Inquilab Logo

صبر، شکر اور استغفار

Updated: August 27, 2021, 3:56 PM IST | Ibn Qayyim al-Jawziyya

یہی تین چیزیں دنیا و آخرت میں انسان کیلئے سعادت کا پیش خیمہ اور فلاح و کامیابی کی ضامن ہیں اور جن سے کسی وقت بھی بے نیازی نہیں

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

حضرت انسان اللہ تعالیٰ کے گوناگوں اور بے شمار ظاہری و باطنی احسانات و انعامات کا ہر وقت اور ہر ساعت ممنون احسان ہے اس لئے اس کا فرض ہے کہ اللہ عز و جل کے انعامات پر شکر بجالائے، امتحان و ابتلائے مصائب میں صبر کرے اور گناہ سرزد ہونے پر توبہ و استغفار کرے اور ان پر پوری قوت اور استقلال سے قائم و دائم رہے کیونکہ یہی تین چیزیں ہیں جو دنیا و آخرت میں انسان کے لئے سعادت کا پیش خیمہ اور فلاح و کامیابی کی ضامن ہیں اور جن سے انسان کو کسی وقت بھی بے نیازی نہیں۔ جب بھی دیکھا جائے اللہ تعالیٰ کے فیضان رحمت و نعمت کی بارش انسان پر موسلادھار بارش کی طرح پے در پے برس رہی ہے جسے قائم و دائم اور جاری رکھنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے ’’شکرخداوندی۔‘‘
شکر
شکر کے تین ارکان ہیں ، یعنی اس کی ادائیگی تین باتوں پر مبنی ہے:
اول: دل میں اعترافِ نعمت۔
 دوم: زبان سے انعامات ِ خداوندی کا تذکرہ یعنی تحدیث نعمت۔
 سوم: منعم حقیقی کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اسی کے حسب ِ مرضی و منشا شکر بجالانا اور اس میں اپنی طرف سے کسی قسم کا تصرف اور کمی بیشی نہ کرنا۔  ان شرائط کے مطابق شکر بجالائے تو گویا اس نے حق نعمت ادا کردیا اور شکر بجالایا اگرچہ اس کے بعد بھی کماحقہ ادا کرنے سے انسان قاصر ہی رہے گا۔
ارکانِ صبر
 علی ہذاالقیاس بعض دفعہ بارگاہِ الٰہی سے انسان کی آزمائش اور امتحان لینا مقصود ہوتا ہے جس کے پیش نظر وہ مصائب میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں انسان کا فرض ہے کہ کسی قسم کی گھبراہٹ کے بغیر اس پرپورا صبر کرے ۔
 صبر کے بھی تین ارکان ہیں: حبسِ نفس ، حبسِ لسان ، حبسِ جوارح، یعنی نفس کو تقدیر پر ناراض ہونے سے ، زبان کو شکوہ کرنے سے اور اعضاء و جوارح کو معصیت کے کاموں مثلاً سینہ کوبی، سر پیٹنے، گریبان پھاڑنے اور بال نوچنے وغیرہ سے روکنا۔ اس کا نام صبر ہے اور یہی وہ تین باتیں ہیں جن پر صبر کا دارومدار ہے۔ اگر پوری قوت سے انسان کماحقہ انہیں بجالائے تو یہ تمام مشکلیں اس کے حق میں آسانیاں بن جاتی ہیں ، وہ مصائب کو انعام خداوندی تصور کرتا ہے اور ہر تکلیف دہ چیز اس کے لئے مرغوب طبع اور فرحت انگیز ثابت ہوتی ہے اس لئے وہ تمام مصیبتوں کو پورے انشراحِ صدر سے جھیل جاتا ہے، کیونکہ اسے پورا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے خواہ مخواہ تنگ نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس سے اس کے انقیاد و عبودیت اور صبر کا امتحان لینا مقصود ہے۔ جس طرح امن و خوشحالی میں اس پر عبادت ِ خداوندی کا حق عائد ہوتا ہے بعینہ اسی طرح تنگدستی و بدحالی میں بھی عائد ہوتا ہے۔ علیٰ ہذاالقیاس جس طرح مکروہات میں ہوتا ہے اسی طرح محبوبات میں بھی ہوتا ہے۔ اکثر لوگ امن و خوشحالی میں عبادت گزار بن جاتے ہیں لیکن مصائب و مشکلات میں ترک کردیتے ہیں، حالانکہ زمانۂ مصائب و مشکلات کی عبادت خاص اہمیت کی حامل ہے۔۔

آرام و تکلیف کی عبادات میں فرقِ مراتب
  اس لحاظ سے انسان بھی مختلف المراتب ا ور مختلف المدارج ہیں اور اسی تناسب سے اللہ کے ہاں ان کی قدر و منزلت ہوگی۔ 
 دیکھئے! شدت کی گرمی میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا عبادت ہے۔ اہل و عیال اور بیوی بچوں اور اپنے نفس پر خرچ کرنا بھی عبادت ہے۔ اس کے بالمقابل شدت کی سردی میں سرد پانی سے وضو کرنا بھی عبادت ہے۔ اسی طرح قحط سالی اور تنگدستی میں خرچ کرنا بھی عبادت ہے لیکن ان دونوں قسم کی عبادات میں بڑا اور نمایاں فرق ہے۔
 جو شخص تنگی و خوشحالی، آرام و تکلیف دونوں حالتوں میں عبادت ِ خداوندی و اطاعت ِ الٰہی کو کماحقہ بجالائے تو ایسے شخص کے تمام معاملات اور کاروبار کا خود اللہ عز و جل کافی و کارساز ہوجاتا ہے اور آیت ذیل کا مصداق بن جاتا ہے کہ : ’’کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے؟‘‘  (الزمر:۳۶)
 غرضیکہ عبودیت ِ تامہ ہوگی تو خداوندتعالیٰ کی طرف سے کفایت بھی تامہ ہوگی، عبودیت ناقص ہوگی تو کفایت بھی ناقص ہوگی۔ لہٰذا اگر کسی کو فائدہ حاصل ہو تو اسے اللہ کی حمد کرنا چاہئے ۔ اگر نقصان ہو تو اپنے ہی نفس کو ملامت کرنی چاہئے۔ یہی وہ اللہ کے برگزیدہ لوگ ہیں جن پر شیطان کا دام کم چلتا ہے اور وہ ان پر غالب نہیں آسکتا ، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے: ’’بیشک میرے (اخلاص یافتہ) بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا۔‘‘ (الحجر:۴۲)
 ابلیس بھی بخوبی جانتا ہے کہ اللہ عز و جل اپنے مخلص بندوں کو اس کے ہتھکنڈوں میں نہیں آنے دیتا اور نہ ہی ان پر مسلط ہونے دیتا ہے، کیونکہ قرآن حکیم میں اس کا اعتراف موجود ہے:
 ’’اس نے کہا: سو تیری عزّت کی قسم! میں ان سب لوگوں کو ضرور گمراہ کرتا رہوں گا۔‘‘ (صٓ:۸۲)
 اور باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :’’بیشک ابلیس نے ان کے بارے میں اپنا خیال سچ کر دکھایا تو ان لوگوں نے اس کی پیروی کی بجز ایک گروہ کے جو (صحیح) مومنین کا تھا، اور شیطان کا ان پر کچھ زور نہ تھا مگر یہ اس لئے (ہوا) کہ ہم ان لوگوں کو جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ان لوگوں سے ممتاز کر دیں جو اس کے بارے میں شک میں ہیں۔‘‘ (سبا:۲۰۔۲۱)
 اس طرح اللہ عزوجل نے اپنے دشمن کو اپنے مومن بندوں پر کبھی غلبہ نہیں دیا کیونکہ وہ اس کی حفاظت و نگہبانی میں ہیں۔ 
شیطانی ہتھکنڈے
 البتہ جس طرح ایک عقلمند اور ہوشیار آدمی کو عقلمندی و ہوشیاری کے باوجود ایک چور داؤ لگا جاتا ہے، اسی طرح ایک مخلص مومن بھی شیطان کا داؤ کھاجاتا ہے اور اتنا سا داؤ تو وہ ضرور لگا جاتا ہے ۔ کیونکہ انسان سراسر شہوت و غفلت اور غضب کا پتلا ہے اور یہی تین چیزیں اس کے چور دروازے ہیں جن سے وہ موقع پا کر انسان کو داؤ لگاتا ہے۔ انسان جس قدر بھی اپنا بچاؤ اور حفاظت کرے ، آخر و ہ کتنی حفاظت کرے گا اس کے خمیر میں غفلت و نسیان موجود ہے ۔ اس کے اندر شہوت کی آگ بھی ہے اور اس میں غضب و غصہ کی چنگاری بھی دبی ہوئی ہے۔ آخر وہ کس کس چیز کا مقابلہ کرے گا اور کس کس چیز سے اپنی حفاظت کرے گا؟
 ابو البشر سیدنا آدم علیه السلام تمام مخلوق میں سب سے زیادہ ضبط و تحمل، سب سے زیادہ شعور کے حامل اور سب سے بڑھ کر ثابت قدم تھے مگر خدا کا دشمن ان سے ہر گز پیچھے نہ ہٹا اور بالآخر سیدنا آدم کو اس صورتحال میں لے آیا جس میں وہ لانا چاہتا تھا، تو کسی ناقص عقل والے کی بابت کیا خیال ہے؟ جب کہ اس کی عقل اس کے والد کی عقل کے مقابل سمندر میں جھاگ کی مانند ہے ‍ ؟ مگر خدا کا دشمن غفلت و لاپروائی کی حالت میں مومن تک دھوکے سے پہنچتا ہے، پس اس پر مسلط ہوتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ وہ اس کے بعد اپنے بزرگ و برتر پروردگار کی جانب متوجہ نہ ہوگا، اور اس واقعے نے تو یقیناً اسے سیدھے راستے سے بھٹکا چھوڑا اور نیست و نابود کر چھوڑا ہے، جب کہ اللہ کا فضل، اللہ کی رحمت اور اس کا عفو و درگزر ان تمام سے ماوراء ہے۔ 
 جب خداوند اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کیلئے توبہ، ندامت، انکسار اور نیازمندی، عجز، اللہ سے مدد طلبی اور اس کے سہارے کی سچی طلب اور عاجزی میں استقلال اور دعا کا در کھول دیتے ہیں، اور اللہ کی قربت جس قدر نیکیوں سے ممکن ہو سکے تا آنکہ اس کی وہ برائیاں بھی اللہ کی رحمت کا سبب بن جاتی ہیں اور بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ خدا کا دشمن شیطان پکار اٹھتا ہے : اے کاش میں اسے چھوڑ دیتا اور اس کے درپے نہ ہوتا۔
 بعض سلف کے اس قول کا یہی مطلب ہے: آدمی گناہ کرتے کرتے جنت میں داخل ہو جاتا ہے اور نیکی کرتے کرتے دوزخ میں پہنچ جاتا ہے۔ پوچھنے والوں نے پوچھا : ایسا کیونکر ہے؟ فرمایا : وہ گناہ کرتا ہے اور اس کا گناہ اس کی آنکھوں کے سامنے رہتا ہے، وہ اس سے ڈرتا ہے ، خوف کھاتا ہے، روتا اور نادم ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے شرمندہ ہوتا ہے ، شکستہ دل ہو کر اس کے سامنے سر نگوں ہو جاتا ہے، پس وہ گناہ بندے کی خوش بختی اور کامیابی کا ذریعہ بن جاتا ہے یہاں تک کہ وہ گناہ اس بندے کے واسطے ڈھیروں نیکیوں سے زیادہ سود مند ثابت ہوتا ہے کہ اس گناہ کے سبب اس سے کئی ایسے کام سرزد ہوتے ہیں جو اس کے لئے خوش بختی اور کامیابی کا ذریعہ بنتے ہیں، حتیٰ کہ وہ گناہ اس کے جنت میں داخل ہونے کا وسیلہ بن جاتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK