زلزلہ یاد آتا ہے تو روح کانپ جاتی ہے
   ممبئی میں آنےوالے ایک زلزلے میں بارےمیں انہوںنے بتایا کہ ’’ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ میں کھڈے کی باڑی ،کی ساجن چال میں رہتاتھا۔ چال میں چارپائی پر سونےکی عادت تھی۔ ایک روزنصف شب اچانک چارپائی کے پلٹنے سے میں فرش پر جاگرا ، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیسے کیا ہوا، بس اماں اماں چلارہاتھا۔ میری آواز سن کر والدہ گھر سے باہر آکرکہنےلگیں کہ کیاہوا؟میرے منہ سے اماں کے علاوہ کچھ نہیں نکل سکا تھا۔ میں نے چارپائی کی طرف اشارہ کیا۔ دریں اثنا علاقے کے  دوسرےگھروں  سے بھی چیخنے چلانے کی آواز یں آنے لگی تھیں۔ لوگ  گھر چھوڑکر سڑک پر آگئے تھے۔ ’زلزلہ زلزلہ‘ کی آواز گونج رہی تھی۔ زلزلہ کاجھٹکا ختم ہونے کےبعد بھی زمین سے ایک قسم کی خوفناک آواز آرہی تھی جس کے بارےمیں سوچتاہوں توروح کانپ جاتی ہے۔‘‘
رکشے والے کی بے ایمانی
 اعجاز احمد کے بقول ’’ ۱۹۶۲ء میں ایمبرائڈری کے کام کیلئے بنگلو ر جانےکا اتفاق ہوا۔ وہاں کی زبان سے لاعلمی اور علاقےمیں اجنبی ہونے سے بڑی پریشانی ہوئی۔ مجھے یہ صرف معلوم تھاکہ بنگلور میں وجئے نگر نامی علاقےمیں مسلمانوںکی آبادی ہے۔ بنگلور اسٹیشن سے وجئے نگر کیلئے رکشہ کرناتھا لیکن وہاں کی زبان نہ جاننے سے رکشہ والا سمجھ گیاتھاکہ یہ اجنبی ہے۔ میں نے اس سے وجئے نگر کی معروف تاج ہوٹل چلنےکیلئے کہا، اسٹیشن سے وجئے نگر قریب ہی تھالیکن رکشہ والے نے کرائے کے طورپر اُس دورمیں مجھ سے ۱۰۰؍روپے کامطالبہ کیاتھا۔ ہم دونوں میں کرائے کی رقم کولے کرہونےوالی تکرار دیکھ کر کچھ مقامی مسلمان آگئے تھے۔ انہوںنے کہاکہ آپ اسے ۱۰۰؍روپے دے دیں پھر ہم اسے بتاتےہیں ۔ میرے۱۰۰؍روپے دینے کےبعد وہ لوگ رکشہ ڈرائیور کو پولیس اسٹیشن لے گئے۔پولیس نے رکشہ والے سے تفتیش کی ، بعدازیں اس کا لائسنس ضبط کرلیا اور ۱۰۰؍روپے اس سے  لے کر مجھے لوٹادیا۔ میں نے اس کا کرایہ دینا چاہا تو پولیس نے کہاکہ اس نے بے ایمانی کی ہے، اسلئے اسے ایک پیسہ نہیں دینا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK