Inquilab Logo

پیٹرک مودیا نو:یادوں کو زندہ کرنے والاقلمکار

Updated: January 18, 2021, 2:39 PM IST | Shahid Nadeem

پیٹرک مودیا نو کو جب ۲۰۱۴ء کے ادبی نوبیل انعام کی خبر ملی تو وہ پیرس کی گلیوں میں گھومنے پھرنے کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے پہنچے تھے۔

Picture.Picture :INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

 پیٹرک مودیا نو کو جب ۲۰۱۴ء کے ادبی نوبیل انعام کی خبر ملی تو وہ پیرس کی گلیوں میں گھومنے پھرنے کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے پہنچے تھے۔ دوسروں کی طرح وہ خود بھی حیران تھے ، ان کا پہلا ردعمل تھا ’’ ناقابل یقین‘‘۔ نوبیل ایوارڈ کمیٹی کے سیکریٹری پیٹرانگلینڈ نے ان کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ دراصل یادوں کو زندہ کرنے کا اعزاز ہے۔ انہوںنے اپنی یادوں کے ذریعہ فن پاروں میں انسانی تقدیر کے اسرار کو بیان کرنے کی حیرت انگیز کوشش کی ہے، پیٹرنے مودیانو کی ناول نگاری کو سلام کرتے ہوئے انہیں نئے عہد کا مارسل پروست قراردیاتھا۔ پیٹرک مودیانو فرانس کے ممتاز اور مقبول ادیبوں میں گنے جاتے ہیں۔ فرانس سے باہر بہت کم لوگ ان سے واقف ہیں۔ غالباً اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کی تخلیقات کا انگریزی  میں بہت کم ترجمہ ہوا ہے۔ مودیانو کے بیشتر ناول کسی نہ کسی طرح ان کی ذاتی المیہ سے ابھری چیخ ہے، وہ کہتے ہیں ۔ ’’مجھے ہمیشہ محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک ہی کتاب لکھ رہا ہوں جس کا نتیجہ ہے کہ میں گزشتہ ۴۵؍ برسوں سے صرف ایک ہی کتاب پر رک رک کر کام کررہا ہوں، بار بار خواب دیکھتا ہوں کہ میرے پاس اب لکھنے کے لئے کچھ خاص نہیں رہ گیا ہے  ، لیکن یہ میرا وہم ہے ، آنکھ کھلتی ہے تو پھر اپنے آپ کو گھنی جھاڑیوں میں گھرا پاتا ہوں اور بدحواس ہوکر پھر لکھنے لگتا ہوں۔مودیانو نے جاسوسی ناول سے لے کر فلمی منظر  نامہ تک لکھے، مگر ان کی دلچسپی انسانی زندگی کی ان گہرائیوں میں اُترنے میں ہے جسے لوگ اکثر چھپانے یا دبانے کی کوشش کرتے ہیں، اور باہر نکل نہیں پاتے۔ ان کے ناول عموماً ۱۲۰؍ سے ۱۳۰؍  صفحات کے ہوتے  ہیں۔ ان کا اسلوب اتنا انوکھا اور زبان پوشیدہ معنی سے پُر ہوتی ہے کہ اکثر الفاظ صرف کاغذ پر لکھے  لگتے ہیں اور بعض وقت تو   وہ نظر بھی نہیں آتے ۔ ان کی تخلیقات کسی پہیلی کی طرح ہیں۔ 
 دراصل مودیانو فرانس کے اس عہد کے ترجمان ہیں جب اس پر نازیوں کا تسلط تھا،  لوگ نازیوں کے مظالم کا شکارتھے، یوں تو انہوں نے درجنوں ناول لکھے مگر ان میں پانچ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اسٹار پیلس ۱۹۶۸ء میں مطبوعہ ان کا  پہلا ناول تھا۔ اس وقت ان کی عمر محض بائیس برس تھی۔ اس میں دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں  کے ظلم وستم  کی داستان  نہایت ہی پُر اثر انداز میں بیان کی گئی ہے۔دس برس بعد ستمبر ۱۹۷۸ء میں دوسرا ناول مِسنگ پرسن (گمشدہ شخص ) شائع ہوا، اس کا انگریزی ترجمہ۱۹۸۰ء میں آیا۔ یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو ایک حادثے میں اپنی یادداشت کھو بیٹھا ہے ، اس کی ملاقات ایک جاسوس پرائیویٹ کمپنی کے مالک سے ہوتی ہے جو اسے  ایک نیا نام اور شناخت عطا کرتا ہے ۔ رونالڈ ، دس برس بعد  اپنی حقیقی شناخت کے لئے بے چین رہتا  ہے۔ ناول کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے، ’میں کچھ نہیں‘ کچھ بھی نہیں، ایک پیلی تصویر کے علاوہ ، جو کیفے کی دیوار سے لگی کھڑی ہے۔اس ناول کے لئے مودیانو کو پرکس گونکورٹ ایوار ڈ  پیش کیا گیا تھا۔
 ۱۹۹۰ء میں ان کا ناول ’ہنی مون ‘ شائع ہوا،  جو اس کا سب سے اہم ناول تسلیم کیاجاتا ہے۔ اس کی کہانی ہوٹل کے ایک بار سے شروع ہوتی ہے، اس کا مرکزی کردار زیاںبی ، اگست کی ایک گرم دوپہر میں بار میں ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ دوروز قبل ایک شناسا  خاتون اسی ہوٹل میں خودکشی کرچکی ہے وہ اس  کے اسباب جاننے پیرس کی گندگی اورغلیظ بستیوں کی  طرف نکل پڑتا ہے ۔ ناول میں اس خاتون کی زندگی کے کئی حیرت انگیز پہلو سامنے آتے ہیں۔
 ۱۹۹۷ء میں ان کا ایک اور ناول ’ڈورا بروڈر‘ شائع ہوا۔ اس کے بعد ۲۰۰۵ء میں ان کی کتاب ’اِن پیٹری گری ‘ آئی جو ان کی اکیس برس تک کی سوانح ہے ۔ اس کا انداز بیان بہت دلچسپ اور مؤثر ہے۔مودیانو کی پیدائش دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد ۳۰؍ جولائی ۱۹۴۵ء کو پیرس کے مضافاتی علاقہ کمیون میں ہوئی۔ باپ اطالوی یہودی اور ماں بلجیم اداکارہ تھی۔ والدین میں ہمیشہ لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا ۔ باپ مجرمانہ سرگرمیوں میں مصروف تو ماں  اپنی دنیا میں مست رہتی۔ دونوں کو خاندان اور بچوں کی پرورش پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں تھی۔ گھر میں وہ اپنے سے دو برس چھوٹے  بھائی روڈی سے جڑا تھا اور وہ دس سال کی عمر میں اس سے جدا ہوگیا۔ گھر میں صرف تین لوگ رہ گئے جو ایک چھت تلے اجنبیوں کی طرح رہتے ۔ کسی طرح ہائرسیکنڈری تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد سترہ برس کی عمر میں گھر سے نکل پڑا۔ پانچ سال تک پیرس کی سڑکوں پر اخبار اور کتابیں فروخت کرتا رہا۔ فرانس الجیریا جنگ کے دوران وہ پانچ دن تک بھوکا پیاسا ایک گندے نالے میں چھپا رہا۔ اس نے اپنے باپ سے کچھ مالی مدد کا تقاضا کیا مگر اس کے باپ نے مدد کے بجائے اسے پولیس کے حوالے کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔
  بچپن کی ساری تلخیاں اور تکلیفیں موویانو کے ناول میں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔ اپنی ماں کے مزاج کے بارے میں اس نے ایک جگہ لکھا تھا کہ وہ اتنی سخت مزاج اور غصہ والی تھی کہ ایک بار ان کے گود میں بیٹھے کتّے نے کھڑکی سے کود کر خودکشی کرلی تھی۔ مودیانو کی  پرورش ان کے نانا اور نانی نے کی ۔ اس کے بعد کا طالب علمی کا  زمانہ زیادہ تر ہوسٹل میں گزرا۔ بیس بائیس برس کی عمر میں اسے لکھنے میں دلچسپی ہوگئی۔ اسی دوران ماں کے ایک دوست ریمنڈ کیونیو سے اس کی ملاقات ہوئی جو خود بھی ادیب تھا۔  بہت جلد  ہی ملاقات دوستی  میں بدل گئی ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد وہ ناول نگاری پر سنجیدگی سے غور کرنے لگا۔ مودیانو نے جب پہلا ناول مکمل کرلیا تو ریمنڈ نے کی مار ڈ پبلی شنگ ہاؤس کے مالک سے اس کی ملاقات کرادی۔ انہوںنے یہ ناول شائع کرادیا۔ تب سے اب تک اس کے تمام ناول اسی پبلی شنگ ہاؤس سے شائع ہوتے ہیں۔ 
  اس کے باپ نے جب یہ ناول پڑھا تو سخت ناراض ہوا، اس کے مشکوک اور مُتّلون کردار میں شاید انہیں اپنی تصویر نظر آگئی تھی، اس نے ناول کی تمام جلدیں خرید کر جلانے کی دھمکی تک دے ڈالی۔ باپ اوربیٹے کے درمیان یہ آخری گفتگو تھی، اوریہ رشتہ کچھ اس طرح ختم ہوا کہ پیٹرک مودیانو کو آج بھی یہ نہیں معلوم کہ اس کے باپ کی قبر کہاں ہے۔   مودیانو کی پوری زندگی صرف لکھنے تک ہی محدود تھی، وہ کہتے ہیں: میرے پاس کوئی ڈپلوما نہیں تھا، لکھنا میری زندگی کا حصہ بن گیا۔ ایک نوجوان  کے لئے بطور ادیب اپنی جگہ بنانا بہت مشکل تھا لیکن میں اس کے علاوہ اورکچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔‘‘  اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ  میڈیا کی چکاچوندھ اور سوسائٹی کی ہنگامہ آرائی سے دور قلم  اور کاغذ کے درمیان ہی بسر کئے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK